زہراء زُہرہ اور زِہرہ
اسلام میں سیاہ رنگ بطور سوگ پہننے کی ممانعت ہے، لیکن یہ واحد ہستی ہیں جن کے اس فعل سے تَعَرُّض نہیں کیا گیا
KARACHI:
طویل مدت پہلے جب خاکسار نے بچوں کے رسالے 'پھول' اور پھر، بعد ازآں، 'آنکھ مِچولی' میں اصلاح زبان کے سلسلے میں مضامین لکھے تو ایک موضوع یہ بھی تھا ۔
سَیّدُِالعالَمین حضرت احمد مجتبیٰ (ﷺ) کی چہیتی دختر، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا لقب 'الزہراء [Az-Zahra]' برصغیر پاک وہند میں رائج تو بہت ہوا ، مگر اہل ایران کے زیراثر، اس کا تلفظ بگاڑ کر ، ''زِہرہ''[ZEHRA] پکارپکار کر اصل تلفظ تقریباً غائب کردیا گیا۔ یوں تو اصول کی بات ہے کہ کسی کا بھی نام بگاڑنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں، شرعی معاملہ بھی یہی ہے، مگر یہ رَوِش بہت عام ہوچکی ہے۔ معاملہ اُس وقت سنگین ہوجاتا ہے، جب کسی مقدس ہستی کے نام کا ایسا تلفظ شعوری طور پر رائج کیا جائے جس سے ناصرف نام کے معانی بدل جائیں، بلکہ بہت غلط معانی برآمد ہوں۔
(بل کہ لکھنا جدیدیت پسند حضرات کا شغل ہے، مگر اہل زبان کے دستور کے منافی ہے)۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مثال اِس ضمن میں یقیناً بہت نمایاں ہے۔ عربی زبان میں فقط زیر، زبر، پیش کے فرق معانی بدل جاتے ہیں اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نام ایک سے زائد ہجوں میں درست ہو اور اُس کے معانی نہ بدلیں۔ {یہاں ایک ضمنی مگر نہایت دل چسپ مثال ایک مجاہد صحابیہ شاعرہ حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کی ہے جن کا نام تینوں طرح لکھنا اور بولنا درست ہے: خُنساء، خَنساء اور خِنساء۔ اس منفرد شخصیت کا نام بھی منفرد ہے۔ عربی زبان میں خنساء، ہَرنی اور نیل گائے کو کہتے ہیں۔
عہدجاہلیت اور زمانہ اسلام میں حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کے دو بھائی جنگوں میں مارے گئے اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ' کے عہد خلافت کی مشہور جنگ قادسیہ میں چار فرزند شہید ہوئے۔ وہ اپنے سوتیلے بھائی سے، سگے بھائی سے بھی زیادہ پیار، گویا عشق کرتی تھیں۔ اس بھائی کے ایک جنگ میں مارے جانے پر اُنھوں نے اپنے سر پر سیاہ رومال بطور علامت سوگ باندھنا شروع کیا جو ساری عمر باندھتی رہیں۔
اسلام میں سیاہ رنگ بطور سوگ پہننے کی ممانعت ہے، لیکن یہ واحد ہستی ہیں جن کے اس فعل سے تَعَرُّض نہیں کیا گیا، بلکہ اگر مجھے اس وقت صحیح یاد ہے تو ایک روایت کے مطابق، سرکار دوعالم (ﷺ) نے انھیں اس کی اجازت دی تھی۔ شاعری میں اُن کا مقام پورے عالَم ِ عرب میں حضرت حَسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے برتر مانا جاتا تھا ، یعنی شاعرات میں اوّل اور تمام طبقہ شعراء میں دوسرے نمبر پر۔ بعض لوگوں نے کتابوں میں اپنے خیال سے یہ لکھا کہ خلافت عباسیہ کی تحریک میں سیاہ پرچم علامت ِسوگ کے طور پر اپنایا گیا، مگر تحقیق سے یہ بات بالکل اُسی طرح غلط ثابت ہوئی۔
جس طرح عباسی خلافت کے بانی ابوالعباس عبداللہ السفاح کے لقب کے مشہور اردو معانی۔ صحابی ابن صحابی سَیِدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ' کے پوتے محمد بن علی کے فرزند، عبداللہ کے اس لقب کا مطلب ہے ، بہت زیادہ سخی، جب کہ لوگوں نے یہ بے پَر کی اُڑائی کہ وہ بہت ظالم تھے، اس حوالے سے ایک جعلی واقعہ یہ بھی گھڑکر کتب میں شامل کیا گیا کہ انھوں نے اپنے دشمنوں کو مار کر اُن کی لاشوں پر دسترخوان سجایا تھا، لہٰذا انھیں سفاح یعنی ظالم کہہ کر پکارا گیا۔ (سوچنے کی بات ہے، کون شخص، ازخود، اپنے لیے کوئی بُرا لقب پسند کرے گا)۔ پہلے اس نکتے کی وضاحت ہوجائے کہ سیدہ کا لقب کیا معنی رکھتا ہے۔ لفظ 'الازہر' [Al-Az'har]مردانہ نام ہے جس کے معانی یہ ہیں: روشن، صاف رنگ والا، روشن چہرے والا، روزِ جُمعہ، تازہ دودھ، سفید رنگ کا شیر، چاند، جنگلی بیل....(یہ وہی لفظ ہے جو مصر میں موجود قدیم دینی درس گاہ کے نام کے طور پر معروف ہے )۔ اس کا مؤنث ہے 'زَہراء' ، گویا اس کا مطلب ہوا، روشن چہرے والی خاتون۔ اگر اس لفظ کے مصدر پر غور کیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ 'اَزہَر' [Az'har]کا مطلب ہے نمودار ہونا جیسے ''ازہر النبات' '[Az'har-un-Nabaat] کہتے ہیں کلی نکلنے (شگوفہ پھوٹنے) کو، جب کہ ''اَزہَرالنّار'' [Az'har-un-Naar]کے معنی ہیں آگ روشن کرنا۔ اسی سے لفظ بنا، 'زَہرہ'[Zah'rah] اور 'زَہَرہ' [Zaha'rah]یعنی کلی یا شگوفہ۔ ایک اور لفظ جو زیادہ معروف ہے، زُہرہ [Zohra or Zuhra]۔ اَلزُہرہ کہتے ہیں خوب صورتی کو، لہٰذا سیارہ زُہرہ [Venus]کو یونانی دیومالا میں حُسن کی دیوی کہا جاتا تھا۔ فارسی میں اس سیارے کو ''ناہید'' کہا جاتا ہے، اسی وجہ سے ناہید اور زُہرہ ہم معنی ہیں۔ اس لفظ کا بہترین استعمال اردو کے مشہور زمانہ شعر میں ملتا ہے:
؎ اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو۔ اَب آجائیں 'زِہرہ' کی طرف۔ عربی میں ''اَلزِہر وَالزِہرۃ'' کا مطلب ہے 'حاجت'، مگر معاملہ اُس وقت خطرناک ہوجاتا ہے جب اس کے فارسی معانی سامنے آتے ہیں۔ فارسی میں 'زِہرہ' کا مطلب ہے، زہر [Poison] اور پِتّہ[Gallbladder] ۔ فارسی محاورے میں 'زِہرہ آب شُدَن ' (یعنی پِتّہ پانی ہونا) سے مراد ہے بری طرح ڈرجانا۔ اب ذرا سوچیں کہ لوگ سیدہ فاطمۃالزہراء[Az-Zahra] رضی اللہ عنہا کا لقب بگاڑ کر کتنا گناہ کماتے ہیں۔ (مصباح اللغات عربی۔ اردو از ابوالفضل عبدالحفیظ بِلیاوی، لغات کشوری از مولوی تصدق حسین رضوی، فرہنگ آصفیہ از مولوی سید احمد دہلوی، حسن اللغات ودیگر لغات)۔ معروف شاعرہ زَہراء نگاہ کا اصل نام فاطمہ زَہراء یا زُہرہ بتایا جاتا ہے، مگر اُنھیں بھی اکثر زِہرہ کہا جاتا ہے۔ اَندَلُس [Andalus]یعنی قدیم اسپین میں قُرطُبہ [Cordoba/Cordova]کے نواح میں اُموی خلیفہ عبدالرحمن الناصر (عبدالرحمن ثالث)[912-961] نے ایک شان دار محل نُما شہر بسایا تھا جسے تاریخ میں 'مدینۃ الزہراء' یعنی روشن شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اپنی وسعت، اہمیت اور اکثر درباری اُمَراء کے دفاتر وغیرہ کی موجودگی کے سبب، اسے ایک طرح سے غیر رسمی دارالخلافہ کی حیثیت حاصل تھی۔ ( بہت سے لوگ جدید دور کے دارالحکومت کو بھی دارالخلافہ کہہ دیتے ہیں جو سرتاسر غلط ہے)۔ اس شہر میں بڑے بڑے استقبالیہ کمرے، مساجد، سرکاری و انتظامی دفاتر، باغات، ٹکسال، کارخانے، چھاؤنیاں، مکانات اور حمام تعمیر کیے گئے تھے جن میں زیرزمین بنائی گئی کاریزوں [Aqueducts]کے ذریعے پانی کی وافر مقدار فراہم کی جاتی تھی۔ یہ نظام آج بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہے، افسوس ہمارے یہاں بلوچستان میں یہی نظام بوجوہ ناکام ہوچکا ہے۔ اس شہر کی تعمیر کا آغاز سن نو سو چھتیس سے نوسوچالیس [936-940]کے درمیان ہوا تھا۔ آج بھی اس کے کھنڈر مسلم عہد اقتدار کی عظمت رفتہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
آئیے اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ ناموں کے بگاڑ کی ایک اور نمایاں مثال، کم تعلیم یا کسی مخصوص زبان، بولی ٹھولی کے زیراثرغلط اداکیے جانے والے تلفظ کی یہ ہے کہ بہت سے لوگ نبی کریم (ﷺ) کے یار غار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ' کے لقب 'صِدّیق' کو 'صَدّیق' اور ان سے نسبی نسبت کو صِدّیقی کی بجائے 'صَدّیقی' کہتے ہیں اور بعض لوگوں نے تو پہلے پہل عرب کی سرزمین پر قدم رکھا تو یہ سمجھے کہ یہ لفظ اَب اپنے معانی بھی بدل چکا ہے۔ واضح ہو کہ 'صِدّیق' کے معانی ہیں: بہت زیادہ سچ بولنے والا، تصدیق کرنے والا، جب کہ جدید عربی میں لفظ ''صَدیق'' (دال پر تشدید کے بغیر) دوست کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں بظاہر ضمنی مگر اہم بات یہ ہے کہ اکثر پاکستانی جب انگریزی میں یہ نام لکھتے ہیں تو ان کے ہجے غلط کردیتے ہیں۔ 'صِدّیق' کے انگریزی ہجے: SIDDIQUE اور صِدّیقی کے : SIDDIQUI۔ اب جو لوگ زیادہ انگریز بنتے ہیں، اُن کا خیال ہے کہ صِدّیقی کے انگریزی ہجوں میں Qکے بعد UIغیر ضروری ہے۔ اُن بے چاروں کو پتا ہی نہیں کہ انگریزی کی ''کلید ہجا''[Spelling key]میں غیرانگریزی الفاظ اور ناموں کے شروع، آخر یا آخر سے ذرا پہلے Qآنے کی صورت میں Uلگانا لازم ہے۔ اب اگر کوئی جاہل LIAQUATکو لیاقت کی بجائے لیاقوات پڑھے تو اُس کو کیا سزا دی جائے۔ ہمارے یہاں تو انگریزی کے ساتھ بھائی لوگ وہ سلوک کرتے ہیں جو اردومحاورے کے مطابق تو سوتیلی ماں جیسا ہے، مگر اس کی تفہیم کے لیے اور بھی کئی محاورے استعمال ہوسکتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ انگریزی ہمارے سابق آقاؤں کی زبان ہے ، لہٰذا اسے بگاڑ کر بولنا ، غلط بولنا ہی درست طرز عمل ہے۔ ٹھیک ہے صاحبو! بڑے شوق سے غلط انگریزی بولیں، مگر اِس کام کے لیے اردو کا ستیا ناس تو نا کریں، فقط فرنگی زبان ہی لونڈی باندی والا معاملہ کرلیں۔ یہ خاکسار اس سے قبل بھی اس رائے کا اظہار کرچکا ہے کہ اگر صرف پاکستانی انگریزوں یعنی برگرز کی انگریزی دانی کے متعلق لکھنا شروع کیا جائے تو ''فادری'' زبان کا ایک نیا باب معرض وجود میں آسکتا ہے۔ ویسے آکسفرڈ نے ماضی قریب میں دو خواتین کی تحقیق پر مبنی 'پاکستانی انگریزی' پر کتاب شایع کی ہے ، مگر راقم کی نظر سے نہیں گزری ، لہٰذا یہ کہنا محال ہے کہ اس میں وہ ساری مثالیں شامل ہیں کہ نہیں، جو دنیا بھر میں یا تو صرف پاکستانیوں کی زبان سے سننے کو ملتی ہیں، یا بعض ہندوستان سے بھی درآمد کی گئی ہیں۔ انیس سو اَسی کی دہائی کے اواخر میں ہندوستان کے نجی ٹی وی چینل ''زی'' نے اردو (اُن کے نزدیک ہندی) کا بیڑا غرق کرکے، انگریزی کی بے جا ملاوٹ سے ایک کھچڑی بولی تیار کی جسے خلیجی ممالک کے انگریزی اخبارات میں لکھنے والے ہندوستانی، ہندو اہل قلم نے طنزاً پہلے Zinglishکا نام دیا، پھر کچھ نے اس کا نام Hinglish رکھ دیا۔ ہمارے یہاںantenna Dishکے طفیل جب یہ مخلوط بولی دَر آئی تو ساتھ ہی پاکستان ٹیلی وژن کے دو سربراہوں (ایک مرد، ایک خاتون) نے اس کے استعمال کے ساتھ ساتھ ہاتھ ، مُنھ چلانے، اشارے پر اشارے کرنے اور عجیب و غریب حرکات وسکنات کرنے کو، تقریباً ہر پروگرام میں لازم قراردیا۔ بس پھر کیا تھا.....ایک'' بندر۔تماشا'' شروع ہوگیا۔ آج کہیں چلے جائیں، خصوصاً ٹیلی وژن چینلز اور تشہیری اداروں میں، آپ کو اسی بدتہذیبی کا سامنا کرنا پڑے گا جو ایسے ہی لوگوں کے خیال میں جدیدیت [Modernism] ہے۔ راقم اپنے تجربے اور دیگر کے تجربے اور مشاہدے کی بِناء پر یہ بات بہ بانگ ِ دُہل (ڈنکے کی چوٹ پر) کہہ سکتا ہے کہ اس مخلوق میں بہت کم کوئی ایسا ملے گا جسے اردو تو کُجا انگریزی پر بھی عبور ہو.....بس جھاڑنے کی حد تک اور برطانوی یا امریکی لہجے کی نقل اُتارنے کی حد تک۔ خاکسار نے اس بولی کے متعلق ایک مضمون بہ زبان فرنگی لکھا ہے: Our lingo is BURGERISH
اس ربط [Link]پر مضمون ملاحظہ فرمائیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اَب ہمارے یہاں زبان کا حال ایسا ہی ہے کہ نہیں:
https://www.liverostrum.com/our-lingo-is-burgerish/1011394.html
اسلامی ناموں میں بعض اور بھی ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا نشانہ بنے ہیں جیسے مشہور نام 'اُمَیمہ'[Umaimah]۔ یہ ایک صحابیہ تھیں جو ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی چھوٹی بہن تھیں اور رشتے میں نبی کریم (ﷺ) کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ اس نام کا مطلب ہے، چھوٹی ماں (جیسے پیار میں ہمارے یہاں کہتے ہیں، چھوٹی امی)۔ اب اسے بگاڑ کر عمیمہ، حمیمہ ، عمائمہ اور حمائمہ بنادیا گیا ہے۔ ایک بہت مشہور مردانہ نام ہے شرجیل....یہ بھی غلط رائج ہے۔ اصل میں یہ تھا : شُرَحبیل [Shurahbeel] جسے بعض مقامات پر شراحبیل بھی لکھا گیا۔ حضرت شُرَحبیل بن حَسَنہ رضی اللہ عنہ' بہت مشہور صحابی تھے۔لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اور اُن کا گھرانہ اپنی دادی حَسَنہ کی نسبت سے منسوب اور مشہور ہوا۔ اُن کے اصل نام اور ولدیت کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ (اُسدُالغابہ فی معرفۃ الصحابہ از علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ)۔ بشرط فرصت و زیست اس موضوع پر آیندہ بھی خامہ فرسائی کروں گا۔ n