شاعر ندا فاضلی اور جگجیت سنگھ سے یادگار ملاقاتیں حصہ اول
ندا فاضلی کی خدمت میں اپنا پہلا شعری مجموعہ ’’کسک‘‘ بھی پیش کیا جسے انھوں نے بڑا سراہا اس مجموعے کی چند غزلیں پڑھیں
میں جب لاہورکی فلمی دنیا اور فلمی دنیا کے طلسماتی ماحول کو خیرباد کہہ کر بارہ سال بعد کراچی واپس آیا توکراچی میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ میرے کئی دیرینہ دوست شادی کے بعد کئی بچوں کے باپ بن چکے تھے،میں ابھی تک کنوارا ہی تھا۔ میرے والد نے سب سے پہلا یہی کام کیا کہ مجھے شادی کے بندھن سے باندھ دیا اور فیصلہ بھی صادر کردیا کہ اب تم دوبارہ فلم انڈسٹری کا رخ نہیں کروگے اور لاہور نہیں جاؤگے اب جوکچھ بھی تم نے کرنا ہے وہ کراچی ہی میں کرنا ہے۔
میں نے اپنے والد کے فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کردیا تھا۔ میری شادی کے بعد شادی کی پہلی دعوت میرے اور استاد امیر احمد خان کے مشترکہ دوست ڈاکٹر جاوید عالم کے گھر ہوئی تھی جو کلفٹن کے پل سے اترتے ہی بائیں جانب اپنے شاندار بنگلے میں رہتے تھے۔ وہ موسیقی کے بڑے دلدادہ تھے، وہ بھی اور ان کی بیگم بھی استاد امیر احمد خان سے موسیقی سیکھتے تھے اور دونوں میاں بیوی بہت اچھا گاتے تھے۔ ان کے گھر کے قریب ہوٹل کولمبس تھا۔ جہاں ہوٹل کے صحن میں ڈنر کے دوران موسیقی بھی چلتی رہتی تھی۔ شادی کی دوسری دعوت استاد امیر احمد خان نے چند روز بعد اس ہوٹل میں دی تھی، جب ہم ہوٹل میں داخل ہوئے تو ایک نوجوان جوڑا ایک غزل گا رہا تھا، جس کا مطلع تھا:
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
جیسے ہی یہ غزل اختتام کو پہنچی میں نے نوجوان سنگر سے جاکر پوچھا۔ بھئی! جو یہ غزل تم گا رہے تھے کس شاعر کی ہے۔ وہ بولا سر! یہ ندا فاضلی کی ہے اور انڈیا کے سنگر جگجیت سنگھ اور چترا نے گائی ہے۔ یہ ان کے میوزک البم کی غزل ہے آج کل اس میوزک البم کی بڑی دھوم ہے اور یہ غزل بھی بڑی پسند کی جا رہی ہے۔ میں اور استاد امیر احمد خان ڈنر کے بعد اپنے اپنے گھر چلے گئے، مجھے اس رات دیر تک نیند نہیں آئی اور میں ندا فاضلی کی اس غزل میں ہی کھویا رہا۔
ندافاضلی کے بارے میں ایک بار تسلیم فاضلی نے بتایا تھا کہ جس طرح میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہوں اور میرے گیت فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں اسی طرح میرے ہی ایک بڑے بھائی ندا فاضلی بمبئی کی فلم انڈسٹری میں اپنا ایک جداگانہ مقام رکھتے ہیں جہاں ان کی ادبی حیثیت مسلم ہے وہاں ان کے فلمی گیتوں کی بھی بڑی دھوم ہے۔ انھی دنوں میں نے امرتسر ٹیلی ویژن پر کئی فلمیں دیکھی تھیں ان فلموں میں فلم ''رضیہ سلطان'' بھی شامل تھی۔
فلمساز و ہدایت کار کمال امروہوی کی یہ ایک ایکشن فلم بھی تھی اور محبت کے جذبات سے لبریز بھی تھی، جس میں ایک غلام اپنی ہی ملکہ کا دلدار بن جاتا ہے اور ملکہ اپنے غلام کو جی جان سے چاہنے لگتی ہے۔ جن دنوں اس فلم کا آغاز کیا گیا اس کے گیت بمبئی کے نامور شاعر جاں نثار اختر لکھ رہے تھے ابھی وہ دو تین گیت ہی لکھ پائے تھے کہ بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا تھا اور پھر کافی دنوں تک فلم کی موسیقی کا کام التوا میں پڑ گیا۔
فلمساز کمال امروہوی کو اب ایسے باصلاحیت شاعر کی ضرورت تھی جو شاعر جاں نثار اختر کا نعم البدل ثابت ہوسکے پھر کمال امروہوی کی نظر انتخاب شاعر ندا فاضلی پر پڑی جن کا ادب میں ان دنوں بڑا مقام تھا اور ان کی غزلوں کے بھی بڑے چرچے تھے۔ فلم کے موسیقار خیام تھے۔ کمال امروہوی نے موسیقار خیام سے ندا فاضلی کا تذکرہ کیا۔ خیام شروع ہی سے ادب کے دلدادہ تھے ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی اور جاں نثار اختر کے ساتھ بہت سی فلمیں کرچکے تھے۔
موسیقار خیام بولے کمال صاحب میں آپ کے انتخاب کمال کی داد دیتا ہوں، آپ نے شاعر ندافاضلی کا بہت صحیح انتخاب کیا ہے اب آپ مجھ پر چھوڑ دیں یہ ادبی شاعر زیادہ ہیں مگر میں ان کے ساتھ اس طرح رچاؤ کے ساتھ کام کروں گا کہ ان کے لکھے ہوئے گیتوں کا حسن بھی جگمگائے گا اور اس طرح ندافاضلی ادب سے فلم کی طرف آگئے۔ ندا فاضلی مقتدا احسن جن کا اصلی نام تھا موسیقار خیام اور فلمساز و ہدایت کار کمال امروہوی کے انتخاب پر بڑے کھرے اترے تھے۔ انھوں نے جاں نثار اختر کے بعد فلم ''رضیہ سلطان'' کے لیے جو پہلا گیت لکھا وہ بڑا خوبصورت اور فلم کی سچویشن پر پورا اترا تھا۔ گیت کے بول تھے:
ترا ہجر میرا نصیب ہے
ترا غم ہی میری حیات ہے
مجھے تیری دوری کا غم ہو کیوں
تو کہیں بھی ہو میرے ساتھ ہے
یہ گیت گلوکارہ آشا بھوسلے کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور پھر فلم ''رضیہ سلطان'' کے بقیہ گیت بھی اپنی مثال آپ تھے۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے مقبول گیتوں کا تذکرہ کروں یہ بتاتا چلوں کہ ندافاضلی (مقتدا احسن) 12 اکتوبر 1938ء میں دہلی میں ایک مشہور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے ان کے والد معروف شاعر دعا ڈبائیوی اپنے دور کے نامور شاعر نوح ناروی کے شاگرد اور ان کے جانشیں بھی تھے۔ ندافاضلی کو شاعری کا فن ان کے گھر آنگن ہی سے ملا تھا۔
ان کی بیشتر ادبی تخلیقات پر مہاراشٹر، بہار، یوپی اور مدھیہ پردیش کی ریاستوں کی طرف سے اسٹیٹ ایوارڈز سے نوازا گیا تھا اور ان کی بہت سی تخلیقات کو اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ میرے امریکا آنے سے کچھ عرصہ پہلے میری کراچی میں ندافاضلی، خمار بارہ بنکوی اور راجندر سنگھ بیدی سے یادگار ملاقاتیں رہی تھیں جس دوران وہ پاک ہند مشاعروں میں شرکت کی غرض سے آئے تھے۔ اب میں اس یادگار ملاقات کا تذکرہ کروں گا جو ندافاضلی سے بڑے دوستانہ ماحول میں ہوئی تھی۔
اس دوران بڑے مشاعرے کے بعد چند مشہور مہمان شاعروں کے ساتھ کچھ گھروں میں بھی ادبی محفلیں سجائی جاتی تھیں اور ایک ایسی ہی ملاقات کا اہتمام میرے حبیب بینک کے ایک افسر دوست علی رضا نے اپنے گھر پر کیا تھا۔ علی رضا نے فون کرکے مجھے دعوت دیتے ہوئے کہا یار یونس ہمدم! کل شام مشہور شاعر ندا فاضلی صاحب میرے گھر تشریف لا رہے ہیں تم بھی آجاؤ تو یہ ملاقات تمہارے لیے بھی ایک یادگار ملاقات ہوگی۔ میں تو پہلے ہی ان کی ایک غزل کا دیوانہ ہوچکا تھا جو جگجگیت سنگھ نے اپنے میوزک البم میں گائی تھی۔
میں دوسرے دن سر شام ہی اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا کچھ دیر کے بعد ندافاضلی صاحب بھی تشریف لے آئے جو سفید کرتہ پاجامہ میں ملبوس تھے آپس میں مختصر سا تعارف ہوا وہ بڑے خوش ہوئے۔ کافی دیر تک بمبئی فلم انڈسٹری کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس دوران فلم ''رضیہ سلطان'' کے گیتوں کا تذکرہ بھی آیا اور انھوں نے موسیقار خیام کی بڑی تعریف کی۔
اس موقعے پر میں نے ندا فاضلی کی خدمت میں اپنا پہلا شعری مجموعہ ''کسک'' بھی پیش کیا جسے انھوں نے بڑا سراہا اس مجموعے کی چند غزلیں پڑھیں پھر انھوں نے ہماری فرمائش پر چند تازہ قطعات اور ایک دو غزلیں بھی سنائیں پھر میرے اور میزبان علی رضا کے کہنے پر بلکہ اس کی فرمائش پر ندافاضلی نے فلم ''آہستہ آہستہ'' کے لیے لکھی گئی غزل جسے بڑی شہرت ملی تھی، اس غزل کے چند اشعار سنائے۔
(جاری ہے)۔