کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں…آخری حصہ
صوبہ سندھ کی کارکردگی نے خوف و ہراس کی فضا کو پروان چڑھایا ہے
PESHAWAR:
سیالکوٹ کے معیز اور مغیث، جنھیں معمولی سی بات پر (کھیل کا معاملہ تھا) ماہ رمضان میں بیدردی سے قتل کیا گیا، ان مظلوموں کے ساتھ کیا کیا نہ ہوا۔ سر راہ انھیں الٹا لٹکایا گیا، کوڑے برسائے، گشت کرایا۔ معصوم بچوں کو جن کی عمریں 14 اور 17 سال کے قریب ہوں گی، ان میں سے ایک لڑکا حافظ قرآن تھا۔ وہ بچ سکتے تھے، اگر پولیس مدد کرتی اور ویڈیو بنانے والے نیک کام کرنے کے بجائے کسی کے گھر کے چراغ کو بجھنے سے بچا لیتے، آج تک قاتل نہیں پکڑے گئے، اور جو پکڑے گئے تھے انھیں بحفاظت رہا کردیا گیا۔
عوام کی اور ان بچوں کے والدین کی شدید خواہش تھی کہ انھیں بھی چوراہے پر اسی طرح تڑپا تڑپا کر مارا جاتا، لیکن اگر انصاف زندہ ہوتا، ضمیر جاگ رہا ہوتا، خوف خدا اور عذاب قبر کا احساس جاگزیں ہوتا تو یہ سب کچھ ہوتا۔ ضروریات زندگی سے شہری محروم ہیں۔ واٹر بورڈ کے افسران بالا کی ملی بھگت سے بہت سے ہائیڈرنٹس وجود میں آچکے ہیں اور پانی منصوبہ بندی کے تحت فروخت کیا جارہا ہے۔
سیکریٹری بلدیات نے کمیشن کے سامنے اعتراف کیا کہ فنڈز کا مسئلہ نہیں ہے، رقم موجود ہے لیکن منصوبے ٹھیک طرح سے نہیں چل رہے۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ افسران توجہ نہیں دے رہے۔ افسران اپنے عہدوں کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں، انھیں نہ قوم سے اور نہ ملک سے محبت ہے، پانی کے حوالے سے صورت حال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اب نہروں میں بھی انسانی فضلہ شامل ہوگیا ہے۔ 25 شہروں کے 5 کروڑ افراد زہریلا پانی پینے پر مجبور کردیے گئے ہیں، گندے پانی کے استعمال سے کروڑوں افراد خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اسپتالوں کی حالت زار بھی دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث عباسی شہید اسپتال کے کئی شعبے غیر فعال ہوچکے ہیں۔ ناکارہ مشینوں کو درست کرنے اور نئی مشینیں لانے کے لیے نہ پیسہ ہے اور نہ توجہ، حادثات میں زخمی مریض فرش پر علاج کرانے پر مجبور ہیں، انھیں طبی امداد وہیں فراہم کی جاتی ہے۔ بستروں کی کمی، دوائیں مریضوں کے لواحقین خود خریدتے ہیں، آئی سی یو کے ایئرکنڈیشنڈ خراب ہیں، ٹیسٹ اور ایکسرے کرانے کا بھی بندوبست نہیں ہے، سونے پر سہاگا ملازمین کو بکرا عید سے اب تک تنخواہیں نہیں دی گئیں۔ لوٹ مار کرنے والوں کو فریاد سننے کی فرصت ہی کہاں؟
یہ بھی بتاتی چلوں کہ ان دنوں شہر کراچی میں بسنے والے اپنی تنخواہ کا ایک حصہ پانی پر خرچ کر دیتے ہیں، وہ تین طرح کا پانی خریدتے ہیں۔ پینے کا شفاف پانی جو بوتلوں میں محفوظ ہوتا ہے اور ڈسپنسر پر یہ بوتلیں فٹ کردی جاتی ہیں، دوسرا پانی بورنگ کا ہے، جو گھر کی صفائی ستھرائی کے کام آتا ہے، وضو اور غسل کے لیے بھی اسی پانی پر اکتفا کیا جاتا ہے، تیسرا پانی کین کی شکل میں ملتا ہے جس کی قیمت ذرا کم ہوتی ہے، اس پانی سے کھانا پکتا ہے، اس کی وجہ لائنوں سے پانی عرصہ دراز سے غائب ہے اور پانی کی لائنیں فروخت کردی گئی ہیں۔ واٹر بورڈ کے محکمے میں ایم ڈی بدلے جاتے ہیں کہ شاید کوئی تو دیانتداری کا مظاہرہ کرے گا، لیکن سب کا حال ایک ہی سا ہے، بہتی گنگا سے اپنے ہاتھ ضرور دھوتا ہے۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں؟
کنٹونمنٹ بورڈ کا حال بھی اتنا ہی برا ہے۔ دونوں ادارے بل بھیجتے ہیں، اگر شہری عدم سہولتوں کے باعث ادا نہ کریں تو کنٹونمنٹ کا ادارہ اپنی ناقص کارکردگی کی بھی قیمت وصول کرتا ہے اور ایک بھاری رقم کا سالانہ بل بھیج کر مسائل میں اضافہ کرتا ہے، شہریوں کا کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ جب وہ بنیادی ضرورتوں ہی سے محروم ہیں تو وہ بل کیوں ادا کریں۔
گلستان جوہر بلاک 13 میں گزشتہ 15-20 سال سے مین روڈ پر ایک بہت بڑا نالہ ہے جوکہ کھلا ہوا ہے اور اسے آج تک پاٹا نہیں گیا ہے، پچھلے سال کنٹونمنٹ بورڈ نے کچھ کارکردگی دکھانے کی کوشش کی تھی لیکن ادھوری، اسی طرح سڑکوں کی مرمت کا کام بھی اس طرح کیا گیا کہ ٹوٹی سڑکوں کا ملبہ گھروں کے دروازوں پر سجا دیا گیا اور ساتھ میں گیٹ کے سامنے کی سڑک بھی نہیں بنوائی، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ گڑھے کی شکل اختیار کرگئی، رہائشیوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت فرش بنوالیا، لیکن پانی کے ٹینکر اور دوسری ٹرانسپورٹ نے فرش کو توڑ ڈالا، کئی بار درخواستیں دی گئیں لیکن کنٹونمنٹ کے ذمے داران کے کان پر جوں نہ رینگی۔
ایک سخت مسئلہ درخواست گزار کے لیے یہ بھی ہے کہ انجینئر حضرات اور دوسرے اداروں کے افسران سے ملاقات ناممکن ہے، اللہ کے دربار میں بندہ حاضر ہوسکتا ہے، جب چاہے ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ لیکن ان کے دربار میں حاضری ناممکن ہے۔ اس لیے کہ سیکیورٹی گارڈز تعینات ہیں اور شکایت گھرایک چھوٹے سے دفتر کی شکل میں بنادیا گیا ہے۔ اسی کمرے میں درخواستیں وصول کی جاتی ہیں اور ایک آدھ تسلی کا جملہ کہہ کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔
کنٹونمنٹ کے علاقوں کے ساتھ ساتھ پورا شہر کچرے سے لد گیا ہے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر نے بھی شہر کو صاف کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے، حکومت کی طرف سے ایک کثیر رقم وصول کرنے کے بعد بھی کچرا اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے۔ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ کوئی بھی مخلص نہیں ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج چل رہا ہے۔ کب تک چلتا ہے، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
اس ناانصافی میں عوام پس رہے ہیں اور غریب انسان افلاس کے باعث مزید پریشان اور غمزدہ ہے۔ اس کے پاس علاج و معالجے کی رقم، غذا اور نہ صاف و شفاف پانی خریدنے کی سکت ہے بس اس کی زندگی ہے، جو اسے اللہ نے عطا کی ہے، اسی لیے مفلوک الحال رہ کر بھی زندہ ہے۔ جب حکمران صرف اور صرف پیسے سے محبت کریں اور باقاعدگی سے اپنے کارندوں کو حکم دیں کہ انھیں ہر ماہ ہر ہفتے اتنی رقم درکار ہے۔ تو بس وہی معاملہ ہے کہ ''حکم حاکم مرگ مفاجات''۔
رعایا اسی لیے ناشاد ہے اور حکمرانوں کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر بددعا دے رہی ہے۔ لیکن حکمران طبقہ سمجھنے کو بالکل تیار نہیں کہ ان کی وجہ سے ہر ادارہ تباہ ہوچکا ہے، چینلز اور اخبارات کی تحریریں ببانگ دہل لوٹ مار اور فرعونیت کی کہانیاں سنا رہی ہیں۔ اقربا پروری اور منافقت نے بچوں اور بے سہارا افراد کی زندگیوں کو بہت متاثر کیا ہے۔
محکمہ سماجی بہبود میں چار سیکریٹری تبدیل ہوئے اور پانچویں کے لیے بااثر قوتیں اپنا کام دکھا رہی ہیں۔ اپنی پسند کا آدمی لانے سے یہ فائدہ ہوتا ہے جس طرح اسے احکامات ملتے ہیں وہ ان پر بے چوں و چرا عمل کرتا ہے۔ حکومت کو یہ احساس نہیں ان کے اس رویے کی بنیاد پر ترقیاتی کام رک گیا ہے، بچوں کے لیے شیلٹر ہوم کی تعمیر اور ضعیف العمر حضرات کے لیے پالیسی کی تشکیل متاثر ہوئی ہے۔
صوبہ سندھ کی کارکردگی نے خوف و ہراس کی فضا کو پروان چڑھایا ہے اور یہ خبر بڑی حیران کن ہے کہ سندھ کی جیلوں سے 45 قیدی فرار ہوچکے ہیں جب کہ اندرون جیل 24 ہلاک ہوئے، اس کی وجہ کیا تھی؟ لاپرواہی یا منصوبہ بندی؟ اگر حالات بدستور ایسے ہی رہے تو مقتولوں کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ اللہ دراز رسی کو ضرور کھینچے گا۔ اور یہ لوگ جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے اور آخر کار وہی دو گز زمین ہاتھ آئے گی جو بادشاہ و فقیر، ہر کسی کا مقدر بنتی ہے۔ کفن میں جیبیں لگوانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ظلم و تشدد اور ناانصافی کی خونی داستانیں بے شمار ہیں۔