شاہ محمد شاہ کی سیاسی آتم کتھا
شاہ محمد شاہ ایک مضطرب اور باغی مزاج فرد ہیں اور بے چینی کے عالم میں سیاسی جماعتیں بدلتے رہے ہیں۔
مشکل راستوں پر چلنے والے شاہ محمد شاہ کی ' آتم کتھا ' پر بات کرتے ہوئے مجھے 1964 کے دن اور وہ لڑکا یاد آرہا ہے جو ٹنڈو آدم کے گھر آنگن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ سب ایک دوسرے کے پیچھے خوشی سے چیخیں مارتے ہوئے بھاگ رہے ہیں ۔ اتنے میں باہر سے ایک لڑکا آتا ہے اور شاہ محمد شاہ کو روک کر اس کے سینے پر لالٹین کا بیج لگا دیتا ہے۔
دوسرے لڑکوں کے سینے پرگلاب کا پھول اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ سب سناٹے میں آجاتے ہیں ۔ آج کی نئی نسل نہیں جانتی کہ لالٹین عوامی امنگوں کی ترجمان محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان تھا ۔ ہمارے جمہوری حقوق کے غاصب جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان ہونے والی جنگ کی علامت تھا ۔
شاہ محمد شاہ جو سندھ کے اعلیٰ نسب اور خوشحال گھرانے کا بیٹا ہے، اس کی عمر صرف 13 برس ہے، کھیلنے کھانے کے دن ہیں لیکن وہ الجھن میں پڑجاتا ہے ۔ گھر میں جنرل ایوب کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ صبح شام اپنے بڑوں کی سیاسی بحثیں سنتا ہے۔ رات آتی ہے، وہ اپنے بستر پر لیٹا ہے، قمیص پر لگے بیج کو چھوتا ہے، نیند کے جھولے میں جھولتا ہے اور اس روشنی کے تعاقب میں چل نکلتا ہے جو لالٹین سے پھوٹتی تھی ۔
جمہوریت کی اس لالٹین کو ایک بوڑھی اورکمزور عورت تھامے،گھپ اندھیرے میں چل رہی تھی، لوگوں کو روشنی اور زندگی کا پرشاد بانٹنے۔ شاہ کے ساتھ اس کا چچازاد بھائی بھی ہے، ایک چھوٹا سا بچہ جس کا نام سید عرفان شاہ ہے، اب بڑا ہوگیا ہے اور اپنے گاؤں بھانوٹ میں لوگوں کا دکھ درد بانٹتا ہے۔
یہ آتم کتھا اسی شخص کی زندگی کا قصہ ہے جس نے لڑکپن سے انحراف اور اختلاف کا راستہ اختیار کیا۔ 16 برس کی عمر سے طالب علم سیاست شروع کی۔ شاہ حیدرآباد میں تھے تو ایس این ایس ایف بنائی جس میں دوسرے بہت سے دوستوں کے ساتھ ندیم اختر اور جام ساقی بھی شامل تھے۔ انھیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے ہر آمرکے دور اقتدار میں جیل کاٹی ۔ یہ سلسلہ ایوب خان کے زمانے سے شروع ہوا ۔ پہلی گرفتاری اور پہلی جیل ایک دن کی تھی۔
ابتداء سے جمہوریت اور قوم پرستی ان کا شعار تھی۔ آگے چل کر جیے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد ڈالی۔ سولہ سترہ برس کی عمر میں ہو شو، ھیمو اور شاہ لطیف کے دن مناتے۔ ہڑتال کراتے، مارشل لا کے افسروں کو زچ کرتے۔ حیدر بخش جتوئی کے ساتھ مارشل لا کے خلاف جدوجہد کرنے کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ جیل سے چھوٹ کر آئے تو اینٹی ون یونٹ فرنٹ جو 1970 کے الیکشن سے پہلے بنا ہوا تھا، اس میں شامل ہوئے۔ انھیں سائیں سید سے مودبانہ اختلاف تھا کہ اس فرنٹ میں علی محمد راشدی، ایوب کھوڑو اور دوسرے آمریت دوست کیوں شامل ہیں۔
یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ سائیں سید کے بے حد احترام اور محبت کے باوجود یہ اس فرنٹ سے علیحدہ ہوگئے۔ 70 سے پہلے SNSF بھی دو حصوں میں ٹوٹ گئی اور یہ قوم پرستوں کے ساتھ جڑگئے۔ جون 1970 میں انھوں نے نواب شاہ میں شیخ مجیب الرحمان کا بہت بڑا جلسہ کرایا۔
یہ متحدہ پاکستان کے آخری دن تھے۔ پہلی جولائی 1970 کو جب ون یونٹ توڑنے کا اعلان ہوا تو یہ پاکستان کے ہر جمہوریت پسند کے لیے شادیانے بجانے کا دن تھا۔ شاہو نے اس خوشی میں بڑے پیمانے پر جشن سندھ منایا۔ ان کے سیاسی استادوں میں جی ایم سید، غوث بخش بزنجو، اجمل خٹک، حیدر بخش جتوئی، شیخ عبدالمجید سندھی، دلی خان، بیگم ولی خان، شیخ ایاز، ابراہیم جویو اور پاکستان کی مختلف زبانوں کے بہت سے قوم پرست کمیونسٹ، دانشور اور ادیب شامل رہے۔
بھٹو صاحب کے زمانے میں انھوں نے ایک بار پھر جیل کاٹی اور وہاں موجود ترقی پسند سیاستدانوں کے ان پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ یہی وہ دور تھا جب رسول بخش پلیجو نے جیل میں انھیں پڑھایا۔ مرکزی دھارے کی سیاست میں جمہوریت اور سندھ کے حقوق کے لیے یہ NDP میں شامل ہوئے اور پھر PNP میں سینئر نائب صدر ہوگئے اور اسی دور میں کچھ وقت مسلم لیگ فنکشنل میں سرگرم رہے۔
شاہو سے میرا ذاتی دوستی کا تعلق اس وقت شروع ہوا جب کراچی کے ایک ہوٹل میں پی ایم ایل (این) کا جلسہ ہوا جس میں میاں نواز شریف اور مشاہد حسین سید موجود تھے۔ اسی جلسے میں شاہ محمد شاہ پی ایم ایل (این) میں شریک ہوئے۔ یہ وہی تاریخی جلسہ ہے جس میں ندیم اختر اور میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امام علی نازش کو لے کرگئے تھے۔ اس روز یہ تاریخی واقعہ بھی ہوا کہ بر سرعام پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سربراہ میاں نواز شریف ایک عظیم کمیونسٹ رہنما سے بڑی تعظیم سے جھک کر ہاتھ ملا رہا تھا۔
شاہ محمد شاہ ایک مضطرب اور باغی مزاج فرد ہیں اور بے چینی کے عالم میں سیاسی جماعتیں بدلتے رہے ہیں۔ اب ایک عرصے سے پی ایم ایل (این) میں ہیں۔ اپنی سیاسی زندگی میں یہ زیر زمین رہے۔ لیاری سے قمرالزماں راجپر اور فدا حسین ڈیرو کی گاڑی میں کوئٹہ پہنچے اور وہاں سے کابل۔ کابل اور دمشق میں انھوں نے اس وقت بھی جلاوطنی کاٹی جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں پی آئی اے کا طیارہ اغوا ہوا اور یہاں سے لے جائے جانے والوں میں شاہو بھی تھے۔
شاہ محمد شاہ کی آتم کتھا سندھ اور پاکستان میں جمہوری جدوجہد کی ایک ایسی داستان ہے جسے پڑھے بغیر ہم یہ نہیں جان سکتے کہ نچلی سطح پر جمہوریت کے لیے اپنا چین آرام تج دینے والے اور حسن ناصر، نذیر عباسی، ایاز سموں جیسے جان سے گزرجانے والے کتنے ان گنت انقلابی اور باغی اس جدوجہد میں شامل تھے۔
یہ اس شخص کا اور اس نسل کا قصہ ہے جس نے ملک کے لیے خوبصورت خواب دیکھے تھے اور ان کی تعبیر کے لیے کٹھنائیاں برداشت کی تھیں۔ اس میں ایم آر ڈی موومنٹ، لسانی فساد کی ہنگامہ خیزی اور جنرل ضیاء الحق کا سفاک دور حکومت ہے۔ یہ کتاب اس وقت سامنے آرہی ہے جب ملک ایک بار پھر دوراہے پر ہے۔
کہنے کو جمہوریت ہے لیکن اس مرتبہ اس کا گلا گھونٹنے والے وہ بٹ مار ہیں جن کے سروں پر انصاف کی دستار ہے اور جنھوں نے اپنی بکل میں جمہوریت کے پرانے قاتل چھپائے ہوئے ہیں۔ ہمارا وہ کارٹونسٹ خوش رہے اور اس کی عمر دراز ہو جس نے انصاف کی دیوی کے لبادے سے جھانکتے ہوئے بوٹ دکھادیے ہیں۔ یہ پہلے سے کہیں خطرناک کھیل ہے جو کھیلا جارہا ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ کا یہ ایک نیا رُخ ہے۔ شاید کچھ معصوم لوگوں کی یہ سمجھ میں نہ آرہا ہو لیکن یہاں بیٹھے ہوئے احسن اقبال، حاصل بزنجو اور شاہ محمد شاہ جیسے لوگ جانتے ہیں کہ اگر ہم اس وقت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو زمانہ قیامت کی چال چل جائے گا۔ اس وقت وہ کھیل ہورہا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زبردست مارے اور رونے بھی نہ دے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی بڑی اور اپنے رہنماؤں کے خون کا نذرانہ دینے والی پارٹی بھی شاید اس کھیل کو نہیں سمجھ رہی یا اس کے سردار سمجھنا نہیں چاہتے۔ دوسروں کو قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے، لیکن انھیں پرانے کھاتے کھولنے اور پرانے حساب چکانے سے فرصت نہیں۔
آپ سب جو یہاں موجود ہیں ان کے لیے فیصلے کا وقت آگیا ہے۔ شب عاشور جب مولا حسین نے چراغ گُل کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ جو جانا چاہے وہ چلا جائے، کل کا دن ہمارا ساتھ دینے والوں کی زندگی کا چراغ گُل کردے گا۔ تاریخ نے دیکھا کہ پھر یوں ہی ہوا۔ ہمارے یہاں بھی سیاست نے وہ رخ اختیار کیا ہے جس نے بہت سے چہروں سے نقاب نوچ لی ہے۔ جمہوریت کا مکھوٹا پہن کر سیاست کرنے والے اپنے اصل چہروں کے ساتھ سامنے آگئے ہیں۔ یہ مصلحت اندیشی کے دن نہیں۔
آج شاہ محمد شاہ ایسے بے ریا اور باصفا رہنماؤں کی ضرورت ہے جو سر ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی آتم کتھا میں آج کی نوجوان نسل کو وہ راستہ دکھایا ہے جس پر چلنے کا فیصلہ انھوں نے اس وقت کیا تھا جب وہ تیرہ برس کے تھے۔ وہ اس بوڑھی اور کمزور عورت کے راستے پر چلے تھے جسے ایک آمر اور اس کی آمریت نے دھونس دھاندلی سے شکست دی۔
شاہ محمد شاہ اس عمر میں بھی باشعور تھے ، جانتے تھے کہ بعض لڑائیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں ہار جانے والے فاتح ٹہرتے ہیں۔ جمہوریت کے چوراہے پر رکھی ہوئی بوڑھی فاطمہ جناح کی لالٹین آج بھی روشن ہے۔آپ کا جی چاہے اس روشنی کے راستے جائیں اور آپ چاہیں تو آمروں کے گلے میں گلابوں کے ہار ڈالیں جو دوسرے دن باسی ہوجاتے ہیں اورکوڑے پر پھینک دیے جاتے ہیں۔ گلاب جو آمر جنرل ایوب خان کا انتخابی نشان تھا۔
(شاہ محمد شاہ کی 'آتم کتھا' کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)