ٹیپو سلطان ہیرو یا ظالم
عام آدمی پارٹی کے رہنما بھی ٹیپو کو ایک انصاف پسند، جری حکمران تسلیم کرتے ہیں
ٹیپو سلطان جس کا اصل نام فتح علی تھا 1761 میں میسورکا حکمران بنا جو ہندوستان کا طاقتور ترین حکمران تھا وہ ہندوستان میں انگریز سامراج کی حکمرانی کے خلاف تھا ۔اس کا خیال تھا کہ ہندوستان صرف ہندوستانیوں کا ہے یہاں کسی غیر ملکی کو حق حکمرانی نہیں دیا جاسکتا ہے، اس نے انگریزوں کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ وہ حافظ قرآن، عالم دین اور نصف درجن سے زائد زبانوں پر دسترس رکھتا تھا۔ مطالعے کا شوقین تھا اس کا اپنا ذاتی کتب خانہ تھا۔
وہ ایک منصف المزاج اور رعایا کا خیال رکھنے والا حکمران تھا۔ اس نے جاگیرداری کا خاتمہ کیا عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے تیارکیے، اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر قانونی اصلاحات کیں۔ صنعت و تجارت کو فروغ دیا، راکٹ سازی کی بنیاد رکھی، مذہبی رواداری کو پروان چڑھایا، مندروں کو مالی امداد فراہم کی، عیسائی قیدیوں کی تعلیم وتربیت اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے انھیں پادریوں کی خدمات مہیا کی گئیں، ہندوستان کے اس جری حکمران نے 1799 میں ایک سازش کے نتیجے میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا حالانکہ اس کو فرارکا مشورہ دیا گیا تھا، لیکن اس نے اپنے عمل اپنے اس قول کو سچ کر دکھایا کہ ''گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے'' انگریز فوجی اس کی لاش کے نزدیک جانے کی ہمت نہیں کر رہے تھے۔
ایک جنرل نے اس کے جسد خاکی کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے زندگی میں اتنا بہادر آدمی نہیں دیکھا۔ وائسرائے اس کے مزار میں گیا تو بوکھلاہٹ کے عالم میں باہر نکل آیا اور کہا کہ ٹیپو زندہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے جلال و ہیبت کے باعث اندر کھڑا نہیں رہ سکا۔ ٹیپو سلطان کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ انگریز مائیں اپنے بچوں کو ٹیپو کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں۔ علامہ اقبال نے ٹیپو سلطان کے مزار پر حاضری دی تو ان پر رقت طاری ہوگئی اور کہا کہ ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ٹیپو سلطان کی وصیت میں ٹیپو کے قول و کردار کی بھرپور عکاسی کی ہے جو ہمارے لیے درس کی حیثیت رکھتی ہے۔
تو رہ نورد شوق ہے؟ منزل نہ کر قبول
لیل بھی ہم نشیں ہو تو مخمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گداز! گرمی محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے' حق لاشریک سے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
ہندوستان کو غصب کرنے والے انگریز سامراج کے خلاف جنگیں لڑنے والے ٹیپو سلطان کو ہندوستان اپنا ہیرو اور تحریک آزادی ہند کا پہلا شہید گردانتے ہیں لیکن ہندوستان کی کچھ انتہا پسند ہندو جماعتیں اور شخصیات جن میں وشوا ہندو پرشاد، آر ایس ایس اور خود بی جے پی ٹیپو سلطان کے کردار اور شخصیت کو مسخ کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر منظم سازش پر عمل پیرا ہیں جنھیں حکومت اور حکومتی شخصیات کا بھرپور تعاون و آشیرباد حاصل ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ٹیپو سلطان ہندو دشمن حکمران تھا اس کی ہر نشانی کو مٹا دیا جائے۔
گزشتہ ہفتے بی جے پی کے ایک وفاقی وزیر اننت کمار نے ٹیپو سلطان کی سالگرہ کے کسی بھی جشن میں شریک ہونے سے انکار کردیا تھا۔ بھارتی صدر کووند جن کا تعلق بھی بی جے پی سے ہے کہا ہے کہ ٹیپو ہیرو تھا اس نے انگریز فوج سے لڑتے ہوئے جان دی راکٹ بنانے اور انگریزوں کے خلاف استعمال کرنے میں ٹیپو کا کلیدی کردار تھا، یہ ٹیکنالوجی یورپی ممالک نے بعد میں استعمال کی تھی۔ کرناٹک میں جہاں آج کل کانگریس کی حکومت ہے وہ ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کے موقعے پر تقریبات منعقد کرتا ہے۔
عام آدمی پارٹی کے رہنما بھی ٹیپو کو ایک انصاف پسند، جری حکمران تسلیم کرتے ہیں لیکن انتہا پسند ہندو تنظیمیں نہ صرف ٹیپو سلطان کی کردار کشی پر کمربستہ ہیں بلکہ ان تقریبات کے خلاف احتجاج و پرتشدد مظاہرے بھی کرتی ہیں۔ 18 ویں صدی میں میسور پر حکمرانی کرنیوالے اور انگریز سامراج کے چھکے چھڑا دینے والے ٹیپو سلطان کے انتقال کو دو صدیاں بیت چکی ہیں مگر اب ایک منظم سازش کے تحت اس کی شخصیت، کارناموں اور کردار کو مسخ کرنے کی مذمومانہ مہم چلائی جا رہی ہے۔
بی جے پی کی سرکردگی میں تیار کردہ درسی کتب میں ٹیپو کو حملہ آور، مطلق العنان اور ظالم حکمران بیان کیا گیا ہے کہ وہ زبردستی ہندوؤں کو مسلمان بنا لیتا تھا جب کہ حقیقتاً ٹیپو انصاف پسند اور رعایا کا خیال رکھنے والا ایسا حکمران تھا جس نے ریاست کو ایک بہترین نظام بخشا، معاشی اصلاحات، مذہبی رواداری قائم کی، مندروں کو مالی امداد فراہم کی، عیسائی قیدیوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پادریوں کی سہولیات فراہم کیں، اس کے پر اعتماد اور وفادار وزرا اور عہدیداروں میں ہندو بھی شامل تھے۔ اس نے نچلی ذات کے ہندوؤں کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے متعدد اقدامات کیے جسکے سب معترف ہیں۔
ہندوؤں کی ٹیپو سلطان سے محبت اور عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو نے لندن میں نیلام کی گئی ٹیپو سلطان کے استعمال میں رہنے والی ایک تلوار 10 لاکھ پونڈ میں خریدی جس کو خریدنے کے لیے اس نے اپنے کچھ اثاثے بھی فروخت کیے تھے جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے تلوار کی اس قدر بیش بہا قیمت کیوں ادا کی تو اس نے جواب میں کہا کہ ''یہ میرے دیس کی غیرت تھی جو غیروں کے ہاتھ میں تھی میں نے اسے واگزار کرایا ہے۔''
تقسیم ہند دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی پاکستان کے لیے اسلامی نظام اور بھارت کے لیے سیکولرازم نظام حکومت اپنانے کا نعرہ لگایا گیا لیکن یہ دعوے محض دعوے ہی رہے۔ پاکستان سوشلزم، مذہبی فرقہ پرستی اور عصبیت کے گرداب میں پھنس کر رہ گیا جب کہ بھارت میں سیکولر ازم کے بجائے ذات پات، مذہبی، نسلی وصنفی منافرتیں سرکاری سطح پر پروان چڑھتی رہیں۔ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا۔ خود نچلی ذات کے ہندوؤں سے بھی مذہب کے نام پر تفریق برتی گئی، نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مختص کرنے پر ان کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔
نصابی کتب میں مذہبی اور صنفی امتیاز کو ابھارا گیا، مسلمانوں کی پوری پوری آبادیوں کو خوف، لالچ اور دباؤ کے ذریعے ہندو بنانے کے واقعات ہوئے۔ گائے کے ذبیح، گوشت رکھنے یا کھانے کے الزامات لگا کر مسلمانوں کی زندگیوں کو تلف کیا گیا، گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام اور بابری مسجد کا انہدام ہندو انتہا پسندوں اورحکومتی آشیرباد سے رونما ہوئے اس کے علاوہ عیسائیوں کو زندہ جلانے، سکھوں و دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف بھی مذہبی انتہا پسندی کے واقعات سیکولر بھارت کے دعوے کی نفی کرتے ہیں۔
2007 میں ایک ویب سائٹ نے بھارت کی ریاست گجرات میں 2002 میں رونما ہونیوالے ہندو مسلم فسادات جن میں دو ہزار کے قریب مسلمان شہید ہوئے تھے کے مطابق ایک تحقیقی رپورٹ جاری کرکے تہلکہ مچا دیا تھا جس میں فسادات میں ملوث افراد کو اعتراف جرم کرتے دکھایا گیا تھا کہ فسادات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کرائے گئے تھے۔
یہ رپورٹ ادارے نے پانچ ماہ کی تگ و دو اور مختلف انتہا پسند ہندو تنظیموں کے کارکنوں سے رابطہ اور انٹرویو کرکے خفیہ کیمروں کی مدد سے تیار کی تھی۔ رپورٹ سامنے آنے کے بعد کانگریس و دیگر جماعتوں کی طرف سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی گرفتاری اور استعفے کے مطالبات کیے گئے تھے۔ اس وقت مودی اور ان کی جماعت بی جے پی گجرات کی حکمراں تھی اب وہ سارے ملک کی حکمراں ہے یوں بھارت میں اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور حق بات کرنیوالوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیتی ہے۔
اس جماعت سے تعلق رکھنے والے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری، سیکولر ملک کے دعویدار صدر نے ٹیپو سلطان کو ہیرو اور انگریزوں کے خلاف لڑنے والا حریت پسند قرار دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی و دیگر انتہا پسند ہندو تنظیمیں کیا انھیں بھی پاکستان جانے کا مشورہ دیتی ہیں۔