امریکا کے عزائم

امریکا کا ماضی اور تاریخ گواہ ہے کہ اس نے دنیا میں جہاں بھی مداخلت کی وہاں سوائے تباہی وبربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔


Zamrad Naqvi November 06, 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا دورہ پاکستان' آئے بھی وہ گئے بھی وہ کی مثال بن گیا۔ آنے سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ یہ دورہ ایک دن پر مشتمل ہو گا۔مگر یہ صرف چار گھنٹے کا رہا۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کافی دیر سے تناؤ کا شکار ہیں لیکن اس تناؤ کی شدت میں بے پناہ اضافہ امریکی صدر کے 21اگست کے پالیسی بیان سے ہوا۔ جس کو نئی افغان پالیسی کا نام دیا گیا۔

اگرچہ اس تناؤ کو کم کرنے کے لیے پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکا کا دورہ بھی کیا لیکن اس سے کوئی خاص نتائج برآمد نہیں ہوئے اور امریکی پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔ چنانچہ امریکی وزیر خارجہ اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں ڈومور کا راگ الاپتے رہے جس پر سویلین اور عسکری قیادت کی جانب سے مشترکہ طور پر نومور کی صورت میں جواب دیا گیا۔

امریکی وزیرخاجہ پاکستان آنے سے پہلے افغانستان کے صدر اشرف غنی سے بگرام ایئر بیس پر ملے۔ اس کے فوراً بعدافغان صدر نے بھارت کا دورہ کیا بلکہ امریکی وزیر خارجہ کا نئی دہلی میں استقبال کرنے والوں میں شامل ہوئے۔ اشرف غنی نے ریکس ہٹلرسن سے ہونے الی گفتگو سے بھارتی لیڈر شپ کو آگاہ کیا۔ جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ امریکا کی نئی افغان پالیسی نے بھارت افغانستان کو یک جان دو قالب کر دیا ہے۔ نئی افغان پالیسی ماضی کے برعکس نئے د ور کا آغاز ہے۔

ہمارے خطے میں صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اس کی شدت اور نوعیت کا اندازہ آپ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے گزشتہ مہینے دیے گئے اس بیان سے لگا سکتے ہیں کہ جس میں انھوں نے ''ہم جو کچھ پہلے تھے اسی کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ یعنی اعتدال پسندی کی جانب۔ مزید کہا کہ ہم اپنی زندگیوں کے اگلے تیس سال تخریبی نظریات سے نمٹنے میں نہیں گزاریں گے بلکہ ہم انھیں آج ہی تباہ کر دیں۔ انھوںنے کہا کہ ہم بہت جلد انتہا پسندی کا خاتمہ کر دیں گے۔'' کیا ایسا ممکن ہے۔ اگر ایسا ہوا تو معجزہ ہی ہو گا۔ جب تک موجودہ رائج انتہا پسند بیانیہ تبدیل نہیں ہوتا۔ امن رواداری اور برداشت کا حصول صرف باتیں ہی ہیں۔ ہر معاملے ہر چیز ہر نظام میں اعتدال ہی کامیابی اور ترقی کا راستہ ہے۔

تو بات ہو رہی تھی امریکی وزیر خارجہ کے دورے کی۔ اپنے دورہ پاکستان میں امریکی وزیر خارجہ نے یہ پیغام دیا کہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی میں اگر پاکستان ناکام رہا تو امریکا دوسری راہ اپنا کر یہ کام سرانجام دے گا۔ اس کے ساتھ انھوںنے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے ساتھ یا پاکستان کے بغیر ہم جنوبی ایشیا میں دہشتگردی ختم کر لیں گے۔ اگر بین السطور اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ صرف بیان نہیں بلکہ پاکستان کو دی گئی ملفوف دھمکی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کے دور ے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نومبر میں ہی 12 روزہ دورے پر پانچ ایشیائی ملکوں کے دورے پر جا رہے ہیں جس میں جنوبی کوریا' جاپان' فلپائن' ویتنام اور چین شامل ہیں۔ فلپائن میں صدر ٹرمپ بھارتی وزیراعظم مودی سے ملاقات کریں گے۔ اس دورے میں وہ شمالی کوریا' چین اور پاکستان کے حوالے سے اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے راہ ہموار کریں گے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ شمالی کوریا کو زیر کرنے کے لیے جاپان اور جنوبی کوریا کی مدد حاصل کرے۔

امریکی وزیر خارجہ پاکستان آنے سے ایک دن پہلے مشرق وسطی کے دورے پر تھے جہاں ان کی کوششوں کا محور ایران کے خلاف خلیجی اتحاد تھا۔ شام میں اگر بشار الاسد کو شکست ہو جاتی تو ایران براہ راست امریکی نشانے پر آ جاتا لیکن امریکا' یورپ اور اسرائیل کی سرتوڑ مشترکہ کوششوں کے باوجود یہ مقصد حاصل نہ ہو سکا۔ مشرق وسطیٰ کے عوام میں بڑھتی ہوئی سیاسی بیداری امریکا اور ا سرائیل کے اثر و رسوخ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

عرب عوام میں بڑھتی ہوئی سیاسی بیداری کا منبع کیونکہ ایران ہے اس لیے اس خطرے کا توڑ ضروری ہے۔ جب بھی ایران پر امریکا اسرائیل کا دباؤ پڑتا ہے اس کا مثبت اثر یہ ہوتا ہے کہ ایرانی قوم اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے متحد ہو جاتی ہے۔ پچھلے چالیس سال سے امریکا اپنی سازشوں میں اس لیے ناکام ہے۔ دنیا میں بہت کم قومیں ایسی ہیں جنہوںنے اپنی آزادی و خود مختاری کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی ہو۔اگر امریکا ایران کے خلاف منصوبہ بندی کر رہا ہے تو ایران' روس' آذربائیجان نے تہران سے جاری اپنے مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے والے فریقین اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔

یاد رہے کہ ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی توثیق سے انکار کر دیا ہے جب کہ برطانیہ' فرانس اور جرمنی نے امریکا سے اختلاف کرتے ہوئے اس معاہدے کی حمایت کی ہے۔ اس موقع پر ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے کہا کہ روس اور ایران کے درمیان تعاون میں اضافہ امریکا کو تنہا کر سکتا ہے۔ دوسری طرف روس نے کہا ہے کہ ماسکو ایران اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد تہران کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔

روسی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران امریکا جوہری معاہدے کی ناکامی کی ذمے داری پورے طور پر امریکا پر عائد ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ انھیں معاہدے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا ترمیم قبول نہیں ہے۔ یہ روس ہی تھا جس نے شام میں امریکا کی تمام چالیں ناکام بنا دیں۔یہاں تک کہ امریکا کو دہشتگردوں کے قبضے سے شام کو بچانے کے لیے روس سے مدد طلب کرنا پڑی۔ روس ایران تعلقات ہوں یا پاکستان روس تعلقات خطے کے لیے خیر کا باعث ہیں۔

امریکا کا ماضی اور تاریخ گواہ ہے کہ اس نے دنیا میں جہاں بھی مداخلت کی وہاں سوائے تباہی وبربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ چالیس سال پرانی افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ اس کا ثبوت ہے جس کے تباہ کن نتائج سے پاکستان' افغانستان اور مشرق وسطی آج بھی مسلسل گزر رہے ہیں... امریکی سینیٹ کی خارجہ پالیسی کے ری پبلکن چیئرمین نے حال ہی میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے بیانات اور اقدامات دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔

تیسری عالمی جنگ کے 2018ء میں چھڑنے کے واضح امکانات ہیں۔

نواز شریف کے لیے 7سے14نومبر اہم وقت ہے۔

نوٹ: اندرون بیرون ملک قارئین سے پچھلے چند ہفتوں کی غیر حاضری کی بہت بہت معذرت وجہ آنکھ کا آپریشن تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔