مردم شماری اور حلقہ بندیاں

حکمران اشرافیہ کسی بھی طور پر عوام کے نچلے طبقات کو ایوان میں پہنچتا دیکھنا نہیں چاہتی۔


Muqtida Mansoor November 06, 2017
[email protected]

LAHORE: جیسے تیسے مردم شماری کا مرحلہ طے ہوا۔ اس کے نتائج چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ کے عوام نے قبول نہیں کیے، مگر اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں اور منصوبہ سازوںکی نظر میں چھوٹے صوبوں کے عوام کی کوئی اہمیت ہو تو ان کے اعتراضات اور تحفظات پر توجہ دیں۔ وہ ان کے اعتراضات کو نظر انداز کر کے اپنے فیصلوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ بہرحال جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ درست نہ ہونے کے باوجود آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔

حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 ہے، جب کہ 1998ء میں کل آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ 62 ہزار تھی۔ یوں 19 برسوں کے دوران آبادی میں ہونے والا اضافہ 7 کروڑ 54 لاکھ 12 ہزار ہے، جو 57 فیصد کے قریب ہے۔ جب کہ برطانیہ کی آبادی 2016ء کی مردم شماری کے مطابق 6 کروڑ 56 لاکھ 40 ہزار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں19برسوں کے دوران آبادی کا اضافہ برطانیہ کی کل آبادی سے بھی ایک کروڑ زیادہ ہے، جو بہرحال تشویش کا باعث ہے۔

لیکن ہمارا موضوع چونکہ مردم شماری پر تنقید نہیں ہے، بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی متوقع تعداد اور نئی حلقہ بندیاں ہے۔ لیکن چند روز قبل قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے اس تجویز کو قبول کرلیا ہے کہ اگلے انتخابات کے لیے نشستوں کی تعداد میں اضافے کے بجائے 2002ء میں طے کردہ نشستوں کو برقرار رکھا جائے، یعنی قومی اسمبلی کے لیے 342 نشستیں۔ جن میں سے 272 پر براہ راست انتخاب ہو اور باقی 70 نشستیں پارٹی لسٹ کی بنیاد پر متناسب نمایندگی کے ذریعے پر کی جائیں۔

اخباری رپورٹس کے مطابق صرف اس قدر تبدیلی کی گئی ہے کہ پنجاب کی قومی اسمبلی میں 9 نشستیں کم کرکے KPK، بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت کی نشستوں میں بالترتیب 5،3 اور ایک کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی جسامت پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ 19 برسوں کے دوران جنم لینے والی نئی نسل کے سروں پر وہی روایتی چوہدری، وڈیرے اور سردار مسلط رہیں گے، جو 70 برسوں سے اس ملک کے عوام کا خون چوستے رہے ہیں۔

اب ذرا دنیا کے چند جمہوری ممالک کے ایوان زیریں میں نشستوں کی تعداد پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ جرمنی کی کل آبادی 8 کروڑ 26 لاکھ 70 ہزار ہے۔ وہاں ایوان زیریں میں کل نشستیں 558 ہیں۔ کینیڈا کی کل آبادی 3 کروڑ 62 لاکھ 90 ہزار ہے۔ اس کے ایوان زیریں میں کل نشستیں 338 ہیں۔ نیپال کی کل آبادی 2 کروڑ 90 لاکھ ہے۔ اس کے ایوان زیریں میں نشستوں کی کل تعداد 601 ہے۔

برطانیہ میں، جس کا مرتب کردہ نظام اور قوانین ہمارے یہاں آج تک چل رہے ہیں، ایوان زیریں (House of Commons) میں 650 نشستیں ہیں۔ پاکستان کی آبادی جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، 1998ء کی مردم شماری کے مطابق سوا 13 کروڑ کے قریب تھی، ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں نشستوں کی کل تعداد 324 رکھی گئی۔ جن میں سے 272 نشستوں پر 2002ء سے براہ راست انتخاب ہورہا ہے۔ اب جب کہ آبادی میں ساڑھے سات کروڑ سے زائد کا اضافہ ہوگیا ہے، نشستوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا جارہا۔

درج بالا اعداد وشمار سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستان سے نصف، چوتھائی اور دسواں حصہ آبادی رکھنے والے ممالک کے قانون ساز اداروں میں عوامی نمایندگی پاکستان سے دگنی، تگنی اور چار گنی ہے۔ اس سلسلے میں لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں وسیع رقبہ پر پھیلی خطیر آبادی پر مشتمل انتخابی حلقے بنانے میں کیا مصلحت ہے؟

تو اس سوال کا سادہ سا جواب ہے کہ حکمران اشرافیہ کسی بھی طور پر عوام کے نچلے طبقات کو ایوان میں پہنچتا دیکھنا نہیں چاہتی۔ دوسری بات یہ کہ فیصلہ میں شریک جماعتوں نے خواتین اور غیر مسلموں کی نشستوں کی تعداد میں بھی کوئی اضافہ مناسب نہیں سمجھا۔ گویا خواتین اور غیر مسلموں کی آبادی میں اضافہ کے بجائے تنزلی ہوئی ہے۔

پاکستان میں متوشش عوامی حلقے گزشتہ کئی برسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقے غیر فطری طور پر بڑے اور غیر متوازن ہیں۔ جن کی جسامت کو متوازن بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر 1998ء کی مردم شماری کے اعدادو شمار کی بنیاد پر براہ راست انتخابات والے 272 حلقوں کا جائزہ لیا جائے، تو ہر حلقہ اوسطاً پونے 5 لاکھ آبادی پر بنتا ہے۔ اگر ہر حلقے میں ووٹروں کی اوسط تعداد کل آبادی کا نصف ہو، تو یہ ڈھائی لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ حلقوں کی تیاری میں سیاسی مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان گنت اسقام پیدا ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں دو مثالیں خاصی واضح ہیں۔ اول، بلوچستان کی آبادی گو کہ کم ہے، لیکن رقبہ بہت زیادہ ہے۔ اس لیے وہاں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ کئی میلوں پر محیط ہوتا ہے، جس کی وجہ سے امیدواروں کو اپنے ووٹر تک پہنچنے کے لیے میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ دوئم، کراچی گنجان آباد ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں ایک حلقہ 7 سے 8 لاکھ آبادی کا بنادیا جائے۔ سوئم، خواتین اور غیر مسلموں کے لیے نشستیں بھی ان کی آبادی کے تناسب سے نہیں ہیں۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خواتین اور غیر مسلموں کی آبادی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

پاکستان کے متوشش حلقے مسلسل یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ سیاست میں موروثیت کو توڑنے کے چند طریقے ہیں۔ اول، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے اور حلقہ کا سائز چھوٹا کردیا جائے۔ دوئم، ہر اسمبلی کی کل نشستوں کی نصف تعداد پر مروجہ طریقہ کار کے تحت براہ راست انتخاب ہو، جب کہ بقیہ نصف نشستوں پر پارٹی لسٹ کے مطابق متناسب نمایندگی کی بنیاد پر چنائو ہو، تاکہ خواتین اور غیر مسلموں کے علاوہ محنت کشوں، پروفیشنل باڈیز اور تاجر برادری کی بھی اس طرح قانون سازی کے عمل میں شرکت ہوسکے۔ ساتھ ہی مراعات یافتہ طبقہ کی اقتدار واختیار پر بالادستی کو ختم نہیں تو کم کیا جاسکے۔

سول سوسائٹی کے مختلف حلقوں کی جانب سے اب یہ تجویز دی جارہی ہے کہ حالیہ مردم شماری کی روشنی میں موجودہ قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد کم از کم 800 ہونا چاہیے۔ جن میں سے 400 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہو۔ جب کہ بقیہ نصف نشستوں پر خواتین، غیر مسلموں، محنت کشوں، کاروباری حلقے اور پروفیشنل باڈیز کے نمایندوں کو متناسب نمایندگی کی بنیاد پر پارٹی لسٹ کے ذریعہ منتخب کیا جائے۔

نئی حلقہ بندیوں کا کام تین ماہ میں مکمل ہوسکتا ہے۔ یعنی پہلے مہینے میں الیکشن کمیشن حلقوں کا ابتدائی خاکہ تیار کرکے عوام کے اعتراضات کے لیے پیش کردے۔ جس کے لیے ایک ماہ کا عرصہ کافی ہے۔ اس کے بعد ایک ماہ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کو حتمی شکل دے دی جائے۔ یوں اگر یہ کام 15 جون سے شروع ہوتا ہے، تو 15 فروری 2018ء تک مکمل ہوسکتا ہے۔ موجودہ اسمبلیوں کی مدت چونکہ 5 جون تک ہے، اس لیے انھیں چاہیے کہ وہ تیزی کے ساتھ قانون سازی کریں اور الیکشن کمیشن کو ذمے داری سونپ دیں۔ پارلیمان سے منظوری کے بعد نئے قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقے یکم مارچ سے نافذالعمل ہوسکتے ہیں۔

اس دوران پارلیمان نشستوں کی تعداد میں اضافے، متناسب نمایندگی کا دائرہ کار بڑھانے کا طریقہ کار وضع کرسکتی ہے۔ یوں عام انتخابات اپنے وقت مقررہ پر 5 ستمبر یا اس کے اطراف کسی بھی تاریخ میں ممکن ہیں۔ مگر اس کام کے لیے سیاسی عزم وبصیرت اور ذہنی آمادگی بنیادی شرط ہے۔ جو اراکین اپنی تنخواہیں اور مراعات میں اضافے کے لیے اگر یکجان ہوسکتے ہیں، تو قومی مفاد میں یکجان ہونے میں کیا دشواری ہے، اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں