گیس پائپ لائن اور گوادر کے معاملے پر امریکی دباؤ مسترد

بھٹو صاحب نے عرب ممالک کو یہ پیغام دیا کہ عربوں کی جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔


Khalid Qayyum March 06, 2013
بھٹو صاحب نے عرب ممالک کو یہ پیغام دیا کہ عربوں کی جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔ فوٹو: فائل

صدر زرداری نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن پراجیکٹ اورگوادر پورٹ چین کے حوالے کرنے کے معاملے پر امریکی دباؤ قبول نہ کرکے پیپلزپارٹی کی اس سامراج مخالف سوچ کو دوبارہ اجاگر کردیا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی سیاست کا ایک کلیدی جز تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام شروع کیا جس کے نتیجے میں 1998ء میں ملک ایٹمی طاقت بن گیا۔ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے نالاں تھا۔ وہ بھٹو صاحب کو برداشت نہیں کر سکتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ اگست 1976ء میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو صاحب کو دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کیا تو انہیں عبرت کی بھیانک مثال بنادیا جائے گا، یہ محض دھمکی نہ تھی بلکہ ایک مکمل سازش تھی۔ بھٹو کو ایٹم بم کے منصوبے سے والہانہ لگاؤ تھا، مغربی دنیا کو ادراک تھا کہ اگر پاکستان ایٹمی قوت بن گیا تو بھارت اور اسرائیل کے مقابلے میں ایک مسلم ملک کھڑا ہوجائے گا۔ چین کے ساتھ پاکستان کے مراسم کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔

بھٹو صاحب نے عرب ممالک کو یہ پیغام دیا کہ عربوں کی جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح بینظیر بھٹو نے بھی میزائل ٹیکنالوجی ترک کرنے کا امریکی مطالبہ مسترد کردیا جس کے نتیجے میں آج پاکستان جنوبی ایشیاء کا سب سے جدید اور مؤثر میزائل ٹیکنالوجی رکھنے والا ملک بن چکا ہے، بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے 93 ء کے دور میں امریکی دباؤ پر سنٹرل ایشیا سے گیس پائپ لائن منصوبے کا کنٹریکٹ پاکستان کے مفاد کے خلاف ایک کمپنی کو دینے سے انکار کر دیا تھا جس پر پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف قومی و بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی اور ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ صدر آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف انتقامی کارروائی کیلئے کیس بنائے گئے جو آج تک کسی عدالت میں ثابت نہیں ہوسکے۔

آج صدر زرداری بھی اسی روایت پر چلتے ہوئے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدہ کررہے ہیں۔ امریکی دباؤکو پس پشت ڈالتے ہوئے امریکہ پر واضح کردیا گیا ہے کہ گیس پائپ لائن کا منصوبہ ہر حال میں مکمل کیا جائے گا، خواہ پابندیاں ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں کیونکہ یہ پراجیکٹ پاکستان کی انرجی ضروریات کے لئے بہت اہم ہے اور ہم وسیع تر قومی مفاد میں معاشی پابندیوں کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ جنوری 2010ء میں بھی اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان کو اس منصوبے سے دور رہنے کیلئے کہا تھا اور پاکستان کو مائع گیس اور تاجکستان سے افغانستان کے راستے بجلی درآمد کرنے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے یہ پیشکش ٹھکرا دی تھی۔

پیپلزپارٹی نے ہمیشہ بین الاقوامی سطع پر دباؤ برداشت کیا ہے ۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ایسے فیصلے کئے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بھٹو نے پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی اور بے نظیر بھٹو نے اس پالیسی کو تقویت دی اور اب صدر زرداری نے اس آزاد خارجہ پالیسی پر مضبوط عمارت کھڑی کردی ہے۔ صدر آصف زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد 11مارچ کو پاک ایران بارڈر پر گیس پائپ لائن کا افتتاح کریں گے ۔ دو دہائیوں سے اس منصوبے پر مذاکرات ہورہے تھے۔ 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے پاک گیس پائپ لائن کی تعمیر کا یہ منصوبہ پیش کیا اور ایک آسٹریلوی فرم سے فزیبلٹی رپورٹ بنوائی ، آسٹریلوی فرم نے ساڑھے تین ملین ڈالر خود خرچ کئے ۔

پیپلزپارٹی کی حکومت ختم کر دی گئی اور یہ منصوبہ التواء کا شکار ہوگیا، پھرکسی حکومت نے اس منصوبے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ صدر زرداری نے پاک ایران گیس پراجیکٹ پر خصوصی دلچسپی لی اور اس مقصد کیلئے وہ آٹھ بار ایران گئے۔ ابتداء میں بھارت بھی اس منصوبے میں شامل تھا تاہم وہ امریکی دباؤ پر اس منصوبے سے الگ ہوگیا ۔ ایرانی حدود میں پائپ لائن مکمل ہے۔ اب پاکستانی حدود میں 785 کلومیٹر طویل پائپ لائن پر کام شروع ہوگا۔ پاکستان کو ایک ارب کیوبک فٹ گیس روزانہ ملے گی۔ اس منصوبے سے توانائی کی 50فیصد ضروریات پوری ہوں گی۔ پاکستانی علاقے میں پائپ لائن بچھانے کا ٹھیکہ ایرانی کمپنی تدبیر کو دیا گیا ہے۔ تدبیر فاؤنڈیشن کو کسی غیر ملک کی طرف سے پابندی کا سامنا نہیں ہے۔

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ پابندی کی زد میں آنے والی سرگرمیوں سے گریز کرے۔ صدر آصف علی زرداری نے چند روز قبل بلاول ہاؤس لاہور کی اوپننگ پر ملک بھر سے سینئر صحافیوں ، کالم نگاروں اور اینکرزپرسن کو خصوصی طور پر مدعو کیا، اس تقریب میں راقم بھی شریک تھا، یہاں صدر صاحب نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کھل کرباتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاک ایران گیس منصوبے کو مکمل کرنے سے نہیں روک سکتی، پاک ایران گیس منصوبہ اور گوادر پورٹ چین کو دینے کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنا ملکی مفاد کیلئے انتہائی ضروری ہے، پاکستان کے عوام اس کی اونر شپ لیں کیونکہ یہ ان کے مفاد میں ہے۔

صدر زرداری کا عزم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی یاد دلا رہا تھا، پیپلز پارٹی کی قیادت نے کسی دباو میں آئے بغیر ایٹمی پروگرام شروع کیا، پھر میزائل ٹیکنالوجی پر عالمی طاقتوں سے ٹکر لی اور اب گیس پائپ لائن پر بھی اسی جرات کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہر وہ کام کیا جو پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہے، اس کے لیے انہیں جان بھی دینا پڑی تو دریغ نہیں کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں