سانحات
صدر زرداری پنجاب میں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں‘ انھوں نے پنجاب کو تقسیم کرنے کا نعرہ لگا رکھا ہے
GILGIT:
کراچی میں سانحہ عباس ٹائون نے دل دکھی کر دیا ہے' جو دنیا سے چلا گیا' وہ دکھوں سے نجات پا گیا لیکن جو زندہ ہیں' ان کے پاس ماتم و آہ زاریوں کے سوا کچھ نہیں بچا۔ ٹی وی اسکرین پر آنسو بہاتے مرد' خواتین اور بچوں کو دیکھ کر کہیں جنگل میں چھپ جانے کو جی چاہتا ہے کیونکہ جب انسان کچھ نہ کرسکے تو اسے کم ازکم بزدلوں کی طرح بھاگ جانا چاہیے۔جنگلوںمیں مقیم کمزور جانور ایسا ہی کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف سیاستدانوں کی آنیاں جانیاں اور کہہ مکرنیاں دیکھ کر ہو رہی ہے۔
یہ وہ مخلوق ہے، جو ہر نیوز چینل اور اخبار میں نظر آتی ہے۔ان کے گھروں میں ڈکیتی ہوتی نہ دہشت گردی کی واردات۔ان کا کام صرف بیان جاری کرنا ہوتا ہے۔اس وقت بھی ہر سیاسی جماعت اپنا دامن بچانے کے لیے دوسروں پر الزامات عاید کر رہی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں ملک گیر سیاسی جماعتیں کمزور ہو رہی ہیں اور گروہی مفادات کے لیے قائم پریشر گروپ مضبوط ہو گئے ہیں۔ان گروپوں نے اپنی اپنی راج دھانیاں قائم کررکھی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں لیکن وہ عام انتخابات میں کامیابی کے لیے علاقائی گروپوں سے اتحاد بنانے پر مجبور ہیں۔
مسلم لیگ ن سندھ میں اپنی حیثیت کو مضبوط بنانے کے لیے پیر پگارا' قادر مگسی' جی ایم سید کے صاحبزاد جلال محمود شاہ اور رسول بخش پلیجو کے صاحبزادہ ایاز لطیف پلیجوکی جماعتوں سے اتحاد بنانے پر مجبور ہے۔ اب ذرا سوچیں، اگر سندھ میں یہ اتحاد کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا میاں نواز شریف اپنے ویژن کے مطابق سندھ حکومت کو چلا سکیں گے؟ ایسا نہیں ہو گا' فرق صرف اتنا پڑے گا کہ اب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم حکومت میں ہونے کے باوجود پکار رہی ہیں کہ کراچی میں قتل و غارت بند کی جائے، پھر مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی واویلا کریں گے کہ سندھ اور کراچی میں دہشت گردوں کو کنٹرول کیا جائے گا حالانکہ سب کو پتہ ہو گا کہ حکومت تو وہ خود ہیں' پھر کسے یہ کہا جا رہا ہے کہ سندھ اور کراچی میں امن قائم کیا جائے۔ کیا ان کا مطالبہ فرشتوں سے ہے جو اچانک آئیں گے اور سب کچھ ٹھیک کر کے واپس چلے جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے' صدر زرداری پنجاب میں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں' انھوں نے پنجاب کو تقسیم کرنے کا نعرہ لگا رکھا ہے' وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائے گی' رہ گیا وسطی اور شمالی پنجاب، یہاں ان کی امیدیں ق لیگ کے چوہدریوں پر ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ق لیگ یہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی' انھیں امید ہے کہ طاہر القادری اور سنی اتحاد کونسل کا ووٹر بھی ان کے امیدواروں کو ووٹ ڈالے گا۔ ادھر تحریک انصاف مسلم لیگ ن کا ووٹ توڑے گی' یوں اس سہ رخی جنگ میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا مشترکہ امید وار کامیاب ہو جائے گا۔
جنوبی پنجاب میں لینڈ سلائیڈ وکٹری اور وسطی و شمالی پنجاب میں مناسب جیت کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں سے مل کر پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس خیالی اسٹرٹیجی یا مفروضے کو تسلیم کر لیں تو سوال پھر وہی ہے کہ کیا کامیابی حاصل کر کے صدر آصف زرداری پنجاب میں وہ کچھ کرسکیں گے جو وہ چاہتے ہیں' کیا انھیں پنجاب میں بھی انھی مشکلات کا سامنا ہو گا جن کا انھوں نے پانچ برس تک سندھ میں سامنا کیا ہے۔ماضی میں بھی پیپلز پارٹی پنجاب میں اتحادیوں سے مل کر حکومت بنا چکی ہے، ایک بار میاں منظور وٹو وزیراعلیٰ بنے اور دوسری بار سردار عارف نکئی۔ پیپلز پارٹی دیکھتی رہ گئی،اب بھی ایسا ہی ہوگا۔
خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن نے ہزارہ یا ہندکو صوبہ کے حامیوں سے اتحاد کر لیا ہے۔ کیا مسلم لیگ ن الیکشن جیت کر خیبر پختونخوا اسمبلی سے ہزارہ صوبے کے حق میں قرار داد منظور کرا لے گی؟ اگر وہ ایسا نہیں کر سکی تو پھر وہ ہزارہ صوبے کے حامیوں کو کیسے مطمئن کرے گی؟ جوڑ توڑ کی سیاست کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ملک کی ساری جماعتیں کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے لیے بے تاب ہورہی ہیں۔
کیا یہ ایسے عناصر سے اتحاد کے مترادف نہیں جو ملک میں فرقہ واریت اور دہشت گردی پھیلانے کے ذمے دار سمجھے جاتے ہیں، پھر اکیلے مسلم لیگ ن پر یہ الزام کیوں کہ اس کے کالعدم تنظیموں سے رابطے ہیں' یہاں تو پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی جیسی بظاہر لبرل سیاسی جماعتیں بھی کالعدم طالبان تنظیم سے مذاکرات کے لیے مری جا رہی ہیں۔ ن لیگ پر ان کے ساتھ ممکنہ انتخابی اتحاد کا الزام ہے تو کیا دیگر جماعتیں ان سے مذاکرات کی بات کر کے یہ چاہتی ہیں کہ الیکشن میں زیادہ خون خرابہ نہ ہو۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ان کی معصومیت پر مر جانے کو دل چاہتا ہے۔
ملک کی سیاسی قیادت وقتی اور فوری نوعیت کے مفادات کے حصول کے لیے کسی اصول و ضابطے کی پابندی کو مناسب نہیں سمجھتی۔اس کی پالیسی یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح حکومت بنا لی جائے ، باقی بعد میں دیکھا جائے گا لیکن پھر ہوتا یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسی رویے کا شکار ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی ہے۔ اس ڈھل مل اور موقع پرست پالیسی نے ملک کے انتظامی ڈھانچے کو مفلوج کررکھا ہے۔ جب انتظامیہ مفلوج ہوتی ہے تو پریشر گروپ طاقتور ہو جاتے ہیں۔ریاست کی رٹ چیلنج ہونے لگتی ہے۔ ریاست کی کمزوری کے باعث ہی کالعدم تحریک طالبان نیم عسکری تنظیم کا روپ دھار چکی ہے۔ کالعدم فرقہ پرست تنظیموں کا نیٹ ورک بھی پوری طرح فعال ہے۔ ان کے متوازی جرائم پیشہ گروہ بھی مسلح ونگز بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔
قوم پرستی اور لسانیت پر مبنی گروپ بھی زیر زمین مسلح ونگز رکھے ہوئے ہیں۔فکری انتشار نے قوم اور اداروںکو تقسیم کردیا ہے ۔ ایسی صورت حال میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بے بس ہو چکی ہیں' وہ اپنے چھوٹے چھوٹے اتحادیوں کے ایجنڈے کو لے کر چلنے پر مجبور ہیں' ان کی قیادت میں بنی حکومتیں مصلحتوں کی اسیر ہیں۔ان میں وہ دم خم نہیں جودہشت گردوں کا سر کچل سکے۔ ایسی صورت میں کوئٹہ میں ہزارہ منگول برادری کا قتل عام ہو' کراچی میں سانحہ عباس ٹائون ہو یا کوئی اور واقعہ، خیبرپختونخوا میں لوگ مارے جائیں یا پنجاب میں سری لنکا کی ٹیم یا کسی حساس ادارے کے دفتر پر حملہ یا کسی مارکیٹ میں بم دھماکا' کسی کے مجرم نہیں پکڑے جائیں گے۔