عمران خان سراج الحق اور احتساب
عمران خان اور سراج الحق صرف سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لگاتے ہیں
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی سیاست ''احتساب'' کے نعرے پر محیط ہے۔ عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگایا۔ پہلے لوگوں نے ان کے نعرے پر توجہ نہیں دی مگر 2010سے پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ عمران خان کی مقبولیت بڑھنے لگی اور 2013 کے انتخابات میں عمران خان کرپشن کے خاتمے کے نعرے کی بنا پر ملک کے بڑے رہنما بن گئے۔
غیر ملکی اخبارات نے عمران خان کا بھارت کے سماجی کارکن انا ہزارے سے موازنہ شروع کردیا ۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والے انا ہزارے نے کانگریس کی حکومت کی کرپشن کے خلاف بھارت میں رائے عامہ منظم کی تھی مگر بھارت میں کرپشن کے خاتمے کا نعرہ تو بہت مقبول ہوا مگر انا ہزارے نئی دہلی میں چند دن تک کرپشن کے خاتمے کے لیے جامع قانون کے لیے دھرنا دے کر واپس ممبئی پہنچ گئے۔
ان کی مہم کا فائدہ وزیر اعظم مودی نے اٹھایا۔ عمران خان نے کرپشن کے نعرے پر خیبر پختون خواہ، پنجاب اور سندھ کے شہروں خصوصاً کراچی میں مقبولیت حاصل کی۔ تحریک انصاف نے کے پی کے میں حکومت بنائی۔ پنجاب کے انتخابی نتائج کو تحریک انصاف نے چیلنج کیا۔ عمران خان نے مسلم لیگ ن کی اورمیاں نواز شریف کے خاندان کی کرپشن کے خلاف مؤثر مہم چلائی۔ انھوں نے پاناما لیکس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے سے پہلے پورے ملک میں میاں صاحب کی فیملی کی دولت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثوں کے بارے میں خوب ہنگامہ مچایا۔
پاناما لیکس اسکینڈل کی تحقیقات کے مطالبے کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کا قصد کیا۔ سپریم کورٹ نے پاناما اسکینڈل پر ازخود نوٹس کے تحت سماعت کی، یوں پاناما لیکس میں 400 سے زائد پاکستانی خاندانوں کے ناموں کے شامل ہونے کے باوجود صرف شریف خاندان کے خلاف سپریم کورٹ نے مقدمہ سنا۔
مسلم لیگی رکن حنیف عباسی کی عمران خان اور جہانگیر ترین کے اثاثوں کے قانونی نہ ہونے کے بارے میں عرضداشت پر سپریم کورٹ نے کارروائی شروع کی۔ جب سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تو عمران خان نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی بدعنوانی کو سندھ کے مختلف شہروں میں ہونے والے جلسوں میں موضوع بحث بنایا۔
جماعت اسلامی، قاضی حسین احمد کے دور سے کرپشن کے ناسورکے خاتمے کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے سب سے پہلے سپریم کورٹ میں پاناما اسکینڈل میں افشاں ہونے والی آف شور کمپنیوں کے معاملے کو اٹھایا۔ انھوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے انتخابا ت میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں درج اثاثوں اور پاناما اسکینڈل میں میاں صاحب کے صاحبزادوں حسین اور حسن کے اثاثوں کی مقدار کے تضاد کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
عمران خان اور شیخ رشید وغیرہ نے سراج الحق کی پیروی کی۔ سراج الحق پورے ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے نعرہ بازی کرتے رہے۔ جب عوامی حلقوں میں اس بات پر بحث سنجیدہ ہوگئی کہ پاناما اسکینڈل میں شامل میاں خاندان کے علاوہ کسی اور فرد کا احتساب نہیں ہورہا تو سراج الحق نے کئی ماہ بعد اب سپریم کورٹ سے رجو ع کیا۔
عمران خان اور سراج الحق نے کرپشن کے خلاف مہم میں قومی احتساب بیورو (NBA)کی کارکردگی کو براہِ راست نشانہ بنایا۔ سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں نیب کو ایک ناقص ادارہ قرار دیدیا۔ عمران خان اور سراج الحق بالترتیب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے نیب کی جگہ احتساب کے نئے ادارے کے قیام کے لیے کمیٹی قائم کی ہوئی ہے۔ برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ ن کے علاوہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین بھی اس کمیٹی میں شامل ہیں۔ اس کمیٹی نے طویل ریاضت کے بعد احتساب کے نئے ادارے کے قیام کے لیے مسودہ کو آخری شکل دی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کمیٹی کے سامنے تجویز رکھی کہ احتساب کا مجوزہ ادارہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے علاوہ ججوں اور جنرلوں کا بھی احتساب کرے۔ معاشرے کے تمام سیکشن کے احتساب کے لیے یہ مقبول تجویز تھی مگر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس تجویزکی مخالفت کردی۔ بعد میں متحدہ قومی موومنٹ نے بھی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے مؤقف کی حمایت کردی۔ پارلیمانی کمیٹی میں اکثریت نہ ہونے پر پیپلز پارٹی نے اس تجویز سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ اب عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ نیب کے قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر اسلام آ باد کا گھیراؤ کریں گے۔
ملک کی 70 سالہ تاریخ میں 30 سال فوجی جنرلوں نے حکومت کی۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو مارشل لاء نافذ کیا۔ فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا اور 1956کا آئین منسوخ کردیا گیا۔ یوں پہلے 10 سال ایوب خان اور پھر تین سال یحییٰ خان نے مارشل لا ء کے ذریعے حکومت کی۔ ایوب خان کے دور میں جسٹس منیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ انھوں نے دوسو کیس میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء نافذ کرنے کے فیصلے کو ''نظریہ ضرورت'' کے تحت درست قرار دیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977کو مارشل لاء نافذ کیا اور آئین معطل کردیا۔ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس انوار الحق کی قیادت میں فل بینچ نے جنرل ضیاء الحق کے غیر آئینی اقدام کو قانونی قرار دیدیا۔ جنرل مشرف نے 1999میں میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا، آئین کو معطل کیا اور خود اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ تخلیق کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے جنرل پرویز مشرف کے آئین سے مبرا اقدام کو قانونی قرار دیا اور جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیدیا۔ جب میاں نواز شریف نے آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلایا تو جنرل مشرف بیمار ہوگئے۔
جس دن انھیں عدالت پیش ہونا تھا اسی دن اسلام آباد کی سڑکوں پر بم پھٹے اور وہ عدالت کے بجائے اسپتال میں داخل ہوگئے۔ ایک دن جنرل پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے۔ انھوں نے لندن میں ایک انٹرویو میں کہا کہ سابق چیف آف اسٹاف جنرل راحیل شریف کے دباؤ کی بناء پر وہ ملک سے باہر آنے میں کامیاب ہوئے۔ اس حقیقت پر سب متفق ہیں کہ جنرل یحییٰ خان مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش میں تبدیل ہونے کے ذمے دار تھے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے جنرل یحییٰ خان کو مشرقی پاکستان کے المیے کا ذمے دار قرار دیا مگر جنرل یحییٰ خان کے خلاف کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا۔ جنرل صاحب کو ان کی حفاظت کی خاطر اسلام آباد اور پشاور کے بنگلوں میں سرکاری تحویل میں رکھا گیا۔ دوسری طرف سیاستدانوں کے احتساب کا سلسلہ 1948 سے ایوب کھوڑو ، اے کے فضل الحق اور حسین شہید سہروردی سے شروع ہوا۔ میاں نواز شریف تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
یوں ایک وزیر اعظم کو پھانسی ہوئی، دو وزراء اعظم کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا اور باقی وزراء اعظم اپنی آئینی مدت مکمل کیے بغیر گھر کو بھیج دیے گئے۔ اسی طرح سول بیوروکریسی کے احتساب کا سلسلہ جنرل ایوب خان کے دور سے شروع ہوا۔ یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے ادوار میں بیوروکریسی کے اراکین کو ملازمتوں سے برطرفی اور قیدوبند کی سزاؤں سے گزرنا پڑا مگر جنرلوں اور ججوں کے معاملے پر ہمیشہ خاموشی رہی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے صاحبزادے ارسلان چوہدری کی بدعنوانی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر بحث آیا مگر پھر کچھ اخبارات کی فائلوں تک ہی محدود رہا۔ اب فوج کی سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی افسر جو وکالت کرتے ہیں یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ججوں اور جنرلوں کو بھی احتساب کے نئے قانون میں شامل کرنا چاہیے۔
عمران خان اور سراج الحق صرف سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لگاتے ہیں اور یہ مقدمہ پیش کرتے ہیں کہ محض سیاستدانوں کے احتساب سے ہی کرپشن ختم ہوجائے گی۔ ایم کیو ایم کی پالیسی ہمیشہ سے تضادات کا مجموعہ رہی۔ آج کل ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھی نادیدہ قوتوں کے حصار میں ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے نادیدہ قوتوں کے فٹ پرنٹ پر دوڑنے کی کوشش کررہے ہیں مگر سب کا احتساب کا نعرہ لگانے والے عمران خان اور سراج الحق کا مؤقف ان کے دھرے معیارکی عکاسی کرتا ہے۔ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ریاست کے تمام ستونوں کا بغیر کسی امتیاز کے احتساب ہو تو ہی پاکستانی ریاست سے کرپشن کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ عمران خان اور سراج الحق اپنے مؤقف میں سنجیدہ ہیں تو انھیں سب کا احتساب کے نعرے کو عملی شکل دینے کے لیے احتساب کے نئے ادارے کے بارے میں سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی تجویزکی حمایت کرنی چاہیے۔