سکندراعظم اوراس کی بدقسمتی
ہائے افسوس صد افسوس، وہ ان خوشیوں، مسرتوں، لذتوں اور حقیقتوں سے واقف ہوبھی کیسے ہوسکتا تھا
46ء عیسوی کا نامور یونانی دانشور پلو ٹارک سکندر اعظم کے بارے میں اس کے کردارکو صرف ایک جملے میں بیان کردیتا ہے جو سکندر کے بارے میں ایک سچائی ہے وہ لکھتا ہے ''سکندر اعظم کو نہ دولت کی پرواہ تھی نہ وہ عیاشی کا دلدادہ تھا وہ تو اقتدار اور شان و شوکت کا دیوانہ تھا'' اگر ہمارے ملک کے کسی بھی دانشور کو یہ چیلنج کردیا جائے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے کردار کو صرف ایک جملے میں بیان کرے تو یقین جانیے کہ وہ دانشور ی سے تاحیات توبہ کرلے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی ساری سمجھ بوجھ سے دستبردار ہو جائے گا۔
وہ اپنے کپڑے پھاڑ کر بیابانوں اور صحراؤں میں گم ہوجائے گا لیکن وہ کبھی بھی کسی بھی صورت میں صرف ایک جملے میں اپنے حکمرانوں کے کردار کو بیان نہیں کر پائے گا کیونکہ ان کے کردار کو صرف ایک جملے میں بیان کرنا قطعی ناممکن ہے۔ اس کے لیے تو پوری ایک کتاب لکھنا پڑے گی تب ہی جا کر ان کے کردار کے تمام پہلو سامنے آسکیں گے۔
اصل میں بات یہ ہے کہ سکندر اعظم اپنے وقت کا سب سے بڑا طرم خان ہوگا، یہ بھی سچ ہے کہ اس نے تمام معلوم دنیا کو فتح کرلیا تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ اس کے باوجود حکمرانی کی اصل لذتوں سے تا حیات نا واقف رہا۔ اس کے مشیر اور ساتھی اس قدر نا اہل تھے کہ وہ حکمرانی کے اصل مزے اور لذتوں سے اسے کبھی آگاہ ہی نہ کرسکے ورنہ وہ اپنی ساری عمر اس طرح در بدری میں کبھی نہ گزارتا، ایک ملک سے دوسرے ملک اور دوسرے ملک سے تیسرے ملک کو فتح کرتا نہ بھٹکتا پھرتا، اسے پوری زندگی معلوم ہی نہ چل سکا کہ دولت جمع کرنے میں کتنا مزا آتا ہے اور اسے بار بارگننے میں کتنا سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے کرپشن اور لوٹ مارکرنے میں کتنا لطف آتا ہے کمیشن کھانے غبن اور جعلسازی کرنے میں کتنا سرور ملتا ہے ظلم اور ناانصافی کرکے جی کو کتنا قرار ملتا ہے لوگوں کو ذلیل وخوار کر کے انھیں تڑپا کرکتنی حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔
ہائے افسوس صد افسوس، وہ ان خوشیوں، مسرتوں، لذتوں اور حقیقتوں سے واقف ہوبھی کیسے ہوسکتا تھا کیونکہ اس کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ ارسطو کا شاگر د تھا اور ارسطو نے اسے ایسی ایسی پٹیاں پڑھائیں کہ وہ ان سروروں اور لطفوں سے تاحیات محروم رہا۔ ارسطو اس کے علاوہ اسے اور سکھا بھی کیا سکتا تھا کیونکہ وہ ایسی سرزمین یونان میں پیدا ہوا تھا جس کے متعلق انگریزی شاعر پی ۔بی ۔شیلے نے اپنی نظم میں کہا تھا This was the Land where Nature Cultivated wit, Wisdom and Intelegence ذہانت، علم و دانش اور فہم سے شیلے کی مراد وہ عظیم شخصیات ہیں جنہیں زمانہ سقراط، افلاطون، ارسطو، ہوریس، سولن،اسکائی لس، یوری پیڈیز، ورجل اور ان سب سے پہلے ہومرکے نام سے یاد کرتا ہے یہ سب لوگ وقت کی فصیل پر چراغ بن کر جل رہے ہیں اور ان کی روشنی میں صدیاں راستہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر چل رہی ہیں۔
اسی زمین میں اپنے وقت کا مشہور طربیہ نگار ارسٹو فینیز بھی پیدا ہوا جس نے ایتھنزکے لوگوں کی حماقتیں،ان کی نفسیات اور عادات و خصائل، ان کی کمزوریاں سب کچھ اپنے ڈراموں میں عیاں کیں۔ والیٹر کا کہنا ہے ''میں جب ارسٹو فینیز کے طربیہ ڈرامے پڑھتا ہوں تو مجھے محسو س ہوتا ہے جیسے میں ڈرامے نہیں اس زمانے کا اخبار پڑھ رہا ہوں جس میں ایتھنز کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں'' یہ تو والیٹرکا کہنا تھا لیکن ہم جب ارسٹو فینیز کے ڈرامے پڑھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ آج کے پاکستان کے حالات تفصیل سے بیان کررہا ہے۔
آئیں! اس کے ڈرامے Plutus میں سیاسی شخصیتوں اورعبادت گاہوں کے مجاوروں پر اس کا طنز دیکھیں ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ ایک نابینا آدمی جا رہا ہے، ایک ادھیٹر عمر آدمی اور اس کا نوکر اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں نوکر اپنے آقا سے پوچھتا ہے کہ ہم ایک اندھے آدمی کا پیچھا کیوں کر رہے ہیں؟آقا: تم میرے غلاموں میں سب سے ذہین ہو اور سب سے اچھے چور بھی ہو۔ میں ہمیشہ سے مفلس اور غریب ہوں۔ غلام: ہاں ایسا ہی ہے آقا:۔ جب کہ عبادت گاہوں کے پجاری، ڈاکو اور سیاست میں شامل چور ہمیشہ دولت مند اور امیر رہے ہیں۔
یہ ہی غلام ڈرامے میں آگے چل کر ایک سیاستدان سے ملتا ہے اور اس سے پو چھتا ہے غلام:۔ تم اچھے آدمی ہو، کیا تم محب وطن ہو۔ سیاستدان:۔ ہاں اگر اس کا کوئی وجود ہے غلام:۔ تو پھر تم کسان ہو کھیتی باڑی کرتے ہو۔ سیاست دان:۔ میں پاگل نہیں ہوں کہ یہ کام کروں۔ غلام:۔تو پھر تم ضرور تجارت کرتے ہو۔ تاجر ہو؟ سیاست دان:۔ کبھی تجارت کرتا تھا مگر اب نہیں۔ غلام:۔ تو پھر تم کیا کاروبار کرتے ہو ۔ سیاست دان:۔ کوئی کام نہیں کرتا۔ غلام:۔ تو پھر گزارا کیسے ہو تا ہے سیاست دان۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں حکومت میں سپروائزر جنرل ہوں میں نجی اور عوامی اداروں کی دیکھ بھال کرتا ہو ں۔ غلام :۔ وا ہ واہ بڑا عہدہ ہے اس عہدے کو حاصل کرنے کے تم اہل ہو؟ سیاست دان:۔ بالکل نہیں میں نے چاہا اور یہ مجھے مل گیا۔
کیا آج پاکستان میں یہ ہی سب کچھ نہیں ہو رہا ہے؟ جنہیں جس جگہ موجود ہونا چاہیے تھا کیاوہ وہاں موجود ہیں یا جنہیں جس جگہ موجود نہیں ہونا چاہیے تھا وہ وہاں موجود ہیں؟ کوئی بھی ایک چیز بتا دیں جو ملک میں صحیح طریقے سے اپنا کام کر رہی ہو ملک اور اس کے اداروں کی حالت یہ ہو کر رہ گئی ہے کہ پوری دنیا دانتوں میں اپنی انگلیاں دبائے سارا منظر دیکھ رہی ہے، کیا ملک ایسے چلا کرتے ہیں؟ کیا ملکی ادارے اس طرح کام کرتے ہیں؟کیا ان اداروں میں بیٹھے لوگ اس طرح کے ہوتے ہیں؟ انتہائی معافی کے ساتھ ہم تیزی کے ساتھ کھائی کی طرف دوڑے جارہے ہیں وہ تو ہماری قسمت اچھی ہے کہ کھائی ہم سے دور تھی ورنہ ہم کبھی کے اس کے مہمان بن چکے ہوتے لیکن اب کھائی ہمارے بالکل سامنے ہے اب بھی اگر ہم نے عقل اور ہوش سے کام نہ لیا تو ہمیں کھائی کا مہمان بننے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔