نظریہ وژن اورسیاسی شکست و ریخت
ہمارے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس وقت اسی انتشار کا شکار نظر آتی ہیں۔
ادارہ کوئی بھی ہو، اس کی بنیاد مضبوط کرنے میں سخت محنت درکار ہوتی ہے اور اس سے بھی زیادہ اسے قائم رکھنے میں تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ادارہ کوئی سیاسی جماعت ہو تو پھر احتیاط لازم کا پیمانہ اور زیادہ کا تقاضا کرتا ہے کہ پورے ملک کے عوام کی نظریں، تجزیے اسے اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ اگر نیک نیتی، خلوص، دیانت کے ساتھ عوام کی خدمت کا جذبہ ہو تو وہ محسوس اور دکھائی ضرور دیتا ہے، لیکن اگر محض دکھاوا، بندربانٹ، ذاتی مفادات پیش نظر ہوں، تو تنزلی لازم ہے۔
ہمارے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس وقت اسی انتشار کا شکار نظر آتی ہیں۔ جب کوئی سیاسی پارٹی اپنے نظریے سے انحراف کرنے لگے تو زوال لازم ہوجاتا ہے، بدقسمتی سے ایم کیو ایم اس کا سب سے زیادہ شکار نظر آتی ہے۔
چند سال قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایم کیو ایم یوں بکھر جائے گی، اس کے کارکن اپنے ساتھی اور لیڈر الطاف حسین سے جان چھڑانے کی ہمت کرپائیں گے۔ لیکن یہ دنیا ہمیں نئے نئے تماشے دکھاتی ہے، کبھی کمزور کو طاقتور اور کبھی بڑے بڑے قدآور زمیں بوس کردیتی ہے اور پاکستانی سیاست میں ایسی کم مثالیں ہیں جہاں زمیندار، جرنلز، سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے کے علاوہ اقتدار میں آنے کے بارے میں ایک عام آدمی سوچ بھی نہ سکتا ہو، وہاں ایک متوسط گھرانے سے جامعہ کراچی میں زیر تعلیم طالب علم الطاف حسین نے مہاجروں کے مسائل حل کرنے کے لیے 11 جون 1978ء کو محدود پیمانے پر ایک چھوٹی سی لسانی تنظیم مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے قائم کی۔
سماج کی تمام سطحوں سے گلی محلوں سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والوں کو معاشرے کی محرومیوں کا ادراک ہوتا ہے، وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ اس تنظیم میں وسعت آتی گئی۔ اس جماعت کی عوام سے زیادہ قربت، ان کے مسائل کے حل میں زیادہ فعال ہونے پر اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ پورے سندھ بھر کی نمایندہ جماعت کے طور پر اس کا قیام عمل میں آیا، جس نے 8 اگست 1986ء کراچی کے نشتر پارک میں اپنا پہلا کامیاب جلسہ منعقد کرکے سیاسی اکابرین کو حیران کردیا۔ اس کے بعد تو گویا اس پارٹی کے لیے کامیابیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
1987ء میں پہلی مرتبہ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی، جس کے نتیجے میں کراچی اور حیدرآباد میں میئر اور ڈپٹی میئر کی سیٹیں حاصل کیں۔ 19 جون 1988ء کے عام انتخابا ت میں 14 قومی اسمبلی اور 27 صوبائی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کیں اور 26 جولائی 1997ء کو مہاجر قومی موومنٹ کی خدمات کو پورے ملک کی نمایندہ جماعت کی حیثیت سے متعارف کرانے کے لیے اس کا نام متحدہ قومی موومنٹ رکھا گیا۔ پاکستان میں سیاست قومیت کے گرد گھومتی ہے، جتنی بڑی مضبوط قوم ہوگی اتنی ہی بڑی جماعت ہوگی، جو سیاست میں اپنا کردار ادا کر پائے گی۔
2002ء میں متحدہ قومی موومنٹ نے 42 صوبائی اور 17 قومی اسمبلی میں حاصل کی اور ملک کی تیسری بڑی جماعت کہلائی۔ 18 فروری 2008ء کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی 55 اور قومی اسمبلی کی 25 نشستیں حاصل کیں۔ عشرت العباد نے اسی پارٹی کے زیر سایہ پاکستان کی سب سے طویل المیعاد گورنری کا اعزاز حاصل کیا، خود اس تنظیم کو بننے میں 35 سال لگے۔ مشرف دور حکومت میں کراچی کی نظامت سنبھالنے کے بعد پورے شہر میں انڈرپاسز، فلائی اوورز اور سڑکوں کا جال بچھا، اس کے زیر انتظام شہر میں کچرا اٹھانے کے انتظام سے لے کر واٹر سپلائی تک کے منصوبوں کو وسعت ملی۔ کراچی کے ساتھ ساتھ حیدرآباد میں ترقیاتی کام کیے۔
ایم کیو ایم ایک وژن ایک نظریہ لے کر سیاست کے میدان میں اتری تھی، جسے اس خارزار میں ہر بار ایک نئے دریا کا سامنا رہا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس نے اپنا وہ نظریہ خدمت بھلادیا۔ اس پارٹی پر بھتہ خوری، چائنا کٹنگ، اسلحے کا ناجائز استعمال اور قتل و غارت گری کے سنگین الزامات عائد ہیں۔ سونے پہ سہاگہ ایم کیو ایم کے قائد پر 92ء میں جو الزام لگایا گیا تھا اسی نظریہ اور سوچ کے ساتھ الطاف حسین نے 22 اگست 2016ء کو تقریر کی، جس سے تمام پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوئے، خود ان کے اپنے کارکن ان کے رویے سے نالاں نظر آئے۔ یوں پارٹی لیڈر پر پابندی لگنے کے بعد ایک ایک کرکے سب ہی ان کا ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں۔ اب لندن کے آفس میں وہ رونقیں نہیں رہیں جب اپنے لیڈر کے ابرو کے اشارے پر ساتھی حکم بجا لانے کو فرض سمجھتے تھے۔
آج کراچی میں ایم کیو ایم کا وہ رعب و دبدبہ کہیں نظر نہیں آتا جب ایک حکم پر پورا شہر بند ہوجایا کرتا تھا اور دوسری کال پر شہر کی رونقیں لوٹ آیا کرتی تھیں۔ ٹی وی چینلز قائد کی تقریر دکھانے کے لیے چار چار گھنٹے دیگر نشریات منسوخ کرتے تھے۔ نائن زیرو پر اب ویرانی چھائی ہوئی ہے، یہ وہی گھر تھا جہاں حکومتوں کے ٹوٹنے اور بننے کے فیصلے ہوا کرتے تھے، دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما نائن زیرو دوستی کا پیغام لے کر آتے تھے، اپنا اقتدار بچانے کے لیے ایم کیو ایم کو اپنا دوست و پارٹنر بنانے کی سعی کرتے، لیکن آج خود الطاف حسین کے اپنے ساتھی کارکن اور ایم کیو ایم کے بڑے لیڈرز ان کا ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں۔
واسع جلیل، طارق جاوید، انبساط ملک اور دیگر کارکنوں کی ایک طویل فہرست ہے جو ان سے قطع تعلق کرچکے یا پھر ان کے قریبی ساتھیوں نے ایک الگ جماعت بنالی۔ آفاق احمد نے نوے کی دہائی میں پہلے ہی ایم کیو ایم حقیقی بنالی تھی مگر اب مہاجر ووٹ بینک کے مزید حصے بخرے ہوجائیں گے کہ مصطفیٰ کمال نے پاک سرزمین پارٹی قائم کرلی ہے، جس میں ان کے ساتھ انیس قائم خانی اور ایم کیو ایم کے دیگر پرانے ساتھی شامل ہوتے جارہے ہیں۔ چند دن قبل ڈپٹی میئر ارشد وہرہ نے بھی ایم کیو ایم پاکستان چھوڑ کر مصطفیٰ کمال کی پارٹی جوائن کرلی۔
فاروق ستار نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اظہار کرکے علیحدہ جماعت ایم کیو ایم پاکستان بنالی۔ ندیم نصرت جیسے دیرینہ ساتھی بھی الطاف حسین کا ساتھ چھوڑ کر جاچکے۔ جس شاندار انداز سے یہ پارٹی مقبول ہوئی، اس کا زوال اس قدر عبرتناک ہوا ہے۔ بے شک کسی ادارے یا جماعت کو بنانے سے زیادہ قائم رکھنے میں جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ سیاست داں آتے جاتے رہیں گے، ان کی پروا مت کیجیے! بلکہ اصولوںکی اہمیت ہے اور مستقل ادارہ تو عوام ہیں۔