استعماریت اور پاکستان آخری حصہ
موجودہ مادی طور ترقی کا تمام تر انحصار انھی کی مصنوعات کی مرہون منت ہیں۔
ناگزیر نکات: قبل از تاریخ میں سے تین اہم 1۔ ترکی کے شمالی برفانی پہاڑی سلسلے میںسطح سمندر سے تیرہ سو فٹ بلندی رکھنے والے کوہ جودی پر ملا سفینہ نوح ؑ2۔ ارض حجاز پر قوم ثمودکے پہاڑ نماء گھر اور 3۔ طبث کے Pyramid حضرت انسان کی عظمتوں کی مادی نشانیوں کے طورگنوائے جا سکتے ہیں۔
جن میں سے Pyramid اور ان کے خالقین کی سی سوچ نے اسی مادی نظام تمدن وانتظام معاشرت کو جدیدیت وترقی پسندی کے لبادے میں اقوام عالم پر رائج کرنے کا ٹھیکہ لیا ہواہے۔ جس کی سب سے بڑی علامت کے طور امریکی ڈالرکی پیشانی پر اکلوتی آنکھ کو اپنے اندر سجائے رکھنے والا Pyramidکا نشان اورعالمی اداروں سمیت اقوام عالم پر قائم امریکی تھانہ داری کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جب کہ ان کے مدمقابل سفینہ نوح ؑ میں سوار ہونے والوں، ان پہاڑی گھروں کے خالقین سے اپنی لاتعلقی ظاہرکرنے والوں اور ان Pyramidکی بنیادوں پر مشتمل مادی تہذیب کاخاتمہ کرنے والوں کی سی سوچ اور نظریے کی وارثی کے اعلان کے طور پر پاکستان نے اپنے پاسپورٹ کی پیشانی پر عالمی استعماریت یعنی ڈالرکے سرخیل اسرائیل سے اپنی اسی لاتعلقی کا اعلان کندہ کیا ہوا ہے۔
چونکہ ان Pyramidکی تہذیب کو نیست ونابود کرنے کا عمل معلوم تاریخ کے روشن ترین مرحلے پر اولاد ابراہیم ؑکے ہاتھوں سر انجام پایا تھا اورکیا حیرت انگیزاور دعوت فکر دیتا پہلو اپنی تمام تر سچائی کے ساتھ عالم انسانیت سے متعلق ہر ایک گروہ (اقوام عالم)کے سامنے آشکار ہوچکا ہے کہ آج نسبی طور اولاد ابراہیم ؑہی ایک بار پھران Pyramidکے نظام تمدن اور انتظام معاشرت کو دنیا پر رائج کرنے میں سرگرداں ہے۔ اسی قدیم فرعونیت کی ارتقاء کو جدید اصطلاح میں استعماریت کے نام سے جانا جانے لگا ہے۔
تحقیقات نظریہ پاکستان کے مطابق یہ اصطلاح صرف یہودی النسل انسانی گروہ یا پھر اسرائیل کے باشندوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس ضمن میں یورپ وامریکا سمیت لگ بھگ تمام ترمادی طور ترقی یافتہ ممالک ،ان کی مادی ترقی کے خوگر انسانی گروہوں، ان کی سوچ اور ان کے انداز حیات کو اپنانے والوں پر لاگو ہوتی ہے۔جس کے عملی اظہار میں اقوام عالم کی صف میں وہ اس وقت مکمل طور پر یہودی قومی تشخص رکھنے والے انسانوں کے متعارف کردہ مادی نظریات اور ان کے دم قدم سے تخلیق شدہ عالمی اداروں کے مقروض و دست نگر بن چکے ہیں،کیونکہ موجودہ مادی طور ترقی کا تمام تر انحصار انھی کی مصنوعات کی مرہون منت ہیں۔
آج کسی ریاست یا قوم کو یہ جرات نہیں کہ ان کے تخلیق کردہ عالمی اداروں کی سفارشات کی روشنی میں مرتب کردہ مادی نظریات کے آگے صدائے احتجاج بلند کر سکے۔ آج ممالک عالم ان کے عالمی اداروں سے بھاری شرح سود پر قرضے لے کر ان کے نظریات کے اطلاق کی حامی بھرنے کے علاوہ کوئی راہ اختیار نہیں کر سکتے۔ یہ بالکل ایسی ہی صورتحال ہے جس کو یورپ و امریکا جھیل چکے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ان کے سامنے مکمل طور سرنگوں ہیں لیکن موجودہ معروضی حالات میں کرہ ارض کے وسیع ترین کینوس پر فارس سے مصر اور چائنہ تک ہندوستان کو بھی اپنے گھیرے میں لیے تکون پر مشتمل مشرقی ممالک میں مکمل طور پران کی اجارہ داری قائم کرنے کا سلسلہ اپنی پوری شدت اور سختی کے ساتھ متحرک نظر آنے لگا ہے جس کو سمجھنے کے لیے اس تکون پر مشتمل مشرقی ممالک میں ان کی مصنوعات کی فروخت اور ان کے مادی نظریات کے عملی وکلی اطلاقی نکات کو سمجھنا ناگزیر تصور کیا جانے لگا ہے۔
مصروف جہد، وارث ابراہیم ؑ: اولاد ابراہیم ؑسے متعلق 25صدیوں پر مشتمل مادی تاریخ سمیت اقوام عالم کے ارتقائی مراحل میں ظاہر ہونے والے یکساں نتائج کے ٹھوس شواہدکی بنیاد پر تعلیمات و تحقیقات ابراہیم ؑکی ارض حجاز پر کاملیت کے بعد ان تحقیقات کے عالمگیر ارتقائی مرحلے کاآغاز ہوتا ہوادکھائی دیاجاتا ہے کہ جس میں لاینال عہدالظالمین کے اظہار کی صورت ایک طر ف یورپ سے صلیبی مجاہدین تو دوسری طرف چائنہ سے منگول حملہ آوروں نے جناب ابراہیم ؑکی فکری اولاد (امت مسلمہ) کا بلکل اسی طرح محاصرہ کیا ہوا تھا کہ جس طرح ارض فسلطین کو آسپاس کی مادی تہذیبوں کی جارحیت نے اپنے گھیر ے میں لیا ہواتھا۔
ملاحظہ ہو کہ صلیبیوں کی بے وجہ جارحیت کی صدیوں میںمسلمانوں کے خلیفہ معتصم باللہ نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منگول خاقان چنگیز خان کے سفیروں کی تذلیل کر ڈالی، جو کہ امت مسلمہ کی تعلیمات وتحقیقات ابراہیم ؑسے دوری کو بیان کر جانے کے لیے بہت بڑا تاریخی ثبوت ہے، گوکہ سلطان نورالدین زنگی ؒ جیسی مبارک ہستیوں نے معجزات بنی اسرائیل کے تسلسل کی ثابتی وارثی ابراہیم ؑکے علم کو سربلند کیے رکھنے کی ناقابل تردیدمثالیں قائم کیں۔ جس سے اس وارثی کو عالم انسانیت سے متعلق تمام گروہوں کے لیے یکساں طور مہر ومحبت اور قدر ومنزلت حاصل کرنے کا معیار واضح ہوا چاہتا ہے۔
صلیبیوں کا سیلاب قسطنطنیہ میں تھما۔لیکن منگول تشخص رکھنے والے انسانوں کا ریلا چائنہ تک اوروسط ایشیائی ریاستوں کے خوارزم شاہ کی بادشاہت کو ختم کرتے ہوئے قدیم ارض بابل اور قدیم تہذیب ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بعد میں قدیم تہذیب ہندوستان سے اپنی لاتعلقی کے اظہار میں جناب ابراہیم ؑکی فکری اولادوں نے جو ہجرت فرمائی اس کے نتیجے میںمنگولیا سے چائنہ، وسط ایشیائی ریاستوں سے افغانستان اور ہندوستان اور پھر ہندوستان سے پاکستان (کراچی) تک انگریزی کے لفظ S کی شکل کا نشان بنتا ہوا نظر آنے لگتا ہے۔
تاریخ کے طالب علم کے لیے انگشت بہ زنداں ہو جانے کا مقام ہے کہ موجودہ معروضی حالات میں C.P.E.C کے منصوبے کی تکمیل کی صورت جو ایک لکیرکاشغر سے گوادر تک کھچی چلی آ رہی ہے اس کے نتیجے میں اس خطے کے انسانی گروہوں کی تاریخی نقل وحرکت کے نتیجے میں کرہ ارض پر اسی S کو معاشی برتری کی علامت $ میں ڈھلتا ہوا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔کیا یہ کھلی نشانی نہیں کہ ایک طرف تکون کی شکل کا مدفن اور دوسری طرف جغرافیائی وقدرتی وسائل کی بہتات کے باعث معاشی فراوانی کا برملہ اعلان کرہ ارض پر جناب ابراہیم ؑکے پروردگار کی قوت وجبروت کو ثابت کرنے کا بہت سارا سامان سجائے ہوئے نظر آنے لگا ہے۔ جس میں وارث ابراہیم ؑکی سَند صرف اور صرف ریاست پاکستان کے سر سجائے ہوئے ملتی ہے ،گوکہ اس میں مادی ترقی نے بہت بڑا کچرا دان بنایا ہواہے۔ جس کی صفائی میں ریاست پاکستان ہمہ وقت مصروف جہد اوردن بدن کامیاب ہوتی بھی دکھائی دی جانے لگی ہے؟