پیغام محبت

شاعری میں عاشقانہ تصوف کا دھارا ہے جو شیلے اور براؤننگ کے عاشقانہ تصوف سے مانوس ہے


Shabnam Gul November 09, 2017
[email protected]

شاعری، ادب کی ایسی صنف ہے جو کائنات کے رازوں سے، مستقل پردہ اٹھانے میں مگن رہی ہے۔ انسان باہرکی دنیا کے توسط سے جو بھی مشاہدہ کرتا ہے، جب تک اسے من کی آنکھ سے محسوس نہیں کرتا اس کی دریافت ادھوری رہ جاتی ہے۔ کنفیوشس، کبیر، ٹیگور، ولیم بلیک، ولیم وڈز ورتھ، سچل سرمست، سامی اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی وجود اور زندگی کے حوالے سے کی گئی دریافت، من کے عرفان کا عکس ہے۔ سوچ اور احساس کی ہم آہنگی سے تصوراتی ترتیب، کامل تخلیق کا روپ اختیار کرلیتی ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کی تصوراتی اڑان دنیا کے ہر شاعر سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ شاہ کے منفرد محقق ایچ ٹی سورلے، شاہ کو مغربی شاعروں سے منفرد قرار دیتا ہے۔ سورلے کی نظر میں شاہ کی شاعری کا حاوی تاثر مذہبی تصوف ہے۔ اسے مکمل عاشقانہ تصور میں شمارکیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مفکرانہ تصوف قرار دیا جاسکتا ہے۔ رسالوکی نظموں میں گوکہ صوفیانہ عشق کی فضا ہی چھائی ہوئی نظر آتی ہے مگر ان کے تانے بانے میں مذہب کی گہرائی موجود ہے۔ سورلے کا کہنا ہے کہ ''انگریزی شاعری کی مثالوں کا مقصد یہ بتانا ہے کہ رسالوکا پیغام کس حد تک خاص قسم کے صوفی انگریزی شاعروں کے پیغام سے مماثلت رکھتا ہے یا نہیں۔ شاہ کی شاعری میں عاشقانہ تصوف کا دھارا ہے جو شیلے اور براؤننگ کے عاشقانہ تصوف سے مانوس ہے۔ بلیک کی جنگلی مذہبی توانائی کا کچھ رنگ بھی نظر آتا ہے اور واٹس اور کراشا کا سادہ انسانی آدرش بھی ملتا ہے۔

اصل میں اسلام و عیسائیت دونوں ہی مذاہب میں تصوف بہت زیادہ پیچیدہ اور مبہم فلسفہ ہے اور مختلف مرحلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر مشترک ہے کہ دونوں میں ان اثرات ومحرکات کو دریافت کیا جاسکتا ہے جنکی تال میل سے یہ فلسفہ تیار ہوا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ انگریز اور جرمن فلسفیوں نے شاہ لطیف کو دنیا کے سامنے متعارف کروایا۔ جن میں ارنیسٹ ٹرمپ سرفہرست ہیں۔ ٹرمپ، 1866ء میں شاہ جو رسالوکو منظر عام پر لے آئے۔ اس کے علاوہ سندھی گرامر پر کتاب لکھی۔ علاوہ ازیں این میری شمل کے اسلام اور صوفی ازم کے حوالے سے کی گئی خدمات قابل تحسین ہیں۔ آپ نے مولانا رومی اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے فن وفکر پر کئی تحقیقی مقالے لکھے۔ایلسا قاضی بھی جرمن فلسفی اور مفکر ہیں، جنھوں نے شاہ کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ بنیادی مرکزی خیال کے قریب تر ہے اور بے حد خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مولانا رومی کو انگریزی کے بہترین مترجم ملے۔ جن کی وجہ سے رومی آج یورپ میں بے حد مقبول صوفی شاعر ہیں۔ شاہ لطیف مثنوی مولانا رومی اور قرآن مجید ہر وقت ساتھ رکھتے۔ آپ رومی کے حسن نظر، وارفتگی اور سچائی کے معترف تھے۔

سچی بات کہے ہے' رومی پیر ہمارا

حسن اک ایسا بھید ہے جس کا طالب ہے جگ سارا

جس نے بھید یہ پایا' وہ خود ہی بھید بنا ہے

(شاہ)

شاہ لطیف اور رومی کی شاعری کا بنیادی خیال قریب تر ہوتے ہوئے بھی اظہار کے راستے منفرد و مختلف ہیں۔ رومی طبعی زندگی سے بلند و بالا مقام پر کھڑے ہوکے زندگی کا نظارہ کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ کیف و سرور، وجد، بے خودی و سرمستی میں رومی طبعی زندگی کے تمام تر ذائقوں سے آشنا نظر آتے ہیں۔ اظہار کے یہ راستے روح میں جسم کی موجودگی کا سراغ لگاتے ہیں، جب کہ شاہ لطیف جسم کے دروازے سے گزرکر روحانی منزلوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی کا مشاہدہ جس کمال کی حد تک شاہ لطیف کے شعر میں ملتا ہے وہ جھلک شاید ہی کسی اور شاعر کے تخیل سے نظر آتی ہو۔ پھولوں، درختوں، پرندوں و جانوروں کا ذکر ان کی خصوصیات سمیت مہارت سے کیا گیا ہے اور انسانی زندگی سے ان کی وابستگی کو تمثیل واستعارات کے ذریعے خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔

گلے سنگ وہ کھائے' ڈالی خوشبو دار

ریت پہ نقش نہ چھوڑے' ایسی ہے رفتار

دل میں دیار یار' یوں وہ اوروں جیسا

(شاہ)

شاہ لطیف ان صوفیوں کی طرح نہیں تھے جو دنیا تیاگ دیتے ہیں ۔ ان کا رابطہ وقت کے ہر لمحے سے فعال تھا۔ روزمرہ کی زندگی کا مشاہدہ کمال کا تھا۔ کائنات کے حسن کو دیکھ کر خالق کائنات تک رسائی کا سفر، مشاہدے کے حیران کن نتائج سے مزین تھا۔

خود ہی جل جلالہ' خود ہی جانِ جمال

خود ہی صورت یار کی' خود ہی حسن کمال

(شاہ)

کائنات کے اسرار خودبخود صوفی کے من میں منکشف ہوتے ہیں حالانکہ سائنس مستقل اس راز کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ ماہر ریاض داں اور ماہر فلکیات بیٹر ڈبلیو اسٹونر لکھتے ہیں ''سائنس کے انکشافات سے ہزاروں سال پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تاریک بادلوں کا کیونکر اندازہ ہوا؟ انھوں نے کیسے جانا کہ زمین ایسے بادلوں سے تشکیل پائی ہے۔ بادلوں سے نظام شمسی کیسے عمل وجود میں آیا اور بہت بڑے حصے سے مل کر سورج کیسے وجود میں آیا ۔ زمین اس قدر چھوٹی ہے کہ کبھی بھی ستارہ نہ بن سکے گی کیونکہ یہ سورج کا 1/333000 حصہ ہے۔ سب سے چھوٹا ستارہ بھی سورج سے 1/100 سے زیادہ بڑا ہے۔'' یہی وجہ ہے کہ شاہ لطیف کی شاعری وحدت سے کثرت اورکثرت سے وحدت کا حسین امتزاج ہے۔

سائنس بتاتی ہے انسانی خلیے کا مرکز، زندگی کا مرکز ہے جسکی بنیاد امائینو ایسڈ سے ہوئی۔ ڈی این ای امائینو ایسڈ سے بنا ہوا ہے۔ جو کروموسومز کو تشکیل دیتا ہے امائینو ایسڈ لحمیات کی اکائی ہے۔ زمین پر خلیے کا ظہور امائینو ایسڈ کی وجہ سے ممکن ہوا جس نے مل کر مرکز بنایا۔ Nucleus (مرکز) سے خلیے کو وجود ملا۔ ایک نظریے کی رو سے پانی اور امائینو ایسڈ زمین پر دم دار تارے کے توسط سے پہنچے۔ زمین پر گرنیوالے اسٹارڈسٹ میں امائینو ایسڈ کے آثار ملے ہیں۔''بقول کیمیائی ماہر کے کہ ''ایک مقرر کردہ سانچا ہے جو ہر جگہ استعمال ہو رہا ہے۔ کسی دن یہ بھی معلوم کر کے رہیں گے کہ یہ قوت کس طرح ایک جگہ جمع کی گئی ہے جس سے مادے کے ڈھیر تیار کیے جاتے ہیں۔''یہ حقیقت ہے کہ ایک منظم قوت اس کائنات میں سفر کر رہی ہے جس نے ہر چیز کو اپنے مرکز میں پابند بنا رکھا ہے۔ اشیا کے مابین معیار اور مقدار کی کمی بیشی یا توازن سے تشریح کا زاویہ بدل جاتا ہے۔

یہ منظم قوت انسان کے اندر ذہن کی صورت موجود ہے۔ ذہن جو قدرت کی کرشماتی تخلیق ہے لیکن اسے انتشار سے مرکزیت کی طرف لانا پڑتا ہے اور یہ مرکز انسانی شعور ہے۔ لاشعور، روحانیت کا مرکز ہے۔ لاشعور میں لامحدودیت، دیوانگی کا سبب بنتی ہے لہٰذا شعور سے رابطہ لمحہ موجود کا ادراک عطا کرتا ہے۔گزشتہ دنوں شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا 274 واں عرس منایا گیا جس میں ہر سال ادبی نشست، مشاعرہ اور محفل موسیقی منعقد کیے جاتے ہیں اور ہر بار اس امر کو دہرایا جاتا ہے کہ شاہ لطیف کے پیغام محبت کو سمجھنے اور عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔