بلوچستان پاکستان کا انگ
بلوچستان میں ان دنوں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے
تیس اکتوبرکو سیکیورٹی فورسز نے چمن بارڈرکراس کرکے آنے والی چار خواتین اور تین بچوں کو حراست میں لے لیا جن کی شناخت بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذرکی اہلیہ اور بی ایل اے کے ہلاک شدہ کمانڈر اسلم عرف اچھوکی بہن اور سرمچار دلگت کی بہن کے نام سے ہوئی، یہ تمام خواتین افغانستان سے بیرون ملک فرار ہونا چاہتی تھیں، جنھیں وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری نے باعزت طور پر ان کے اہل خانہ کے حوالے کردیا۔ اخبارات میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ڈاکٹر اللہ نذرکی اہلیہ کو بلوچی رسم کے مطابق چادر پہنانے کی تصاویر اور تفصیلات چھپیں۔
بلوچستان میں ان دنوں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس کے پیچھے کون سے عوامل سرگرم ہیں یہ اب ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں لیکن جس بے ڈھب انداز سے ایک مصنوعی تحریک کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے مستقبل میں کیا مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس سے بحث کرنا فضول ہے لیکن اس دوران جن معصوم جانوں کا ضیاع ہوا ہے اس کا ذمے دار کون ہے، یاد رہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بلوچستان میں نواب ثنا اللہ زہری کے صاحبزادے، بھائی اور بھتیجے ایک بم دھماکے کی دہشت گردی کی واردات میں اپنی جان سے گزر گئے تھے۔
سولہ اپریل 2013 کا وہ دن نواب زہری کے اس معزز خاندان کے لیے نہایت اذیت ناک تھا جب خود نواب ثنا اللہ زہری بھی بال بال بچے تھے اور چالیس افراد بھی شدید زخمی ہوئے تھے اس ہولناک خونی کارروائی میں بی ایل اے کے کمانڈر اسلم عرف اچھوکا ہاتھ تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ فروری سے لے کر اب تک گیارہ ہزار افراد کو افغانستان سے بلوچستان غیر قانونی طور پر بارڈرکراس کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
ایک جانب بی ایل ایف اپنی خواتین کو غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کراتے ہیں تاکہ پاکستانی بارڈر پر انھیں گرفتار کرکے ان کی خواہشات کے مطابق ان سے ایسا سلوک کرے کہ وہ دنیا بھر میں پاکستانی سیکیورٹی کے اداروں اور حکومت کے ناروا سلوک کا رونا رو کر اپنے تئیں علیحدگی کے نعرے کو درست ثابت کرسکیں اور دوسری جانب لندن میں شاہراہوں اور ٹیکسی مہم کے ذریعے اس آئیڈیے کی پروموشن کرسکیں۔ بالکل ایسے جیسے ایک کمزور برانڈ کو متعارف کرانے کے لیے سرمایہ کار بھرپور کاروباری انداز میں اشتہاری مہموں کے ذریعے کام چلاتا ہے لیکن برانڈ کمزور ہونے کے باعث اپنی بھرپور اشتہاری اور مہنگی مہمیں ٹھپ کردیتا ہے اور سرمایہ کار کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔
ایک عام سے تجزیہ نگار کی نظر سے اس پورے معاملے کو دیکھیے تو اس مہم میں بے انتہا خامیوں کے ساتھ لالچ، حرص اور حسد کے جذبات نظر آتے ہیں لیکن جس رواداری کا مظاہرہ نواب ثنا اللہ زہری کی جانب سے کیا گیا اگر یہ بھی کہا جائے کہ انھیں اعلیٰ حکومتی سطح سے احکامات تھے لیکن ان کے چہرے اور باڈی لینگویج سے ان کے اندر کی سچائی عیاں ہو رہی تھی اور پھر جس خوبصورت زبان میں انھوں نے اپنے دل کا متن بیان کیا اس پر انھیں سلیوٹ کرنا چاہیے۔
اسلام میں جنگ کے لیے بچوں اور خواتین کے ساتھ حسن سلوک کو روا رکھنے کوکہا گیا ہے انھوں نے اسی انداز میں عزت و احترام سے اپنے علاقائی رسم و رواج کے مطابق عزت سے چادر اوڑھا کر یہ ثابت کردیا کہ دلوں میں ابھی بھی وسعت ہے۔ حالانکہ اس پروگرام کے تحت لندن میں سیاسی دھماکے کی تیاریاں تھیں پر اب کیا ہوسکتا ہے کہ جیسے کو تیسا نہ ہوسکا۔
کچھ عرصہ پہلے بھی جنیوا میں دنیائے عالم کے سامنے ایک مخصوص ٹولے نے مظلومیت کی کہانی بنانے کی خاطر اسی طرح کچھ پوسٹرز نصب تو کیے تھے اور اب لندن کی سڑکوں اورکچھ ٹیکسیوں پر بلوچستان کی آزادی کے نعرے کیا ثابت کرتے ہیں، بالکل ہم بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان کو آزاد کروائیے دوغلے اور مفاد پرست حاسد لوگوں کے سائے سے جنھیں صرف اپنے مقاصد سے غرض ہے جو صرف اپنی مارکیٹ ویلیو اور کرسی کو اونچا مقام دلانا چاہتے ہیں۔ خدا ہمارے پیارے بلوچستان کی حفاظت کرے۔
اب آتے ہیں اس جانب کہ جو ''کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور بلوچستان تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا''جیسی منطق کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔ بھارتی ایجنسی ''را'' ان معاملات میں آگے ہے، ان کے خیال میں کشمیر میں بڑھتے مظالم بھارتی افواج کی نفسیاتی طور پر تنزلی اور اندرونی مسائل سے اب کشمیر کے آزاد خدوخال واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں کہ اب بیرونی دنیا بھی ان مظالم کے خلاف بولنے لگی ہے، یہ متحدہ کوشش کب رنگ لاتی ہے لیکن اس کا آغاز ہوچکا ہے۔
ایک جانب کشمیر کی آزادی اور دوسری جانب اندرونی طور پر سکھوں کے لیے خالصتان کے لیے جدوجہد کے ساتھ ہماچل اور آسام میں علیحدگی پسند گروپس کی مزاحمت بھارت کے لیے زمینی طور پر دباؤ بڑھا رہی ہے اس پریشر کو کم کرنے کے لیے وہ ایک بار پھر سے بلوچستان کے ان چند ناراض اور بپھرے ہوئے لوگوں کو پاکستان کے خلاف اور بلوچستان کے لیے علیحدگی کے نعرے لگوانے پر مجبور ہے۔ اس عمل کے لیے وہ بھرپور انداز میں سرگرم ہیں اور اپنے ذرایع کو استعمال کر رہے ہیں پاکستان میں انھیں ان مذموم کارروائیوں کے لیے کوئی شیلٹر دستیاب نہیں ہے اسی لیے مسائل میں الجھا افغانستان ان کے لیے محفوظ مقام ثابت ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بی ایل ایف اور بی ایل اے کے لیے پیسے تقسیم کرتی تھیں ان کے اس اعتراف کے بعد اس بحث میں الجھنا کہ یہ پیسے انھیں کون دیتا تھا کہاں سے آتے تھے اور کن ذرایع سے گزر کر پہنچتے تھے اور کون اور کس قسم کے لوگوں میں یہ پیسے تقسیم کیے جاتے تھے فضول ہے۔ لیکن 2005 میں اکتیس دسمبر کو ڈیلی ٹائمز کی ایک خبر کہ ''را'' نے بلوچستان میں دہشت گردی کے چالیس کیمپ قائم کر رکھے ہیں جہاں پر دہشت گرد کو دس ہزار ماہانہ رقم ادا کی جا رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقاصد وہی ہیں جو دس بارہ برس پہلے تھے۔
کون کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا لیکن جذبوں کی صداقت بھی اسی وقت اپنا اثر دکھاتی ہے جب ان میں اصول و عدل کے ساتھ وہ تمام عوامل کارفرما ہوں جنھیں رب العزت نے ہم پر اسلام کی صورت میں لاگو کیا ہے۔ انھیں محبت سے اپنائیے تو خوبصورتی ہے اور منافقت سے اپنا بنانے کی کوشش کریں تو بدصورتی ہے جہنم جیسی اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی جہاں ہم سب کو ایک نہ ایک دن جانا ہی ہے کیونکہ
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ