یہ اکتوبر کی ایک خوش گوار صبح تھی، ہم بمعہ فوٹو گرافر ایک بحری جہاز پر موجود تھے۔
سمندر کی پُرسکون لہروں پر ہچکولے کھاتے جہاز کے عرشے سے تاحد نگاہ پانی ہی پانی نظر آرہا تھا یا اطراف میں اپنی منزل کی جانب گام زن دوسرے جہاز، جہاز سے کچھ ہی فاصلے پر ایک ہیلی کاپٹر بھی ہوا کے دوش پر سوار تھا۔ مگر خوشی کے یہ لمحے دیکھتے ہی دیکھتے غارت ہونے لگے، سمندر آہستہ آہستہ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوکر سرکشی پر آمادہ ہورہا تھا، ٹھیک اسی لمحے موسم بھی سمندر کی سرکشی کو دیکھتے ہوئے بگڑنے لگا۔ ہلکی پھلکی پھوار نے موٹی موٹی بوندوں کی شکل اختیار کرلی، جہاز کے عرشے پر چند لمحے بھی کھڑا ہونا محال ہوتا جا رہا تھا۔
موجوں کے شور اور بارش کی بوندوں سے آہنی عرشے پر ہونے والی ٹپ ٹپ کی آواز نے دل دہلا نا شروع کردیا تھا۔ کچھ دیر بعد ہی آسمان پر کالی گھٹا چھا گئی، اطراف میں موجود جہاز غضب ناک لہروں پر کسی تنکے کی مانند کبھی نظروں سے اوجھل اور کبھی سامنے آرہے تھے۔
سر پر منڈلاتا ہیلی کاپٹر بھی موسم کی سرکشی کو دیکھتے ہوئے کہیں دور جا چکا تھا۔ سمندر کی یہ غضب ناکی دیکھ کر ہمارا دل کسی پتے کی مانند کانپ رہا تھا، خشکی پر رہنے والوں کے لیے یہ موسم جتنا خطرناک تھا، سمندر پر حکم رانی کرنے والوں کے لیے یہ اتنی ہی معمولی بات تھی۔ ڈھرکتے دل کے ساتھ جہاز کے انجن روم کا رُخ کیا، لیکن انجن روم پر موجود کیڈٹس جہاز کو اسی سکون سے چلا رہے تھے جس طرح ہم خشکی پر کار، موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ انجن روم میں لگی ٹی وی اسکرین پر دکھائی دینے والی سمندر کی غضب ناکی سے گھبرا کر ہم نے باہر نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ کمرے سے باہر نکلتے ہی سب کچھ اسکرین کی طرح غائب ہوگیا، نہ بارش کی آواز نہ سمندر کا تلاطم۔ ایک دروازے کے فرق نے ہمیں سمندری طوفان سے بچا کر خشکی پر پہنچا دیا تھا۔ اب ہم دوبارہ پاکستان میرین اکیڈمی کے ایک کمرے میں موجود تھے۔
اکیڈمی میں حال ہی میں نصب کیے گئے فُل مشن برج سیمولیٹر اور انجن روم سیمولیٹر کی بدولت ہی ہمیں سمندری طوفان کا حقیقت سے قریب تر مشاہدہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ سہہ جہتی (تھری ڈی) ٹیکنالوجی سے مزین چھے کروڑ روپے مالیت کے ان جدید ترین سیمولیٹرز کو پاکستان میرین اکیڈمی نے اپنے وسائل سے نصب کیا ہے۔ اس بابت اکیڈمی کے کمانڈینٹ کموڈور اکبر نقی کا کہنا ہے کہ حال ہی میں نصب کیے گئے اس سیمولیٹرز کی بدولت اب ہم اپنے کیڈٹس کو انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے معیار کے مطابق عملی تربیت فراہم کرنے کے اہل ہوئے ہیں۔
ان سیمولیٹرز پر جہاز رانی کی صنعت میں ہونے والی تمام مشقوں کی ممکنہ حد تک عملی مشق کرائی جاسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سیمولیٹرز میں سیکڑوں اقسام کی مشقیں فیڈ کی جاسکتی ہیں۔ ان سیمولیٹرز پر ہم کیڈٹس کو ممکنہ حد تک حقیقت سے قریب تر مشقیں کراتے ہیں کہ سمندری طوفان کی صورت میں کس طرح اپنے جہاز کو بھی بچانا ہے اور دوسرے جہاز کو بھی، ایمرجینسی کی صورت میں ہیلی کاپٹرز سے کس طرح مدد لینی ہے۔ اب سے قبل کیڈٹس کو یہ سب باتیں کتابوں کی حد تک پڑھائی جاتی تھیں، لیکن وہ سمندر میں ان خطرات کو عملی طور پر دیکھ کر کسی حد تک خوف زدہ ہوجاتے تھے، کیوں کہ یہ سب کچھ ان کے لیے نیا ہوتا تھا، لیکن اب وہ سمندر اور خطرناک موسمی صورت حال کو دیکھ چکے ہوتے ہیں۔
انہیں پتا ہوتا ہے کہ اگر سمندر غضب ناک ہو تو اپنا کام کس طرح سر انجام دینا ہے۔ اس سے پہلے ہمارے کیڈٹس ان سیمولیٹرز پر تربیت کے لیے بیرون ملک جاتے تھے اور اس کے اخراجات برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ لیکن ان کی تنصیب کے بعد ہمارا قیمتی زرمبادلہ بھی بچ رہا ہے اور کیڈٹس کا قیمتی وقت بھی۔ انہوں نے کہا، کچھ دیر پہلے آپ فل مشن برج سیمولیٹر پر سنگاپور اسٹیٹ کے سمندر میں موجود تھے۔ آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے موسم بتدریج تبدیل ہوا اور کچھ دیر بعد ہی بارش شروع ہوگئی تھی۔ سمندر پر کام کرنے والوں کے لیے اس طرح کا موسم معمول کی بات ہے۔ ہمارے کیڈٹس ان سیمولیٹرز پر وہ تمام آلات استعمال کرتے ہیں جو حقیقی زندگی میں جہاز پر اس کام کے لیے مختص ہوتے ہیں۔
ہر جہاز راں کو حقیقی زندگی میں کبھی نہ کبھی سمندر کی غضب ناکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سیمولیٹرز کی بدولت آپ خود کو اس سمند کا حصہ سمجھتے ہیں۔ کنٹرول پینل کی مدد سے ہم سمندری طوفان کی شدت میں مزید اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ سمندری طوفان کی شدت کو اسٹیٹ لیولز میں تقسیم کیا گیا ہے ابھی آپ نے جس موسم کا مشاہدہ کیا ہے وہ سی اسٹیٹ لیول گیارہ ہے۔ جب سمندر میں موسم اس سطح پر ہو تو بہت تیز بارش کے ساتھ بلند سمندری لہریں جہاز کو کسی کھلونے کی طرح اچھالتی ہیں۔ ہمارے کیڈٹ حقیقت میں اس طرح کے سمندر کاسامنا ہونے پر گھبراتے نہیں ہیں، کیوں کہ اب انہیں اچھی طرح اس صورت حال کو ہینڈل کرنا آتا ہے۔
اکبر نقی کا کہنا ہے کہ ان سیمولیٹرز کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں دنیا کے اہم سمندری تجارتی راستے (مناظر) سیمولیٹ (فیڈ) کیے جاسکتے ہیں، ہم اس میں سنگاپور اسٹیٹ، ہانگ کانگ، جاپان، جرمنی کے البرٹ ٹوچینل، فرانس اور برطانیہ کا انگلش چینل فیڈ کر کے اپنے کیڈٹس کو ان سمندروں کے موسم کے لحاظ سے تربیت دے سکتے ہیں۔ اس میں دس مختلف قسم کے جہاز سیمولیٹ ہوسکتے ہیں، جس کے بعد ہم کیڈٹس کو آئل ٹینکر، کارگوشپ ، مسافر بردار جہاز، کنٹینر بردار جہازوں کا مکمل کنٹرول سکھاتے ہیں، جب کہ ٹارگیٹ شپ میں تو ہم سیکڑوں مختلف جہاز سیمولیٹ کر سکتے ہیں۔ اس سیمولیٹر پر کیڈٹ کو جہاز کے ٹکرانے کے بعد پیش آنے والی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
اس صورت میں جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہوکر سمندر میں ڈوب جاتا ہے اور ہمارے کیڈٹ اسے ڈوبنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس سیمولیٹرز پر ریسکیو کے لیے ایک الگ پروگرام فیڈ کیا گیا ہے جس کی مدد سے ہم ہیلی کاپٹرز، امدادی کشتیوں کو بھی سیمولیٹ کرتے ہیں۔ اس پروگرام میں یہ تربیت بھی دی جاتی ہے کہ اگر کوئی فرد جہاز سے سمندر میں گرگیا ہے تو اسے کیسے بچانا ہے، گہرے سمندر میں کسی شے کو کیسے تلاش کرنا ہے۔ یہ تمام تر چیزیں اس سیمولیٹر کے ریسکیو پروگرام میں شامل ہیں۔ اس سیمولیٹرز میں جہاز کو آٹو پائلٹ اور مینول چلانے کا آپشن بھی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے مرچنٹ نیوی کے کیڈٹس دنیا بھر کی مشہور ترین جہاز راں کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں، حال ہی میں ہمارے کیڈٹس کو چینی کمپنی نے گوادر بندرگارہ کے لیے بھرتی کیا ہے۔ بین الاقوامی معیار کی تربیت حاصل کرنے والے کیڈٹس کو چینی حکام سی پیک کا حصہ بنانے کے لیے بہت پُرعزم ہیں۔
کیڈٹس کی عملی تربیت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کچھ یوں کہنا تھا،''ہم اپنے کیڈٹس کو جہاز پر پیش آنے والے تمام تر خطرات سے نبزدآزما ہونے کی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اکیڈمی سے پاس آؤٹ کرنے کے لیے انہیں انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن (آئی ایم او) کی متعین کردہ تمام ایس او پیز (کام کرنے کا معیاری طریقہ کار) کو پاس کرنا لازمی ہے، ہم سی پیک کی وسعت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کیڈٹس کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
مرچنٹ نیوی کا حصہ بننے کے لیے دو طریقے ہیں، ایک ناٹیکل جس میں جہاز کے آپریشن کمانڈ اور کیپٹن شپ ہوتی ہے، دوسری سائیڈ انجینئرنگ کی ہے جس میں ہم کیڈٹ کو جہاز کے انجن اور اس سے متعلقہ کاموں کی تربیت دیتے ہیں۔ ہر ایک پروگرام دو سال پر محیط ہے لیکن اب ہم نے انہیں مکمل انجنیئر بنانے کے لیے ہائرایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور پاکستان انجنیئرنگ کونسل کے ساتھ مل کر ایک چار سالہ پروگرام بنایا ہے، جسے چار سے چھے ماہ میں لاگو کردیا جائے گا، جس کے بعد ہم خود سند دینے والا ادارہ بن جائیں گے۔ ہمارے آئی ایم او کے معیار کے مطابق بنے ہوئے نصاب کو پاکستان انجینئرنگ کونسل ( پی ای سی) نے پڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے بعد ہمارے نوجوانوں کے بعد دونوں آپشنز ہوں گے کہ یا تو وہ دو سال تعلیم کے بعد بحری جہاز پر ملازمت کرلیں یا مکمل انجینئر بننے کے بعد اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کریں۔''
مرچنٹ نیوی کیڈٹس کے لیے ملازمتوں کے مواقع کے بارے میں اکبر نقی کا کہنا ہے کہ ''ہم میرین اکیڈمی کو جہازرانی کی تربیت دینے والا بہترین ادارہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمارے یہاں عموماً یہ تصور پایا جاتا ہے کہ پاکستانیوں کے لیے باہر کے بحری جہازوں پر ملازمت حاصل کرنا کافی مشکل کام ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کیوں کہ دنیا کی ستر فی صد تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی ہے تو پھر ملازمتوں کیوں نہیں ہوں گی؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ غیرملکی کمپنیوں کے لیے ویزے کی ضروریات کو پورا کرنے میں کافی وقت لگتا ہے، پہلے یہ مراحل آسان تھے، اب اسے تھوڑا مشکل کردیا گیا ہے۔
لیکن کیڈٹس کے لیے ملازمتوں کے مواقع اب پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔'' وہ کہتے ہیں کہ گوادر پورٹ، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، پورٹ قاسم پر ہمارے کیڈٹ کام کر رہے ہیں اور ان کا مستقبل بہت تاب ناک ہے، گوادر بندرگاہ کے آپریشنل ہونے سے یقیناً کیڈٹس کے لیے ملازمت کے مواقع بڑھیں گے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مرچنٹ نیوی کا تعلق پاک بحریہ سے ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں، کیوں کہ یہ وزارت صنعت و پیداوار کے ماتحت ایک خودمختار ادارہ ہے۔ یہ وزارت کی مرضی ہے کہ یہاں کمانڈینٹ کے عہدے پر سویلین کو رکھے یا پاکستان بحریہ سے کوئی بندہ مانگ لے۔ اس سے پہلے میں گوادر میں تعینات تھا اور مجھے دو دن کے نوٹس پر یہاں تعینات کیا گیا۔ اس پہلے یہاں کی صورت حال بہت مخدوش تھی۔
یہاں کام کرنا میرے لیے ایک چیلینج تھا اور الحمد اللہ میں نے حکومتِ سندھ اور نجی اداروں کے تعاون سے اکیڈمی کی عمارت کو بہتر بنایا، جہاز رانی کی تعلیم کے بین الاقوامی معیار سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے جدید آلات منگوائے، تاکہ ہمارے کیڈٹس کو جدید جہازوں پر کام کرنے کا تجربہ ہو، کیوں کہ کتابوں میں پڑھنے اور عملی طور پر سمندر کا سامنا کرنے میں بہت فرق ہے ۔ ہم نے کراچی پورٹ ٹرسٹ سے بات کی، پی این سی سے بات کی اور اب ہفتے میں ایک دن ہمارے کیڈٹ ان اداروں میں جا کر ان کے جہازوں پر عملی تجربہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے محدود بجٹ کے باوجود فل مشن برج اور انجن روم سیمولیٹرز منگوا چکے ہیں جنہیں آپ نے ابھی خود دیکھا ہے جب کہ ECDIS, Radar, GMDSS اور ہائی وولٹیج سیمولیٹرز بھی جلد ہی اکیڈمی کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ ہم یہاں وزیراعظم یوتھ اسکیم کے ذریعے سالانہ پچاس بچوں کو بلا معاوضہ تعلیم دے رہے ہیں، بلوچستان کے نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے مختلف پروگرام بنا رہے ہیں۔
حال ہی میں ہم نے حکومت سندھ کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ہم سو ضرورت مند نوجوانوں کو تعلیم دیں گے، یہ ایک قومی ادارہ ہے، ہمارے دروازے سب کے لیے ہر وقت کُھلے ہیں۔ ہمارے پاس اپنے کیڈٹس کو تربیت دینے کے لیے چھے بوٹس کی ضرورت تھی تو ہم نے گورنر سندھ سے مدد مانگی اور ان کے تعاون کی بدولت ہم نے تین بوٹس خرید لی ہیں اور تین بھی جلد ہی خرید لیں گے۔ حکومت کی جانب سے اکیڈمی کے لیے بجٹ بہت کم ہے لیکن میں اسپانسر شپ کے لیے ہر بندے کے پاس گیا اور اب تک کسی نے مجھے مایوس نہیں کیا۔
ہم اپنے کیڈٹس کو دوسرے تعلیمی اداروں میں لے کر گئے دوسرے اداروں کے طلبا کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ شہر سے دور ہونے کے باوجود سرکاری اور نجی جامعات کے طلبا و طالبات ہماری اکیڈمی کا دورہ کررہے ہیں، یہاں ہونے والی مختلف نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔اور ہمیں امید ہے کہ ان جدید سیمولیٹرز پر تربیت حاصل کرنے والے نوجوان نہ صرف سی پیک بل کہ دنیا کی مختلف جہاز راں کمپنیوں میں جا کر بھی اکیڈمی اور پاکستان کا نام روشن کریں گے۔
پاکستان میرین اکیڈمی ایک مختصر تعارف
نوجوانوں کو بحری جہازوں پر ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے 1962میں مشرقی پاکستان کے شہر چٹاگانگ میں پاکستان میرین اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کولمبو پلان (جنوب ایشیائی خطے کے ممالک میں سماجی اور معاشی بہتری لانے کے لیے قائم کی گئی ایک علاقائی تنظیم) کے تحت قائم ہونے والی یہ اکیڈمی تین ستمبر 1962سے آپریشنل ہوئی۔ پاکستان میں مرچنٹ نیوی کے افسران کی تربیت کے لیے قائم ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ تھا۔ ابتدا میں پاک بحریہ کی جانب سے اس ادارے کا انتظام سنبھالا گیا جس کے افسران اور تیکنیکی ماہرین نے پہلے بیچ کے 41کیڈٹس کو ناٹیکل اور انجینئرنگ کے شعبوں میں تربیت دی۔
سانحہ مشرقی پاکستان تک اس اکیڈمی نے دنیا بھر میں موجود جہاز رانی کی صنعت کو بہترین افرادی قوت فراہم کی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد اس اکیڈمی کو عارضی طور پر حاجی کیمپ کراچی کے دو بلاکس میں قائم کردیا گیا۔ 1976میں اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ہاکس بے روڈ، ماری پور پر باقاعدہ طور پر پاکستان میرین اکیڈمی کا سنگ بنیاد رکھا۔ ابتدا میں کموڈور ایس ایم انور کو 136ایکڑ رقبے پر محیط اس ادارے کا کمانڈینٹ بنایا گیا۔ 1986میں جامعہ کراچی سے الحاق ہونے کے بعد یہ اکیڈمی سند تفویض کرنے والا ادارہ بن گیا اور پاس آؤٹ کرنے والے کیڈٹس کو میرین انجینئرنگ اور ناٹیکل سائنس میں بی ایس سی میری ٹائم اسٹڈیز کی ڈگری دی جانے لگی۔ اس وقت پاکستان میرین اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس دنیا کی بہترین جہاز راں کمپنیوں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تعارف
کمانڈینٹ پاکستان میرین اکیڈمی
پاک بحریہ کے کموڈور اکبر نقی اس وقت پاکستان میرین اکیڈمی کے کمانڈینٹ کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ انہیں اس ادارے کا چارج سنبھالے دو سال کا قلیل عرصہ ہوا ہے لیکن اپنی پیشہ ورانہ قابلیت اور ذاتی لگن کی بدولت انہوں نے پاکستان میرین اکیڈمی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔
انہوں نے نہ صرف اکیڈمی کی عمارت کی تزئین نو کی بلکہ نوجوانوں کو مرچنٹ نیوی کی طرف راغب کرنے کے لیے بہت سی غیر نصابی سرگرمیوں کا آغاز بھی کیا۔ بجٹ محدود ہونے کے باوجود انہوں نے حکومت سندھ، مخیر حضرات اور اپنے ذاتی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے فنڈز جمع کیے اور اس ادارے کو خطے کے دیگر جہاز رانی کی تربیت دینے والے اداروں کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکا سے انٹرنیشنل ڈیفنس مینجمنٹ کورس، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ، اسلام آباد کے آرمڈ فورسز وار کالج سے وار اسٹڈیز میں ایم ایس سی کرنے والے اکبر نقی اس اکیڈمی کو ایشیا کی بہترین میرین اکیڈمی بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔