شعلہ سی آواز بُجھ گئی

مظلوموں کی آواز تھا وہ اور کم زوروں کی طاقت تھا


Aihfazur Rehman March 07, 2013
ہیوگو چاویز امریکا کی مجنونانہ توسیع پسندی کو بے باکی سے چیلینج کرتا رہا۔ فوٹو: فائل

آج چاویز کے بارے میں نیٹ پر ''اچھے لوگ'' کے عنوان سے ایک نظم پڑھی، (اس نظم کا ترجمہ باکس کی صورت میں شاملِ اشاعت ہے) اس نظم میں شاعر نے بڑے پراثر الفاظ میں چاویزکو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

'' اب ہم قابلِ فہم غصے سے بھری اس کی وہ آواز نہیں سن سکیں گے، جس سے اپنے آپ پر اعتماد اور فتح کا یقین چھلکا پڑتا تھا۔'' چاویز کی شخصیت ایسی ہی تھی۔ سچائی جھکتی نہیں اور ڈرتی بھی نہیں۔ چاویز نے اس حقیقت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ ان کی موت نے پس ماندہ اور مظلوم اقوام کے لاکھوں بلکہ کروڑوں عوام کو سوگوار کیا ہے، اور یہ سوال اور شدت سے ابھر کر سامنے آیا ہے کہ ''اُٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پہ تیر کون!''

وینزویلا میں ہیوگو چاویز کا برسر اقتدار آنا کسی معجزے سے کم نہ تھا کیوں کہ سی آئی اے نے انھیں ہرانے کے لیے اپنے تمام وسائل دائو پر لگا دیے تھے۔ ان تمام سازشوں کے باوجود چاویز فتح مند ہوئے اور ان کی اقتصادی اصلاحات نے غربت زدہ وینزویلا کے لیے ترقی اور خوش حالی کے نئے در وا کردیے۔ اگرچہ چاویزکے گرد حصار تنگ ہوتا گیا، سی آئی اے اور اس کی پروردہ پڑوسی ریاستوں کی معاندانہ اور حریفانہ چالیں برقرار رہیں لیکن چاویز نے آخری دم تک پوری تن دہی اور استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔

ہیوگو چاویز نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی وائٹ ہائوس کو پیغام دے دیا تھا کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کی طرح اپنی لگام اس کے ہاتھ میں نہیں دیں گے۔ وائٹ ہائوس انھیں پاناما کے سابق صدر مینوئل نوریگا کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر رہا تھا۔ جارج بش سینئر کے دور حکومت میں امریکی فوج نے حملہ کرکے پاناما پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس یلغار کے دوران پاناما کے دس ہزار شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔ مینوئل نوریگا پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ منشیات کی عالمی تجارت میں ملوث ہے لیکن ہیوگو چاویز کی شدید جارحانہ پالیسیوں اور تیز و تند بیانات نے وائٹ ہائوس کو پریشانی میں مبتلا کردیا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف قرار داد منظور کی گئی تو وینزویلا واحد ملک تھا جس نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔ چاویز نے کھلم کھلا اور بار بار جارج بش کو ''دہشت گرد'' اور امریکا کو ''دہشت گرد ریاست'' قرار دیا۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں جارج بش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''کرۂ ارض کے لیے سب سے خوف ناک خطرہ امریکا کی حکومت ہے۔ امریکا کے عوام پر ایک قاتل حکومت کر رہا ہے، وہ ایک نسل کش قاتل اور جنونی ہے۔''

کترینا طوفان کی تباہ کاریوں کے دوران انھوں نے اپنی اخلاقی برتری کا ثبوت دینے کے لیے امریکا کو بلا قیمت دس لاکھ ڈالر کی مالیت کے بہ قدر پیڑولیم، دو موبائل اسپتال یونٹ، طبی امداد کے لیے120 ماہرین اور 50 ٹن خوراک فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی۔ ظاہر ہے، اس پیش کش کو رد کردیا گیا کیوں کہ امریکا کا میڈیا چاویز کو ایک انتہا پسند لیفٹسٹ کے روپ میں پیش کرتا رہا ہے، جس کے ساتھ اس قسم کے مراسم نہیں رکھے جاسکتے۔

ارجنٹائن کے شہر، مارڈیل پلاٹا میں ہونے والی ''اقتصادی سربراہی کانفرنس'' میں ہیوگو چاویز کی شخصیت سب کی توجہ کا مرکز بنی۔ مقامی فٹ بال اسٹیڈیم میں 35 ہزار مداحوں نے پرجوش نعرے لگا کر ان کا خیر مقدم کیا۔ ''بش دہشت گرد ہے!'' ''بش فاشسٹ ہے!!'' چاویز نے اپنی دو گھنٹے کی تقریر میں جارج بش پر شدید ترین حملے کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں جنگ کا کوئی اخلاقی جواز نہیں اور وائٹ ہائوس کی نیولبرل اقتصادی پالیسیاں دنیا کے لیے تباہ کن ہیں۔

انھوں نے کہا، ''امریکا نے بم باری کرکے شہر کے شہر تباہ کردیے، وہ کیمیاوی ہتھیار اور نیپام بم تک استعمال کرتا رہا ہے۔ اس نے بچوں اور عورتوں کا قتل عام کیا ہے۔ یہ دہشت گردی ہے۔ امریکی حکومت انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔'' انھوں نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ازراہ مذاق کہا کہ ''میں بش کو اس قدر دِق کروں گا کہ وہ خوف زدہ ہوجائے گا، بش شکست کھاچکا ہے اور شکست کھاتا رہے گا۔ یہ صدی لاطینی امریکا کی صدی ہوگی۔''

جارج بش کے اعصاب پر ایک اور ضرب لگانے کے لیے انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ میساچوسیٹس (امریکا) کے45 ہزار غریب خاندانوں کو موسم سرما میں ان کے گھر گرم رکھنے کے لیے وینزویلا 12 ملین گیلن تیل اور بے گھر لوگوں کی خدمت کرنے والے اداروں کو نو ملین تیل انتہائی سستے داموں فراہم کرے گا۔ چار سال قبل امریکی حکومت مجنونانہ انداز میں فوجی بغاوت کے ذریعے چاویز کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرچکی تھی۔

سی آئی اے وینزویلا کے پڑوسی ممالک کو اکساتی رہی کہ وہ اس ''خطرناک'' شخص سے چھٹکارا پانے میں امریکی انتظامیہ کا ساتھ دیں۔ اس سلسلے میں اعلیٰ ترین امریکی حکام نے متعدد بار لاطینی امریکا کے ممالک کا دورہ کیا۔ وہ بڑی عیاری کے ساتھ یہ دلیل پیش کرتے رہے کہ ''ہم اس خطے میں پرامن صورت حال کے حامی ہیں لیکن چاویز امریکی انتظامیہ کے خلاف انتہائی مخاصمانہ رویہ رکھتا ہے اور اس کی سوشلسٹ طرز کی اصلاحات اس خطے کے تمام ''جمہوریت پسند'' ممالک کے لیے خطرے کا پیغام سنا رہی ہیں۔''

اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ وائٹ ہائوس وینزویلا پر فوج کشی کے امکانات پر سنجیدگی سے غور کرتا رہا ہے، البتہ پالیسی ساز اداروں سے تعلق رکھنے والے بعض اعلیٰ حکام اس تجویز کے حق میں تھے کہ فوج کشی کے بجائے منظم انداز میں فوجی بغاوت کی ذریعے چاویز کا تختہ الٹنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔

چاویز کی اقتصادی اصلاحات کے نتیجے میں وینزویلا کی مجموعی قومی پیداوار میں 12 فی صد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا۔ اس آمدنی سے چاویز نے سماجی بہبود کے اداروں کو وافر مالی وسائل فراہم کیے جو غریبوں کے لیے بے حد ثمر آور ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ وینزویلا کے نادار طبقات میں ان کی مقبولیت عروج پر تھی اور مال دار اجارہ دار طبقہ ان کی اصلاحات کو نفرت کی نظر سے دیکھتا رہا۔ یہی وہ طبقہ ہے جو اندرون ملک سام راجی عزائم کی تکمیل کے لیے دل و جان سے سرگرم عمل رہا۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا کا 90 فی صد نیٹ ورک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مراعات یافتہ طبقے کی ملکیت ہے۔ لیکن چوں کہ عوام کی اکثریت کے لیے چاویز کی اقتصادی اور سماجی اصلاحات سودمند ثابت ہوئیں اس لیے مراعات یافتہ طبقات کا دائرہ اثر عوام کے درمیان زیادہ وسعت حاصل نہیں کرسکا۔

چاویز کا جرم کیا تھا؟ انہوں نے بار بار امریکا کو جنگی مجرم قرار دیا۔ ایک بار انھوں نے اپنی تقریر میں بہت موثر اور مدلل انداز میں وائٹ ہائوس کو مطعون کرتے ہوئے کہا، ''میں نے ٹیلی ویژن پر امریکی فوج کے بغداد پر حملے کے مناظر دیکھے تو مجھے بہت ہنسی آئی۔ یہ لوگ پھولوں کے منتظر تھے انھیں شاید معلوم نہیں تھا کہ وہ میسوپوٹیمیا کے لوگ ہیں جو صدیوں سے لڑتے آئے ہیں۔

امریکی حکام پاگل ہیں، ہذیان بکتے ہیں۔ ان کے جنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ صرف ایک سال میں 400ملین ڈالر دفاع کی مد میں صرف کرتے ہیں۔ امریکا کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کے صرف پانچ فی صد حصے پر مشتمل ہے، لیکن یہ ملک دنیا کی مجموعی توانائی کا 25فی صد صرف کرتا ہے۔ میں امریکا گیا تو ایئرپورٹ سے شہر کی طرف جاتے ہوئے میں نے ہزاروں گاڑیاں دیکھیں۔ 90 فی صد گاڑیوں میں صرف ایک آدمی سوار تھا۔ یہ لوگ کس بے دردی کے ساتھ بھاری مقدار میں پیٹرول صرف کر رہے ہیں، جب کہ دنیا کی بیش تر آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔''

ہیوگو چاویز کا دوسرا بڑا ''جرم'' یہ تھا کہ وینزویلا کو ایک نیا آئین دینے کے ساتھ انھوں نے اس خطے میں آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد ڈالی۔ چناںچہ ان کے دور میں کیوبا، روس اور چین سے وینزویلا کے اقتصادی اور سیاسی روابط میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ یہ تینوں ممالک کسی نہ کسی سطح پر وائٹ ہائوس کی اقتصادی اور سیاسی یلغار کی مخالفت کرتے رہے ہیں، اس لیے چاویز کی یہ جرات رندانہ وائٹ ہائوس کی طبع نازک پر گراں گزری۔ چاویز اس صورت حال کا بھرپور ادراک تھا، اسی لیے انہوں نے کہا،''یہ جنونی مسلسل میری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میسوپوٹیمیا (عراق) کے بعد ان کا جنون اب اور زیادہ شدت کے ساتھ انھیں وینزویلا پر فوجی حملہ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔''

ہیوگو رافیل چاویز فریاس 1998 کے انتخابات میں صدر منتخب ہوئے۔ فروری 1992 میں جب وہ فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھے، انہوں نے فوجی بغاوت کے ذریعے اس وقت کی بدعنوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی لیکن انہیں کام یابی نہیں ہوئی۔ صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے برق رفتاری سے اپنے منشور پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع کیا۔ ملک کو نیا آئین دیا، سماجی بہبود کے متعدد پروگرام شروع کیے، اور ایک آزاد خارجہ پالیسی نافذ کی، جس کا مقصد وینزویلا کو امریکا کے چنگل سے محفوظ رکھنا ہے۔ ان کے مخالفینمیں ''بزنس فیڈریشن'' کو مرکزی حیثیت حاصل رہی، جو سرمایہ داروں کی نمائندہ تنظیم ہے۔

میڈیا پر جو چاویز کو غیرمقبول کرنے کے لیے مسلسل پروپیگنڈہ کرتا رہا ہے، اس تنظیم کی گرفت بے حد مضبوط ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ چاویزکے انتخابات میں پولنگ کے دوران دھاندلی ہوئی تھی، لیکن غیر جانب دار عالمی مبصرین تصدیق کرتے ہیں کہ سرکاری نتائج پولنگ اسٹیشنوں پر ان کی جانب سے ہونے والی گنتی سے کلی مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ ایک احمقانہ الزام تھا، کیوں کہ بعد میں بلدیاتی ضلعی اور قومی سطح کے دیگر انتخابات میں بھی چاویز کے حامی بھارتی اکثریت سے کام یاب ہوئے۔

ہیوگوچاویز بچپن ہی سے وینزویلا اور لاطینی امریکا کی تحریک آزادی کے ممتاز رہنما، سائمن بولیوار کے پرستار تھے۔ 24 جولائی 1983 کو انہوں نے بولیوار کی 200 ویں سال گرہ پر ''انقلابی بولیوارین تحریک'' کی بنیاد ڈالی۔ 1989 میں صدر کارلوس آندریس پیریز نے عالمی مالیاتی فنڈ کی ہدایت پر عوامی بہبود کے پروگراموں کا بجٹ مختصر کردیا، جس کے نتیجے میں منہگائی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس پر احتجاجی جلسوں اور مظاہروں کا پرزور سلسلہ شروع ہوا۔ پیریز کے حکم پر فوج نے وحشیانہ انداز میں طاقت کے ذریعے اس تحریک کو کچل دیا۔ کاراکس میں 400 شہری اس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔

4 نومبر 1992 کو ہیوگو چاویز نے پیریز کا تختہ الٹنے کے لیے ایک فوجی بغاوت منظم کی، جسے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ دو سال جیل میں رہنے کے بعد نئے صدر رافیل کالویرا نے ان کی سزا معاف کرنے کا اعلان کیا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے ''تنظیم برائے پانچویں جمہوریہ'' کی بنیاد ڈالی، جس کے منشور میں غربت کے خاتمے کا نکتہ عوام کے لیے بے حد پرکشش ثابت ہوا۔ اگلے چھ برس کے دوران چاویز کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا، حتیٰ کہ 1998 کے عام انتخابات میں انہیں بھاری اکثریت سے وینزویلا کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ نئے آئین کے تحت وینز ویلا کا نام تبدیل کرکے ''بولیوارین ری پبلک آف وینزویلا'' رکھا گیا۔ 2002 میں فوجی بغاوت کے ذریعے چاویز کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی، جسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

چاویز کے نظریات

چاویز کا کہنا تھا کہ وہ ''جمہوری سوشلزم'' پر یقین رکھتے ہیں، جس کا لب لباب یہ ہے کہ اقتدار عوام کی ملکیت میں ہونا چاہیے، نہ صرف وینز ویلا میں، بلکہ پورے لاطینی امریکا میں۔ امریکا گزشتہ دو سو سال سے براہ راست یہاں کے معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے، اور اس خطے میں حکومتیں اسی کے ایماء پر وجود میں آتی ہیں اور زوال پذیر ہوتی ہیں۔ اب ہم اس صورت حال کو برداشت نہیں کرسکتے، ہم حقیقی خودمختاری اور آزادی کے خواہاں ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کے لیے ہمیں مزید قربانیاں دینی پڑیں گی۔ امریکا پر مسلط رہنے کی کوشش کرتا رہے گا، لیکن ہم پختہ عزم کے ساتھ اس کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے۔''

چاویز لاطینی امریکا کے عوام میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرتے رہے، اگرچہ اس خطے کی متعدد حکومتیں امریکا کے اشارے پر انہیں کم زور کرنے کی سازش کر رہی تھیں۔ امریکی سام راج کی تمام تر سازشوں کے باوجود انھیں اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جاسکا۔ اگرچہ آج سام راج پہلے سے زیادہ خوں خوار ہوچکا ہے، لیکن دنیا بھر کے انصاف پسند لوگ یہ تمنا رکھتے ہیں کہ چاویز کا مشن تکمیل کو پہنچے اور ان کی تقلید میں دنیا کے دوسرے ممالک کے حکم راں طبقے بھی سام راج کی بالادستی کے خلاف حقیقی خودمختاری اور آزادی کی جدوجہد میں راست بازی اور جرأت مندی کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں۔

اب چاویز اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن زندہ لوگوں کو کون مار سکتا ہے۔ چاویز کا پیغام ، جو پوری دنیا کے لیے ہے، زندہ رہے گا اور توسیع پسند قوتوں کی ناک رگڑتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں