ڈاکٹر شکیل اوج کے اہل خانہ بے بس
لواحقین کے لیے معاوضہ کی یقین دہانی کرائی تھی مگر ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر وحید الرحمٰن سے کیے گئے وعدے بھلادیے گئے۔
پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو تین سال قبل دہشتگردوں نے شہید کردیا۔ ڈاکٹر شکیل اوج کراچی یونیورسٹی کے کلیہ معارف اسلامیہ کے ڈین تھے۔ وہ مدرسے اور جدید تعلیمی نظام کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ ایک روایتی استاد نہیں تھے بلکہ ایک سچے محقق بھی تھے۔ انھوں نے اپنی تحقیق کے دوران اسلامی علوم میں وہ حقائق تلاش کیے جو جدید طرز زندگی سے ہم آہنگ تھے۔
ڈاکٹر اوج ہر قسم کے تشدد کو اسلامی اصولوں کے منافی جانتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی دنوں سے ہی طالبان اور القاعدہ کی دہشتگردی اور خودکش حملوں کو غیر اسلامی فعل قرار دیا تھا۔ وہ خواتین کی تعلیم اور ان کی عملی زندگی میں شرکت کو ترقی کے لیے ضروری جانتے تھے۔ ڈاکٹر شکیل اوج فرقہ وارانہ تعصب پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
ان کے شاگردوں میں تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ ڈاکٹر صاحب مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کی اہمیت کو ہمیشہ اجاگر کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ دنیا میں امن اور ترقی کے لیے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مکالمہ سے دنیا میں کشیدگی ختم ہوگی۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا تھا کہ مسلمان دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد سے سماجی و تجارتی تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔ انھوں نے 15 کتابیں تحریر کی تھیں۔ وہ دوسرے پاکستانی تھے جنھیں تعلیمی دنیا کی سب سے بڑی ڈی لیٹ (D-Let) تحقیق پر یہ ڈگری دی گئی ہے۔
ڈاکٹر شکیل اوج کی تحقیق رجعت پسند طبقے کو منظور نہیں تھی۔ ڈاکٹر شکیل اوج سے پہلے اس فقہ کے علماء ناراض تھے جس فقہ کے مدارس سے انھوں نے سند حاصل کی تھی، پھر دیگر رجعت پسندوں نے ان کی مخالفت شروع کردی۔ ڈاکٹر شکیل اوج کو ان کے راستے سے ہٹانے کے لیے بدنام زمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ پہلے انھیں جامعہ کراچی میں داخلے سے روکنے کی کوشش کی گئی، پھر ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ انھیں عدالتوں میں بھی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر ان کے خلاف فتویٰ بازی شروع ہوئی۔ ان کی تحقیق کی بناء پر ڈاکٹر شکیل اوج کے عقائد کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کیا گیا۔ ایک بڑے مدرسہ کا جعلی فتویٰ ایس ایم ایس کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔
پولیس نے جھوٹا ایس ایم ایس رکھنے والے گروہ کا سراغ لگایا مگر ریاستی اداروں کی روایتی بے حسی کی بنا پر ڈاکٹر شکیل اوج کو تحفظ نہ مل سکا۔ انھیں صدر پاکستان نے نشان امتیاز سے نوازا۔ ڈاکٹر شکیل اوج کو اعلیٰ ایوارڈ ملنے پر ان کے اعزاز میں استقبالیوں اور عشائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔
ڈاکٹر شکیل اوج کو ایرانی قونصل خانے آنے کی دعوت دی گئی۔ وہ کار میں اپنے دوست، صحافت کے معروف استاد ڈاکٹر طاہر مسعود کے ہمراہ گلشن اقبال میں اردو یونیورسٹی کے سامنے اوورہیڈ برج سے گزرر ہے تھے کہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گولی چلا کر انھیں شہید کردیا۔ ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ اور معاشرے کے دیگر باشعور افراد نے مذمت کی۔ پولیس حکام نے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے جامع منصوبہ بندی کا اعلان کیا۔
اس میں موبائل فونز کے سگنلز کی جیوفینسنگ کی خبریں شایع ہوئیں اور پولیس افسران قاتلوں تک پہنچنے کا دعویٰ کرتے رہے مگر ایک شخص کے علاوہ کوئی گرفتاری نہ ہوئی۔ پولیس گرفتار ہونے والے شخص کے خلاف موثر شہادتیں پیش نہ کرسکی۔ ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل پر کراچی یونیورسٹی میں شدید احتجاج ہوا اور اساتذہ نے ہڑتال کردی۔ گورنر سندھ اور وزیراعلیٰ سے کراچی یونیورسٹی کی ٹیچرز سوسائٹی کے عہدیداروں کے مذاکرات ہوئے۔ گورنر اور وزیراعلیٰ نے قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔ اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ڈاکٹر شکیل اوج کے اہل خانہ کو 3 ملین روپے کے معاوضے کی ادائیگی کا اعلان کیا۔
گورنر اور وزیراعلیٰ نے تحریری طور پر ڈاکٹر شکیل اوج کے وارثوں کو 3 ملین روپے معاوضے کی ادائیگی کے لیے احکامات جاری کیے۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے عہدیدار گورنر اور وزیراعلیٰ کی یقین دہانی پر مطمئن ہوئے۔ وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے دہشتگردی کا شکار ہونے والے اساتذہ، پولیس اور سرکاری افسروں کے پسماندگان کو اتنا ہی معاوضہ ادا کیا ہے، مگر حکومت سندھ کی فائلوں میں ڈاکٹر شکیل اوج کے لواحقین کو معاوضے کی سفارش کھوگئی اور ٹیچرز سوسائٹی کے عہدیدار زندگی کے دیگر کاموں میں لگ گئے۔
ڈاکٹر شکیل اوج کے تین بیٹوں نے حکومت سندھ کے اعلان کے مطابق معاوضہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ وہ کبھی گورنر ہاؤس، کبھی وزیراعلیٰ ہاؤس، کبھی محکمہ داخلہ اور محکمہ خزانہ کے چگر لگاتے رہے۔ یہ بچے تعلیم سے فارغ ہوئے اور روزگار کی تلاش میں تھے۔ اس بناء پر ان کا سندھ سیکریٹریٹ جانا کم ہوگیا۔ یوں معاوضہ کی ادائیگی کا معاملہ فائلوں میں کھو گیا۔ کمشنر کراچی کے دفتر سے یکم نومبر 2017ء کو ڈاکٹر شکیل اوج کی قیام گاہ پر ٹیلی فون سے رابطہ کیا گیا۔
ڈاکٹر شکیل اوج کے صاحبزادے محمد ملہان خان کی کمشنر آفس کے کلرک سے بات ہوئی اور انھیں کمشنر آفس طلب کیا گیا۔ کمشنر آفس میں ایک اہلکار نے ملہان خان کو بتایا گیا کہ حکومت سندھ نے صرف 2 لاکھ روپے معاوضہ کے طور پر منظور کیے ہیں۔ اس چیک کو حاصل کرنے کے لیے 5 ہزار روپے کی رشوت فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ڈاکٹر شکیل اوج کے بچوں کے لیے یہ خبر انتہائی مایوس کن تھی۔ پھر ان کے والد کے قتل کی بناء پر ملنے والے معاوضے کی وصولی کے لیے بھی رشوت طلب کی گئی۔ اوج صاحب کے اہل خانہ نے چیک وصول کرنے سے انکار کردیا۔ محض اتنی معمولی سی رقم اور رشوت کی وصولی ایک طرح سے ڈاکٹر شکیل اوج کے خون کی توہین ہے۔
بدقسمتی سے رشوت طلب کرنے کا واقعہ ایسے وقت سامنے آیا جب کراچی یونیورسٹی میں اساتذہ انتخابی عمل میں مصروف تھے۔ ٹیچرز سوسائٹی کے عہدیداروں کو اب ڈاکٹر شکیل اوج کے بچوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان رہنماؤں نے گورنر اور وزیراعلیٰ کے وعدے کے مطابق معاوضہ ادا نہ کرنے اور بچوں سے رشوت طلب کرنے کے واقعہ کو نظر انداز کردیا۔ خیبرپختونخوا اور دیگر علاقوں میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والے اساتذہ کے لواحقین کو خطیر معاوضہ ادا کیا گیا۔
وفاقی حکومت نے پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے حملے کے بعد اساتذہ اور سرکاری اہلکاروں کے لواحقین کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا، مگر ڈاکٹر شکیل اوج اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد ڈاکٹر وحید الرحمٰن کے لواحقین کے ساتھ مذاق ہوا۔ کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے ڈاکٹر وحید الرحمٰن کی بیوہ کے لیے پنشن کی منظوری دی تھی مگر ان کی بیوہ کرپشن اور سرخ فیتے کا شکار ہوگئیں۔
ایوان صدر کے افسران نے ان اساتذہ کی شہادت کے بعد ان کے لواحقین کے لیے معاوضہ کی یقین دہانی کرائی تھی مگر ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر وحید الرحمٰن سے کیے گئے وعدے بھلادیے گئے۔ سندھ کی بیوروکریسی کا شہید اساتذہ کے اہل خانہ کے ساتھ بیہمانہ سلوک حکومت سندھ کی متعصبانہ پالیسی کا ثبوت ہے۔ اس واقعہ کی ذرایع ابلاغ پر کوریج کے باوجود اساتذہ کے نمایندوں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی بے حسی مایوسی پیدا کررہی ہے۔ وزیراعلی مراد علی شاہ کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔