پانی میں ہی زندگی ہے

یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے جو ہم موسم کی صورت میں بھگت رہے ہیں


Abdul Qadir Hassan November 11, 2017
[email protected]

وہ پانی جو نعمت رب ِ جلیل ہے اگر ہم ہر سال اپنی کوتاہی سے اس کی ایک بڑی مقدار سمندر کی نذر نہ کر دیتے اور اس کو جمع کرنے کا کوئی بند بست کر لیتے تو عین ممکن تھا اسے کسی طرح ان پیاسے پاکستانیوں اور ان مویشیوں تک بھی پہنچا دیتے جو آج بارش نہ ہونے کے باعث پیاس کے مارے دم توڑ رہے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے میں عرب میں قحط کے زمانے میں ایک مسلمان کے کردار کا ذکر کر کے اپنے آج کے مسلمان حکمرانوں کو شرمندہ نہیں کر نا چاہتا البتہ ایک غیر حکمران اور صوفی درویش کا سرسری ذکر کرتا ہوں کہ حضرت پیر سید عبدالقادر جیلانی نے آخری عمر میں کھانا اس لیے ترک کر دیا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق کئی مسلمانوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا۔

موجودہ زمانے کی اگر بات کی جائے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پچھلے کئی ماہ سے اللہ کی رحمت نہیں برس رہی اور پاکستان کا ایک وسیع علاقہ ایک بھیانک قحط کی جانب بڑھ رہا ہے اور قحط کی یہ جان لیوا صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ پچھلے کئی سال سے عالمی ماہرین اس بات کی مسلسل پیش گوئیاں کرتے آرہے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی صورتحال خطرناک حد تک کم ہوتی جا رہی ہے۔

موسموں کے تغیر و تبدل کے نتیجہ میں بارشیں اتنی نہیں برس رہیں جتنی قدرت کو پانی کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم یہ سب جانتے بوجھتے بھی اپنی روائتی سستی بلکہ نااہلی اور لاپرواہی کے سبب یہ قحط زدہ صورتحال بھگتنے جا رہے ہیں۔ ہماری سیاسی حکومتیں اپنے سیاسی بکھیڑوں میں ہی الجھی رہیں اور ان کو اس بات کا ادراک ہی نہ ہو سکا کہ پانی زندگی ہے اور اس کی حفاظت کتنی ضروری ہے۔ ہمارے تو ایک فرد واحد واٹر کمشنر نے حکومت سے بالا بالا اپنے دریا ہی دشمن کے ہاتھوں بیچ ڈالے اور کوئی ان کو پوچھنے والا بھی نہیں۔

بارش کے نہ ہونے کا احساس شہری زندگی میں تو صرف موسم کی تبدیلی سے تعلق رکھتا ہے اور بابوؤں کو سردی میں سوٹ اور ٹائی پہن کر اپنے آپ کو سنوارنے سے ہی مطلب ہوتا ہے مگر بارش کے نہ ہو نے کا کوئی کاشتکاروں، صحرائی باشندوں یا بارانی علاقوں میں زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاشتکاری کرنے اور پہاڑوں میں مویشیوں کے سہارے زندگی بسر کرنے والوں سے پوچھے جن کی زندگی ہی بارش سے چلتی ہے اور بارش کے نہ ہونے سے رک جاتی ہے۔

چرند پرند جنگلی جانور جن کے حصے میں جنگل کی زندگی لکھ دی گئی ہے وہ بھی اللہ کی رحمت کے انتظار میں رہتے ہیں کہ بارش کا پانی جنگلوں کی گھاٹیوں میں ان کے لیے زندگی کا پیغام ہوتا ہے۔ بارش سے ہریالی کے بعد یہ جنگلی جانور اپنی بھوک مٹا کر تالابوں سے سیر ہو کر پانی پیتے اور اس کے بعد اپنی بلند گونجتی آوازیں نکال کر اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

بارشوں کے نہ ہونے سے جہاں پر قحط کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہیں پر ملک کے بیشتر علاقوں میں ایک نیا عذاب دھند اور آلودگی پر مشتمل فضاء ہے جس میں ایک ایسا کہر چھایا ہوا ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور عوام اس کا شکار ہو کر بیماریوں میں مبتلاء ہو رہے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی حل کسی حکومت کے پا س نہیں یہ اللہ کی طرف سے ایک عذاب ہے جو کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم پر ناز ل ہوا ہے لیکن ہم اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

اور ابھی تک کوئی بھی ایسا عمل نہیں دیکھا گیا کہ اللہ ہمیں اس عذاب سے نجات دے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس خطرناک صورتحال میں حکومت وقت کی جانب سے اس بات کی اپیل کی جاتی ہے کہ اجتماعی طور پر دو رکتی نماز ادا کی جائے اور اللہ سے مدد طلب کی جائے لیکن ہمارے حکمران اس حد تک اپنے ذاتی مسئلوں میں الجھ چکے ہیں کہ وہ عوام کی مشکلات کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے جو ہم موسم کی صورت میں بھگت رہے ہیں اس موقع پر ہمیں اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے تا کہ اس عذاب سے نجات حاصل ہو سکے۔ قوم اگر اجتماعی طور پر نماز استسقاء ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ اپنی رحمت نہ برسائے۔ اللہ تعالیٰ تو دینے کی بات کرتے ہیں کوئی مانگنے والا تو ہو۔

قحط اسلامی اصطلاح میں عذاب کی ایک صورت ہے یہ عذاب ہم پر نازل ہوچکا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ رہی سوائے چند ایک سیاسی لیڈروں کے سیاسی بیانات کے۔ مجھے ان سیاسی لیڈروں کے چہروں پر پریشانی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے کہ یہ خوشحال حکمران اپنے ملک میں قحط کی صورت میں کسی اور شاخ پر جا بیٹھیں گے اور قحط کا شکار مظلوم پاکستانیوں کا وہاں سے نظارہ کریں گے۔

ٹھنڈے گرم کمروں میں بیٹھ کر اپنے سامنے منرل واٹر کی بوتلیں سجائے پانی کی کمی کے بارے میں صحت مند حکمرانوں کے اجلاس کو دیکھ کر یہ گمان نہیں گزرتا کہ وہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کے ذمے دار ہیں اور ان کے بارے میں فکر مند ہیں بلکہ ان کی سیکیورٹی پر جو خرچ آ رہا ہے اس سے پانی کے کئی منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جن سے ملک کی زرخیز زمینوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دفتروں میں گرم کافیاں پینے کا لطف ہی اٹھایا اور آنے والے حالات سے بے خبر اور لاپرواہ ہی رہے۔ ان حکمرانوں اور حالات کے شکار عوام اللہ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور رحم کی درخواست کرتے ہیں کہ دنیا میں ان کی سننے والا کوئی نہیں عالم بالا سے ہی ان کو مدد مل سکتی ہے وہی ذات سب کی مدد گار ہے اور مشکل کشاء ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں