ندا فاضلی اور جگجیت سنگھ سے یادگار ملاقاتیں آخری حصہ

جگجیت سنگھ کے ساتھ قدرت کی ستم ظریفی یہ ہوئی تھی کہ اس کا جوان بیٹا کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگیا تھا


یونس ہمدم November 11, 2017
[email protected]

اسی دور میں ندا فاضلی کے لکھے ہوئے ایک اور گیت کو بھی بڑی شہرت ملی تھی، جسے گلوکار محمد رفیع نے گایا تھا ۔ فلم تھی ''آپ تو ایسے نہ تھے'' اور موسیقی دی تھی خاتون موسیقار اوشا کھنہ نے۔ گیت کے بول تھے۔

تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے

اب میں آتا ہوں بمبئی کے ابھرتے ہوئے گلوکار غزل سنگر جگجیت سنگھ کی طرف جسے کراچی کے ایک مشہور صنعت کار نے بطور خاص کراچی بلایا تھا اور ایک خوبصورت غزل کی محفل بھی سجائی تھی جس میں جگجیت سنگھ اور گلوکارہ چترا سنگھ رات گئے تک محفل کو گرماتے رہے اور اپنی آواز کا جادو جگاتے رہے۔ اسی ہفتے کراچی پریس کلب نے بھی انڈیا کے ان فنکاروں کو پریس کلب مدعو کیا اور ساتھ میں ایک شام موسیقی کا بھی اہتمام کیا تھا۔ استاد امیر احمد خان اور میں بھی بصد شوق ان دونوں آوازوں کو سننے گئے تھے۔ ان دنوں فلم ''پریم گیت'' میں شاعر اندیور کا لکھا ہوا ایک گیت بڑا مشہور تھا جس کی موسیقی بھی جگجیت نے دی تھی اور گایا بھی تھا۔ گیت کے بول تھے:

ہونٹوں سے چھو لو تم میرا گیت امر کردو
بن جاؤ میت مرے مری پریت امر کردو

جگجیت نے اس محفل موسیقی کا آغاز اپنے اسی گیت سے کیا پھر مکیش کے چند یادگار گیت سنائے اور پھر ابن انشا کی مشہور غزل چھیڑی جس کی دھن کچھ الگ تھی:

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ ترا

اس غزل کے اختتام پر دیر تک تالیوں کی گونج سنائی دیتی رہی پھر جگجیت سنگھ اور چترا دونوں نے مل کر فلم ''شور'' کا مقبول گیت سنایا:

ایک پیار کا نغمہ ہے، موجوں کی روانی ہے
زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ہے

رات گئے تک یہ محفل جاری رہی تھی اور جگجیت سنگھ نے سب کے دل موہ لیے تھے۔ آخر میں استاد امیر احمد خان نے جگجیت سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا وہ مشہور کلاسیکل سنگر استاد امراؤ بندو خان کے بھانجے اور نامور سارنگی نواز استاد بندو خان کے نواسے ہیں تو جگجیت نے بڑے ادب سے کہا تھا تو پھر خاں صاحب آپ کل ہوٹل میٹروپول میں تشریف لائیں میں وہاں ٹھہرا ہوا ہوں، آپ سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ دوسرے دن استاد امیر احمد خان اور میں جگجیت سنگھ اور چترا کے ساتھ ان کے ہوٹل کے کمرے میں موجود تھے۔

استاد امیر احمد خان نے میرا تعارف کرایا کہ یہ میرے دوست اور شاعر و نغمہ نگار یونس ہمدم ہیں، آپ کے بڑے پرستار ہیں۔ جگجیت سنگھ بڑی محبت سے بولے زہے نصیب ایک کوی اور ایک مہا کلاکار خاندان کا چشم وچراغ دونوں کا دل سے سواگت ہے ۔ جگجیت نے بڑے فخریہ انداز میں بتایا کہ وہ موسیقی کے دہلی گھرانے کا احسان مند ہے اور استاد چاند خان کے شاگردوں میں شامل ہے اور پھر استاد امیر احمد خان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا کہ وہ آپ ہی کا دہلی گھرانہ ہے، آپ تو میرے استاد گھرانے کے فنکار ہو۔ آپ نے یہاں آکر میرا مان سمان بڑھایا ہے۔

آج میں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے وہ اسی دہلی گھرانے سے ہی حاصل کیا ہے۔ ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد جگجیت نے کہا اب یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں اپنے استاد گھرانے کے ایک معزز فرد کو ہدیے کے طور پر کچھ سناؤں بھی۔ پھر وہ دوسرے کمرے سے ہارمونیم اٹھا لائے اور انھوں نے اپنے نئے البم کے کچھ گیت اور غزلیں سنائیں اور خاص طور پر ندا فاضلی کی گزشتہ رات والی غزل ایک بار پھر سنائی۔ پھر جگجیت اور چترا نے مل کر کچھ ٹپے (پنجابی کے) اور کچھ توڑے بھی سنائے جو کلاسیکل انداز کے ہوتے ہیں اور دلچسپ بات اس ملاقات کی یہ تھی کہ موسیقی کی اس مختصر سی محفل میں دو سنانے والے تھے اور دو ہی سننے والے تھے۔

جگجیت سنگھ نے ہندوستان اور پاکستان کے پس منظر میں اپنے جذبات و احساسات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہندوستان اور پاکستان کی موسیقی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں دیسوں کی تہذیب اور ثقافت بھی ایک جیسی ہے پہلے ایک ملک تھا اب دو ملک بن گئے ہیں پر دونوں ملکوں کے عوام آج بھی ایک دوسرے کی محبت کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔

فنکارکسی بھی ملک کے ہوں وہ محبت کا پرچار کرتے ہیں، وہ آپس میں محبتیں بانٹتے ہیں ان کے دلوں میں صرف پیار اور دوستی کے دریا موجزن ہوتے ہیں۔ جگجیت بولے اگر ایک گھر میرا ہندوستان ہے تو دوسرا گھر میرا پاکستان ہے اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان میں میرے گرو، نامور گائیک غزل کے شہنشاہ خان صاحب مہدی حسن رہے ہیں جن کی آواز میرے لیے ایک اسکول کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم جتنی دیر وہاں رہے مہدی حسن، میڈم نور جہاں اور موسیقی کے مختلف گھرانوں کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں، جگجیت نے اپنے نئے آنے والے البم کے بارے میں کچھ بتایا کہ وہ فلموں سے زیادہ اپنے میوزک البم کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔ ہماری جگجیت سنگھ سے یہ ملاقات کئی گھنٹوں تک رہی تھی۔

جگجیت سنگھ کی جدوجہد کا وہ ابتدائی زمانہ تھا پھر آہستہ آہستہ جگجیت سنگھ نے غزل میں کچھ نئی تبدیلیاں کیں اور غزل کی گائیکی کو آسان بنایا اور نہ صرف سارے ہندوستان میں جگجیت کے کنسرٹ ہونے لگے بلکہ امریکا، یورپ اور کناڈا میں بھی ان کے پروگراموں کو بڑا سراہا جانے لگا۔ جگجیت سنگھ اور چترا ایک دوسرے کے نہ صرف شریک زندگی تھے بلکہ موسیقی میں ایک دوسرے کی معاونت بھی کرتے تھے۔ جگجیت اور چترا نے سولو اور ڈوئیٹ بھی بہت سی فلموں کے لیے گائے اور انھیں بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ ایک بہت ہی مشہور البم ''سجدہ'' کے نام سے یادگار البم کہلایا جاتا ہے جس میں لتا منگیشکر نے بھی کئی گیت گائے تھے اور ہندوستان کے نامور شاعروں کے علاوہ احمد فراز کی غزلیں بھی شامل ہیں۔

ہندوستان میں غزل کی گائیکی میں جس نام کو سربلندی اور بے تحاشا شہرت حاصل ہوئی وہ صرف جگجیت سنگھ ہی کا نام ہے۔ جگجیت سنگھ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے غزل کو آسان بندشوں کے ساتھ موسیقی کے سروں سے سجایا ہے اور غزل کو مزید عوام کے دلوں کے نزدیک کردیا ہے۔ ہندوستان کے لیجنڈ شاعر نغمہ نگارگلزار نے تو جگجیت سنگھ کو غزل جیت سنگھ کا ٹائٹل دیا ہے اور جگجیت اس ٹائٹل کا حقدار بھی تھا۔ برصغیر ہندوستان اور پاکستان میں لیجنڈ گلوکار مہدی حسن کے بعد اگر کوئی غزل کی آبرو کہلایا جاتا ہے تو وہ جگجیت سنگھ ہی کی شخصیت ہے۔

جگجیت سنگھ کے ساتھ قدرت کی ستم ظریفی یہ ہوئی تھی کہ اس کا جوان بیٹا کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگیا تھا اور اس حادثے نے جگجیت سنگھ اور چترا کی زندگی کی ساری خوشیاں چھین لی تھیں۔ چترا تو کافی دنوں تک اس صدمے سے باہر نہ آسکی تھی اور اس نے سب گانا وانا چھوڑ دیا تھا، جگجیت سنگھ بھی ذہنی مریض ہوگیا اور ڈپریشن میں چلا گیا تھا، پھر دھیرے دھیرے یہ ڈپریشن سے نکلا اور کچھ نارمل زندگی کی طرف آیا۔ نارمل ہونے کے بعد اس نے ایک فلم ''دشمن'' کے لیے پہلی ریکارڈنگ کی اور وہ گیت بھی اس کی موجودہ زندگی کی عکاسی کرتا تھا۔ فلم کی سچویشن اس کے حسب حال تھی وہ درد بھرا گیت آنند بخشی نے لکھا تھا جس کے بول تھے:

چٹھی نہ کوئی سندیس، جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے، جہاں تم چلے گئے

پھر وہ گیت جگجیت کے خیالوں میں اس کی رگ رگ میں بس گیا تھا، بلکہ یوں کہا جائے تو صحیح رہے گا کہ درد میں ڈوبا وہ گیت اس کی زندگی کا ساتھی بن گیا تھا۔ وہ اکثر خود کوکمرے میں تنہا کرکے ہارمونیم لے کر بیٹھ جاتا اور یہ گیت گاتا رہتا تھا اور پھر جگجیت یہی گیت گاتے گاتے ایک دن اپنے مرحوم بیٹے سے ملنے ملک عدم سدھارگیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں