ہماری معیشت کدھر جارہی ہے
سرمایہ کاری میں منافع اندرون ملک آنے کے بجائے 42.7 کروڑ ڈالر کا منا فع بیرون ملک منتقل ہوا۔
ویسے تو معیشت ناپنے کا پیمانہ عوام کی قوت خرید اور قوت محنت کی قدر پر انحصارکرتا ہے، لیکن ہمارے بورژوا (سرمایہ دار) دانشور حضرات اسٹاک ایکسچینج، فاریکس، ڈالر ریٹ اورگولڈ پرائس پر زیادہ انحصارکرتے ہیں۔ خواہ عوام بھوک سے مر رہے ہوں، انھیں اسٹاک ایکسچینج کی اٹھان پر فخرہوتا ہے۔ پہلے چلتے ہیں انھی کے حساب کتاب پر۔ سرمایہ دارانہ طریقہ کارکے تحت بھی ہماری معیشت کی بدترین حالت ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائرکی مالیت ایک بار پھر بیس ارب ڈالرکی سطح سے نیچے گرگئی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 13 اکتوبرکو زرمبادلہ کے ذخائرکی مجموعی مالیت 20 ارب 5 کروڑ 29 لاکھ ڈالر تھی جو 20 اکتوبر کو 15 کروڑ ڈالرکی کمی سے 19 ارب 90 کروڑ 21 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے پاس 13 ارب 94 کروڑ 16 لاکھ ڈالر جب کہ کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 96 کروڑ 5 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ مرکزی بینک کے مطابق غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے ایک ہفتے میں سرکاری ذخائر میں 21 کروڑ 60 لاکھ ڈالرکی کمی واقع ہوئی ہے۔ ادھر حصص مارکیٹ میں پھر مندی، 186 پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی کاروباری سرگرمیوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی اور مقامی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر اتار چڑھاؤ کے بعد مندی کے اثرات غالب رہے۔
سرمایہ کاری میں منافع اندرون ملک آنے کے بجائے 42.7 کروڑ ڈالر کا منا فع بیرون ملک منتقل ہوا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جولائی سے ستمبر تک غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 42 کروڑ 68 لاکھ ڈالر کا منافع بیرون ملک منتقل کیا۔ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 33 کروڑ 46 لاکھ ڈالر کا منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا تھا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق 12 لاکھ ٹیکس نادہندگان ہیں، جب کہ بائیس کروڑ عوام سے ہر چیز یعنی پانی، تیل، گھی، چاول، آٹا، کاسمیٹک، کپڑے، جوتے، غرضیکہ ہر ضروریات زندگی کی اشیاء پر بالواسطہ ٹیکس لیا جارہا ہے۔
اب چلتے ہیں قوت خریدکی جانب، جو حقیقی معیشت کی نمایندگی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کل جو شخص ایک کلو دال خریدتا تھا آج ایک پاؤ خریدنے پر مجبور ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی اور افراط زر کی وجہ سے لوگ کم خریدنے پر مجبور ہیں۔ جب آپ ہر چیز کم خریدیں گے اور کم کھائیں گے تو آپ کو جسم کی نشوونما کے لیے غذائیت کی کمی ہوگی اور جب غذائیت کی کمی ہوگی تو قوت مدافعت بھی کم ہوجائے گی اور کسی بھی بیماری میں جب مدافعت کی قوت کم ہوجائے گی تو پھر آپ بیماری میں مبتلا ہوجائیں گے، ڈاکٹر کے پاس جانا ہوگا اور مزید پیسے خرچ ہوں گے۔
قوت خرید تب کم ہوتی ہے جب پیداوار میں کمی ہو یا زائد پیداوارکا ذخیرہ کیا جاتا ہو۔ بازار میں سامان کا ذخیرہ موجود ہو اور لوگوں کے پاس قوت خرید نہ ہو اور صاحب جائیداد طبقات کے پاس دولت کی بھرمار ہونے کی وجہ سے گزشتہ مالی سال میں دولت مندوں نے پچاس ہزار کاریں خریدیں اور دوسری جانب بھوک اور بیماری سے ہزاروں لوگ جان سے جاتے رہے۔
اب قوت محنت کی قدرکا جائزہ لیتے ہیں۔ سرمایہ دار ہر چیز اپنی مرضی سے بیچتا ہے اور رقم وصول کرتا ہے، جب کہ مزدور بھی اپنی قوت محنت بیچتا ہے مگر وہ اپنی قوت محنت کی قیمت خود نہیں لگا سکتا۔ اس کی محنت کی قیمت بھی سرمایہ دار ہی لگاتا ہے۔ سرمایہ دار کہتا ہے کہ اگر اس پیسے میں کام کرنا ہے تو کرو، ورنہ چھٹی کرو۔ دوسری جانب سرمایہ دار طبقے نے اتنی بیروزگاری پھیلا رکھی ہے کہ بے روزگاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ کم پیسوں پر ہی نوکری کرنے پر تیار رہتے ہے، جب کہ پہلے ہی سرمایہ دار اس کا خون پسینہ نچوڑ لیتا ہے۔
فیکٹری میں جب مزدور چار گھنٹے کام کرلیتا ہے تو اس کی دیہاڑی پوری ہوجاتی ہے، مزید چار گھنٹے سرمایہ دار کے منافعے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ایک مزدورکو جتنی تنخواہ ملنی چاہیے اس سے آدھی ملتی ہے۔ اس طرح معیشت پر سرمایہ دار ہی قابض رہتا ہے، جس کے نتیجے میں نوے فیصد عوام افلاس زدہ رہتے ہیں اور ساری دولت چند ہا تھوں میں مرکوز ہوجاتی ہے۔
دوسری بڑی معیشت زراعت کی ہے۔ جس پر ہمارا کوئی دھیان نہیں ہے۔ ایک جانب چند لوگ لاکھوں ایکڑ زمین پر قابض ہیں تو دوسری جا نب کروڑوں کسان بے زمین ہیں۔ اب جن کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہے جو سب کاشت بھی نہیں کرپاتے یا نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں پاکستان میں تقریباً ساٹھ فیصد زمین بنجر پڑی ہے، جن پر ہم کاشت کر ہی نہیں رہے ہیں۔ ان زمینوں کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے، اگر ہم نہروں اور ٹیوب ویل کا استعمال کریں تو پانی سے زمین کو سیراب کیا جاسکتا ہے اور بنجر زمینیں لہلہاتے ہوئے کھیت میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہو نے کے باوجود ہم دالیں، پیاز، ٹماٹر، گندم، لہسن، ادرک جسے ہم چین، ہندوستان، ایران وغیرہ سے درآمد کرتے ہیں، اس کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ہم برآمد کرسکتے تھے۔ پاکستان کی بھینسیں دنیا بھر میں مشہور ہیں، ہم اگر سائنسی انداز میں ڈیری فارمنگ کریں تو ملکی دودھ کی ضروریات نہ صرف پوری کرسکتے ہیں بلکہ برآمد بھی کرسکتے ہیں، مگر مسئلہ ہے ترجیحات کا۔ اگر ہم دفاعی اخراجات میں کمی لاکر زراعت کی جانب توجہ دیں تو ہم پاکستان کو باآسانی ایک خود کفیل ملک میں تبدیل کرسکتے ہیں اور کم ازکم دال چاول، آٹا، سبزی، گوشت، انڈے اور دودھ تو عوام کو فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے جاگیرداری اور عالمی سرمایہ داری نظام سے نجات حاصل کرنا ہوگی، اس طرح عوام کی لاچارگی، غربت اور افلاس کا خاتمہ ہوسکے گا۔