انسان اپنا دشمن آپ ہے
ناقابل یقین حقیقت ہے کہ بیماریوں سے ہر سال اتنے امریکی نہیں مرتے جس قدر کہ وہ خودکشی سے مرتے ہیں۔
کبھی آپ نے اس بات پر سوچ بچار کیا ہے کہ ہماری حکومت کے اہم کردار آج کل اپنے آفسوں میں خوش باش ہونے کے بجائے اسپتالوں میں اپنا زیادہ وقت گزارنے پر کیوں مجبور ہیں؟ ہر ایک کے چہرے پر خوف کے سائے کیوں گہرے ہوتے جارہے ہیں؟ طاقت و اختیار کے ایوانوں کو پریشانیوں اور تفکرات نے کیوں اپنے قبضے میں لے رکھا ہے؟ ہر کوئی دوسرے سے کیوں ڈرا اور سہما ہوا ہے اور یہ بھی کہ اگر آپ حکومتی اراکین کے بیانات ملاحظہ فرمائیں تو ان میں سوائے پریشانیوں، تفکرات اور انجانے خوف کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھائی دے گا۔
وہ خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، خود ہی خوفزدہ ہیں اور خود ہی خود کو تسلی دے رہے ہیں۔ اگر آپ نے اس بات پر اب تک سوچ بچار نہیں کیا ہے تو پھر ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ ان سب کیفیات کا براہ راست تعلق نفسیات سے ہے۔ عملی نفسیات کے بانی پروفیسر ولیم جیمز نے اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''جو کچھ ہوچکا ہے اس پر قناعت کرو کیونکہ بدنصیبیوں کا خمیازہ برداشت کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو کچھ بیت چکا ہو اس پر رضامند ہوجاؤ''۔ تھامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا ہے '''انسان غوروفکر کرنے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلتا ہے''۔
اگر ہم حقائق معلوم کرنے کے لیے تردد کرتے بھی ہیں تو ایسے جیسے شکاری کتے خرگوش کا پیچھا کرتے ہیں۔ ہم صرف ان ہی حقائق کو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات کو سہارا دیتے ہوں اور باقی ہر چیز کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ہمیں صرف ان ہی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے جن سے ہمارے اعمال حق بجانب ثابت ہوسکیں، جو ہماری امیدوں اور آرزوؤں پر آسانی کے ساتھ منطبق ہوسکیں اور ہمارے تعصبات اور تنگ نظریات کی تائید کرسکیں۔
آندرے مااوردا اسے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ''ہر وہ چیز جو ہماری ذاتی خواہشوں اور آرزوؤں سے ہم آہنگ ہو، ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے برعکس ہو وہ ہمارے غصے کی آتش کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے''۔ اب اس کے بعد یہ بتانے کی قطعاً کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ ہمارے حکومتی اراکین اتنے طیش اور غصے میں کیوں ہیں۔
کیونکہ آپ نتیجے پر ہم سے پہلے ہی پہنچ چکے ہوں گے۔ بات بالکل سیدھی سادی سی ہے کہ ان کی ذاتی خواہشات اور آرزوئیں کچھ اور ہیں اور زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ وہ چاہ کچھ اور رہے ہیں اور ہو کچھ اور رہا ہے، اور ان کے غصے میں شدت اس لیے بھی آتی جارہی ہے کہ جو کچھ ان سے ہوچکا ہے اس پر کسی صورت قناعت کرنے پر تیار نہیں ہیں، وہ سب کچھ تباہ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں، لیکن اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ جب سب کچھ انسان کی خواہشوں اور آرزوؤں کے خلاف ہورہا ہوتا ہے اور اس کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی بات نہیں بن پارہی ہوتی ہے تو انسان شدید جھنجلاہٹ اور پریشانیوں کے نرغے میں آہی جاتا ہے اور یہ وہ موڑ ہوتا ہے جہاں انسان غلطیوں پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ جیسے جیسے اس سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی جاتی ہیں اس کی جھنجلاہٹ اور پریشانیاں اور بڑھتی جاتی ہیں۔
امریکا کے شہرہ آفاق میو بھائیوں نے اعلان کیا تھا کہ ''ہمارے اسپتالوں کے نصف سے زیادہ بستر اعصابی مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن پوسٹ مارٹم کرتے وقت جب کسی طاقتور خوردبین کی مدد سے ان لوگوں کے اعصاب کا معائنہ کیا جاتا ہے تو اکثر حالات میں ان کے اعصاب اتنے ہی صحت مند اور تندرست نظر آتے ہیں جس قدر کسی پہلوان کے۔ ان کے ''اعصابی عوارض'' کی علت ان کے اعصاب کا جسمانی انحطاط نہیں ہوتا بلکہ مایوسی، ناکامی، شکست، ہار، فکر، رنج، غم، خوف اور ڈر کے جذبات ہوتے ہیں''۔ افلاطون کہتا ہے ''طبیبوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ذہن کی طرف توجہ دیے بغیر جسم کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسم اور دماغ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے ساتھ علیحدہ علیحدہ سلوک کیا جاسکتا ہے''۔
پریشانیوں اور تفکرات کے متعلق ڈاکٹر کارل منینگر نے ایک شاندار کتاب لکھی ہے جس کا نام ''انسان اپنادشمن آپ ہے''۔ وہ اپنی کتاب میں ان حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کرتے ہیں کہ جب آپ مہلک جذبات کو اپنی زندگی پر غالب آنے دیتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے ساتھ کیا دشمنی برت رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جو جذبات آپ کے خلاف کارفرما ہیں آپ ان کا خاتمہ کر ڈالیں تو آپ اس کتاب کو ضرور پڑھ لیں۔ آپ اس بات کو ہمیشہ ضرور یاد رکھیں جو ولیم جیمز لکھتا ہے کہ خدا ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی معاف نہیں کرتا۔
یہ ایک بوکھلا دینے والی اور تقریباً ناقابل یقین حقیقت ہے کہ بیماریوں سے ہر سال اتنے امریکی نہیں مرتے جس قدر کہ وہ خودکشی سے مرتے ہیں۔ کیوں؟ اس کا جواب ہے پریشانیاں اور الجھنیں۔ کیونکہ پریشانیوں اور الجھنیں قطرہ قطرہ آپ کے اوپر پانی ٹپکنے کے مانند ہوتی ہیں۔ پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خودکشی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی جہاز ڈوب جائے تو کوئی اسے واپس نہیں لاسکتا، اگر یہ ڈوب رہا ہے تو اسے بچایا نہیں جاسکتا۔ ہمیں ماضی کے متعلق پریشان ہونے کے بجائے مستقبل کے مسائل کے متعلق سوچنے پر اپنا سارا وقت صرف کرنا چاہیے۔ دیگر صورت میں پھر آپ کو اپنا زیادہ وقت اسپتالوں میں ہی گزارنا پڑے گا۔