ذرا سوچئے تو
یہ کون سی طاقتیں ہیں جو ایک وعظ دینے والے شخص کے ماضی کو بنیاد بنا کر اسے پھانسی کے پھندے تک لے کر جانا چاہتی ہیں؟
شام میں ہونے والی خونریزیاں بڑھتی جا رہی ہیں حکومت اور باغیوں کے درمیان جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، حال ہی میں بحرین میں بھی ایک غوغا اٹھا تھا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مسلم ممالک میں دھیرے دھیرے کچھ پکایا جا رہا ہے جس کی آنچ کبھی تیز تو کبھی دھیمی ہو جاتی ہے، عراق کی کہانی ابھی پرانی نہیں ہوئی کہ ایران کی شروع ہو گئی اور اب بنگلہ دیش بھی اسی فہرست میں شریک ہو گیا، اچھا بھلا پر سکون ملک ۔۔۔۔نہ کوئی شور نہ ہنگامہ پھر اچانک حکومت نے اپنی مخالف جماعتوں سے بدلے لینے شروع کر دیے، چالیس سال پرانی راکھ کو کریدا جا رہا ہے کہ جس کے کردار بھی اب منطقی طور پر اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہیں، پھر دلاور سعیدی کو عمر کے اس حصے میں پھانسی کی سزا دینے کی کیا سوجھی؟
یہ کون سی طاقتیں ہیں جو ایک وعظ دینے والے شخص کے ماضی کو بنیاد بنا کر اسے پھانسی کے پھندے تک لے کر جانا چاہتی ہیں؟ دوسرے لفظوں میں جماعت اسلامی سے مخالفت لیکن کھلے لفظوں میں یہ کہا نہیں جا رہا اور الزام چالیس برس پہلے پاکستان کی حمایت کا معاملہ جوڑ کر دھکیلا جا رہا ہے۔ حسینہ واجد کے والد محترم پہلے ہی اسی عوام کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے جس عوام نے دلاور سعیدی کے پھانسی پر پہنچنے کے لیے احتجاج کیے، ریلیاں نکالیں، عوام تو ایک ہجوم ہے، ایک جوش ہے جذبہ ہے، جسے ٹھنڈا کرنا اتنا آسان نہیں، پھر وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ الیکشن کی بساط ان کے تختے کو پلٹ بھی سکتی ہے اور اگر اس عوام نے انھیں ایک مذہبی وعظ کرنے والے دلاور سعیدی کے پھانسی کے جرم میں ان کے والد محترم کی طرح انجام تک پہنچا دیا پھر وہ کیا کریں گی؟ دراصل اس کہانی کے پیچھے کوئی اور کہانی ہے، ایک بڑی مضبوط طاقتور کہانی جس کے تانے بانے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور حسینہ واجد اس طاقت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گئی ہیں۔
دنیا کے حالات و واقعات پر اگر نظر ڈالیں تو دو قوتیں واضح طور پر نظر آتی ہیں جو ملکوں کی حد سے نکل کر لوگوں کے ذہن و شعور پر حکمرانی کر رہی ہیں اس قوت کا نام مذہب بن گیا ہے جو پہلے اتنا کھلا نہ تھا لیکن اب خاصا نمایاں ہو چکا ہے، مذہب اسلام انسانوں سے نفرت کرنے کا درس ہرگز نہیں دیتا، وہ دہشت گردی، جنگ و جدل کا سبق نہیں دیتا بلکہ انسانوں کو اللہ کے بنائے اصولوں کے تحت زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے اس کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ اضافہ خوف بن کر اس کے مخالفین کے ذہن پر سوار ہو چکا ہے۔ مثلاً فرانس کی مثال لیجیے، جہاں اسلام ایک مقبول مذہب بنتا جا رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال فرانس میں دو سو کے قریب باشندے اسلام قبول کر رہے ہیں، امریکی جریدے کی اس رپورٹ کے مطابق فرانس کی وزارت داخلہ کی جانب سے مسلمان اسکالرز کو ملک سے بے دخل کرنے کا اعلان بھی فرانس میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا خوف ہے جو وہاں کے باشندوں کو اس جانب راغب کر رہا ہے، ہر مہینے سولہ سے اٹھارہ فرانسیسی باشندے اپنا نام تبدیل کر کے اسلامی نام رکھتے ہیں اس طرح فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی وجہ سے اسلام ایک بڑا دین بن چکا ہے۔
ہم بحیثیت پاکستانی قوم کے بہت ماڈرن ہو گئے ہیں ہمارے لباس، ہمارے اطوار بھی ماڈرن ہو گئے ہیں، تیزی سے بدلتی اس دنیا کو، جو اب گلوبل ولیج بن چکی ہے، ایسا ہو جانا ایک عام سی بات ہے، لیکن ہمارے خیالات و روایات کو اس حد تک ماڈرن بنانا کہ وہ اپنے مذہب سے صرف نام کی حد تک جڑے رہیں ممکن نہیں، کیونکہ پاکستان میں مصطفی کمال اتا ترک کی طرح کا انقلاب لانا اتنا آسان نہیں، لیکن جس طرح سے دوسری طاقت اپنے آپ کو دنیا پر حاوی ہونے کے لیے جو حربے اختیار کر رہی ہے اس حقیقت سے بھی وہ منہ نہیں موڑ سکتی، فیس بک پر اب کیا کیا، کہاں کہاں سے پوسٹ کیا جاتا ہے، کیا یہ تبلیغ کے زمرے میں نہیں آتا؟
انٹرنیٹ نے جہاں دنیا کو مختصر کر دیا ہے وہیں اس سے بڑی برائیاں بھی جنم لے رہی ہیں، صفحہ کو لائک کر کے کلک کر دینا بعض اوقات گناہ کے زمرے میں بھی آ جاتا ہے جس کا ہمیں احساس نہیں رہتا یا صرف تجسس کی حد میں رہ کر بھی دیکھنا کیا اس صفحے کی مقبولیت میں اضافہ نہیں کرتا، الگ بات ہے کہ اس تمام سلسلے میں کتنی کامیابی ملتی ہے یا نہیں کون جانے؟ لیکن کوشش ہے جو چلتی رہتی ہے۔ زکریا پطرس عیسائی مشنریوں کے معروف مبلغ ہیں۔ ایک ویب سائٹ پر ان کا انٹرویو شایع ہوا، انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ انٹرنیٹ کو کس طرح عیسائیت کی تبلیغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو مواقع انھیں ماضی میں حاصل نہ تھے اب انھیں انٹرنیٹ کی وجہ سے حاصل ہیں جس کی بدولت وہ ایسے ایسے مقامات پر بھی داخل ہو گئے جہاں ان کے داخلے کا تصور نہ تھا، اس جدید ٹیکنالوجی کو انھوں نے ربّ کا احسان بتایا، ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پہلے کئی بار
سعودی عرب تبلیغ کے لیے سفر کرنے کا ارادہ کیا۔ پاسپورٹ بھی بنوایا، پاسپورٹ پر لگی میری تصویر مذہبی ٹوپی کے بغیر تھی، میرے نام سے پہلے میرا مذہبی لقب بھی درج نہ تھا لیکن پھر بھی سفر ممکن نہ ہو سکا، لیکن پال ٹاک انٹرنیٹ کی جدید سہولت کی وجہ سے مکہ اور مدینہ کے قلب میں داخل ہو گئے، ان کا کہنا تھا کہ وہ پال ٹاک کے ذریعے مکہ کی فیصل یونیورسٹی کے استاد سے دو دن تک گفتگو کرتے رہے پال ٹاک کے ذریعے مکہ مدینے میں داخل ہونے کو وہ خدا کی جانب سے اشارہ سمجھتے ہیں کہ انھیں یہ ضرور استعمال کرنا چاہیے، زکریا پطرس کے اس انٹرویو کے اقتباسات یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ اپنے عمل میں کتنے متحرک ہیں صرف یہی نہیں اسلامی انسائیکلو پیڈیا جو مختلف اسلامی افکار پر مبنی ہیں ان میں عیسائی افکار شامل کیے جاتے ہیں۔
ایک عام مسلمان ان کتب کا مطالعہ کر کے ان افکار کو بھی اسلام کا حصہ سمجھتا ہے گو اس طرح وہ اسلام کے دائرے سے تو خارج نہیں ہوتا لیکن اسلام کے بارے میں اس کی رائے دوسرے انداز میں بدل جاتی ہے اس کی مثالیں وہ احادیث بھی ہیں جنھیں بہت سے لوگ سوچے سمجھے بغیر فیس بک پر لائک کر دیتے ہیں جب کہ وہ احادیث مستند نہیں ہوتیں، دنیا بھر میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے سب سے زیادہ کتابیں شایع کی جاتی ہیں، صرف 2002ء میں عیسائیت کے موضوع پر ساڑھے پانچ ملین کتابیں شایع ہوئیں اور بائبل کی 65 ملین نسخے تقسیم کیے گئے اس کے علاوہ بائبل کی کیسٹ کی تقسیم بھی اسی عمل کا حصہ ہے جب کہ ٹی وی چینل کی تعداد جو ہفتے میں 1500 گھنٹے عیسائت کا پرچار کرتے ہیں ان کی تعداد2008ء تک 14 تھی۔
ہم اپنے ذہنوں کو مذہبی طور پر وسعت دینے کا ایشو بڑے زور و شور سے اٹھاتے ہیں یقینا اللہ کو اپنی عبادت کے لیے ہماری ضرورت نہیں بلکہ ہمیں اس کی ہر دم ضرورت رہتی ہے لیکن پھر بھی اس کے بندے اس کی وحدانیت سے منکر ہو جاتے ہیں اور اس کی راہ پر چلنے والوں کے لیے کیسے کیسے جال بنتے ہیں ذرا سوچیے!