عدلیہ ہمارا آخری سہارا
عدلیہ اور پارلیمنٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور عدلیہ اس پر عملدرآمد کی ذمے دار ہے۔
MIAMI:
پانا مہ لیکس کے جھٹکے ابھی جاری ہیں لگتا یہی ہے کہ ہمارے سیاسی ناخداؤں کی آزمائش کے لیے یہ جھٹکے ابھی جاری رہیں گے کہ ان کی کوئی کل سیدھی نہیں اس کے باوجود وہ اس حقیقت کو ماننے کو تیار نہیں اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو مسلسل اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔
میاں نواز شریف نے اپنے خلاف پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد اس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی جو کہ حسب توقع رد کر دی گئی کیونکہ پانامہ کا پہلا فیصلہ ہی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر دیا تھا اس لیے اس بات کے امکان انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے کہ میاں نواز شریف کی نظر ثانی کی اپیل پر فیصلے میں ردو بدل ہو جاتا۔
میاں نواز شریف نے بھی شاید یہ اپیل اتمام حجت کے طور پر کی تھی اور اب تازہ فیصلے کے بعد ایک بار پھر عدلیہ سے شکایات کے انبار لگا دیے ہیں اس سے پہلے بھی وہ مسلسل مجھے کیوں نکالا کی گردان کرتے رہے۔ انھوں نے عدلیہ کو مسلسل ہدف تنقید بنایا ہوا ہے لیکن آفرین ہے اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان پرکہ انھوں نے ابھی تک ان کی تقریروں اور بیان بازیوں کا نوٹس نہیں لیا ورنہ اب تک ان کو توہین عدالت میں طلب بھی کیا جاسکتا تھا اور اس کی سزا بھی سنائی جاسکتی تھی لیکن عدلیہ شاید کچھ اور ہی سوچ رہی ہے جس کے بارے میں تبصرہ کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی میرا صحافتی تجربہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ عدلیہ اور اس کے فیصلوں کے متعلق تبصرہ کروں۔
پوری قوم کے دانشوروں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ملک کو زندہ رکھنے اور اس میں استحکام لانے کے دو بنیادی ادارے ہیں جو کہ لازم و ملزوم ہیں ان میں ایک تو مکمل طور پر آزاد الیکشن کمیشن اور دوسرا اہم ادارہ عدلیہ ہے۔ اگر یہ دونوں ادارے آزاد ہوں اور ہر دباؤ سے محفوظ بھی ہوں تو ان کے اندر اتنی طاقت پیدا کر دی جائے کہ یہ اپنی آزادی کا تحفظ کر سکیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہمارا ملک ایک آزاد خود مختار اور باوقارقوم کا ملک ہے۔
کسی ووٹر کو اگر یہ یقین ہو جائے کہ اس کا ووٹ ضایع نہیں جائے گا اس کو کسی صندوقچی میں بدلہ نہیں جائے گا اور دوسرا یہ یقین بھی کہ جب وہ عدالت کے دروازے پر دستک دے گا تو اس کی سنی جائے گی اور عدلیہ اس کے حقوق کا تحفظ کرے گی اور اسے اس کا حق دلا کر رہے گی تو جس قوم کو یہ نعمتیں میسر ہوں اس کی طاقت کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔جد امجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ معاشرہ کفر پر تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔
اسی انصاف کا علم ملک میں عدلیہ نے اُٹھایا ہوا ہے اور عدلیہ کا کردار یوں بھی برتر ہو جاتا ہے کہ عوام کے پاس دنیا میں انصاف کا واحد سہارا عدلیہ ہی ہوتی ہے اس کی شکایات عدلیہ ہی سن سکتی ہے گویا ایک عام شہری کا خدا کی زمین پر انصاف کا واحد مقام اور سہارا عدالت کا کٹہرا ہی ہے۔ اسی انصاف کے لیے پیغمبر مبعوث ہوئے اور انصاف کا وعدہ خدا نے اپنے بندوں سے کیا ہوا ہے۔ قیامت کے روز بھی سزا و جزا کے لیے عدالت لگے گی اور گواہیوں سے فیصلہ ہو گا ورنہ اللہ تبارک تعالیٰ جو کہ دلوں کے بھید تک جانتے ہیں ان کو گواہیوں کی کیا ضرورت ہے ۔ ہمارے نبی ؑ کا فرمان ہے کہ تم سے پچھلی قومیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ ان کے ہاں بڑوں کے لیے الگ اور چھوٹوں کے لیے الگ قانون اور عدالتیں تھیں ۔
ہمارے ہاں اگر ایک عام شہری کو کسی بالادست کی جانب سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کا فوری ردعمل یہ ہوتا ہے کہ میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا کیونکہ وہ اس دنیا میں اپنے تحفظ کے لیے عدالت کو ہی آخری سہارا سمجھتا ہے۔ اگر عدالت سے اس کو انصاف نہ ملے تو وہ کہاں جائے کیا کسی ظالم حکمران کے دروازے پر دستک دے یا اپنی جان سے ہی چلا جائے جو کہ عموماً ہم دیکھتے آرہے ہیں ۔
عدلیہ اور پارلیمنٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور عدلیہ اس پر عملدرآمد کی ذمے دار ہے۔ یہ ذمے داری پارلیمنٹ کی ہے کہ وہ ایسے قانون وضع کرے جو کہ عوام کے مفاد میں ہوں اور اگر کسی قومی مسئلے پر کوئی اختلاف بھی ہو جائے تو ا س کا حل پارلیمان سے ہی نکلنا چاہیے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے مفاد نکالنے کے لیے قانون کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب یہ قانون ان کے گلے کا پھندا بن جائے تو ا سکو ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ غیر جمہوری رویہ کی عکاسی ہوتی ہے ۔
ہم اگر اپنی تاریخ پر نظردوڑائیں تو ٹھنڈی آہ ہی نکل آتی ہے کہ کاش ہماری عدلیہ کو فلاں موقع پر نظریہ ضرورت لاحق نہ ہو جاتا تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی اس سب کی خواہش اس لیے کی جاتی ہے کہ ہماری آخری پناہ عدلیہ ہی ہے جو ماضی حال اور مستقبل میں ہماری قومی پناہ گاہ تھی اور رہے گی، انصاف کے بغیر ہم کہیں نہیں جا سکتے اور انصاف کے حصول میں آئین و قانون کی پاسداری کو مقدم رکھا جائے تو کسی کو عدلیہ پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی کسی کی ایسی جرأت ہو سکتی ہے قومی زندگی میں حالات ایسے پیدا کیے جائیں کہ عدالتوں کے سامنے گزرتے ہوئے بھی نگاہیں عزت و احترام سے جھک جائیں ۔
پچھلے کچھ سالوں سے عدلیہ نے جس طرح کی پختگی کے ساتھ فیصلے کیے ہیں ا س سے عدلیہ کے ساتھ عوام کی توقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے عدلیہ نے بھی کسی نظریہ ضرورت کے بغیر اپنے فیصلے صادر کیے ہیں جن کو عوام نے پذیرائی بخشی ہے، ہاں جن کے خلاف فیصلے ہوئے ہیں انکو یہ قبول نہیں تو نہ ہوں عوام نے انکو قبول بھی کیا ہے اور عدلیہ کو اپنا آخری سہارا سمجھتے ہوئے اس کے فیصلوں کا پہرہ بھی دے رہے ہیں جو کہ ہمارے سیاسی لیڈروں کی نظر میں کھٹک رہے ہیں۔