جعل سازوں نے سی پیک کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا

 سی پیک کمپنی کے نام پر ملزموں نے رینٹ اے کار والوں سے 85 گاڑیاں ہتھیا لیں


Raheel Salman November 12, 2017
 قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بڑی کارروائی، دو ملزموں کو گرفتار کرکے54گاڑیاں برآمد کر لیں. فوٹو: فائل

سی پیک بلاشبہ وطن عزیز کی ترقی اور نتیجتاً استحکام میں بہت معاون ثابت ہو گا لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس منصوبے کے نام پر جعل ساز بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔

کار ڈیلروں کو ایک گروہ نے کروڑوں روپے کا چونا لگا دیا اور سی پیک کے نام پر ان کی درجنوں گاڑیاں ہتھیالیں، تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی اور بروقت کارروائی کر کے گروہ کے دو کارندوں کو گرفتار کر کے اب تک 54 گاڑیاں بھی برآمد کرلیں۔ یہ ملزمان سی پیک کمپنی کے نام پر رینٹ اے کار سے کاریں مہنگے داموں کرایے پر لے کر سستے داموں فروخت کردیتے تھے، ملزمان نے چھ ماہ میں 85 کاریں دھوکہ دہی کے ذریعے ہڑپ کیں۔

اس سلسلے میں بریگیڈیئر سچل سیکٹر کمانڈر نسیم پرویز نے ایس ایس پی سینٹرل عرفان بلوچ کے ہمراہ سائٹ اسٹیڈیم میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ رینجرز نے ناظم آباد کے علاقے میں اسنیپ چیکنگ کے دوران کرولا کار میں سوار دو افراد قاضی منیب احمد اور شیراز کو روک کر ان کی کار کی تلاشی لی تو وہاں سے غیر قانونی دو ٹی ٹی پسٹل برآمد ہوئے، کار کی رجسٹریشن بک کی ویریفکیشن کرائی تو معلوم ہوا کہ کار ملزمان نے دھوکہ دہی کے ذریعے رینٹ اے کار سے حاصل کی ہے، جس پر رینجرز اور پولیس نے مشترکہ طور پر ملزمان سے تفتیش کی تو ملزمان نے اعتراف کیا کہ وہ رینٹ اے کار اور سادہ لوح افراد کو زائد رقم کا لالچ دے کر ان سے نئی ماڈل کی کاریں اور جیپ فی کس ایک لاکھ دس ہزار روپے حاصل کرتے ہیں.

ملزمان کاریں اور جیپ حاصل کرنے کے بعد کار رجسٹریشن بک کے رننگ پیپر پر پندرہ لاکھ روپے کی کرولا کار دس سے بارہ لاکھ روپے میں اندرون سندھ فروخت کردیتے تھے۔ اس گروہ کے کارندے کاریں حاصل کرتے وقت متاثرہ شخص کو یقین دلاتے تھے کہ ان کی کاریں گوادر میں سی پیک کمپنی میں چلائیں گے اور کرایہ بھی زیادہ دیا جاتا تھا۔

دوران تفتیش دونوں ملزمان کے 16 دوستوں کو حراست میں لیا گیا، تاہم ان میں سے 10 افراد کو تفتیش کے دوران بے گناہ ثابت ہونے پر رہا کردیا گیا جبکہ باقی 6 افراد سے تفتیش جاری ہے۔ ملزمان کی نشاندہی پر کراچی ، سکھر ، دادو ، لاڑکانہ ، حیدر آباد ، نواب شاہ اور دیگر شہروں میں چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم ملزمان کے خلاف کراچی کے مختلف تھانوں میں 85 مقدمات بھی درج کر لئے گئے ہیں۔

اس ضمن میں رینٹ اے کار کے مالکان کا کہنا ہے کہ ان کا رینٹ اے کار کا کاروبار 10 سے 15 سال سے پرانا ہے، وہ یہ کاروبار سہراب گوٹھ ، پاپوش نگر ، پرانی سبزی منڈی کریم آباد ، لیاقت آباد اور دیگر علاقوں میں چلا رہے ہیں، ملزمان منیب اور شیراز ان کے پاس آئے اور کہا کہ گوادر میں سی پیک کمپنی کا منصوبہ چل رہا ہے، جس کے لیے انھیں رینٹ پر کاریں چاہئیں، فی کس کار پر پچاس سے ساٹھ ہزار روپے زائد رقم ادا کریں گے، دونوں ملزمان باقاعدہ ان سے ایگریمنٹ اور نادرا شناختی کارڈ دے کر کار لیتے تھے، کار لیتے وقت ایک ماہ کا کرایہ بھی ادا کرتے تھے اور جب دوسرا مہینہ آتا تو ملزمان ٹال مٹول سے کام لیتے تھے۔ ملزمان کے خلاف متعلقہ تھانوں میں درخواستیں اور مقدمات درج کرائے مگر متعلقہ تھانوں نے کوئی کارروائی نہیں کی، ہم رینجرز اور ایس ایس پی سینٹرل کے شکر گزار ہیں جنھوں نے ہمیں کاریں واپس دلائی۔

اطلاعات کے مطابق کراچی میںگاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے والے بین الصوبائی کارلفٹرز کے 22 گروپ فعال ہیں، جو ٹریکر اورسینسر لاک ناکارہ کرنے کی بھی مہارت رکھتے ہے۔ یہ گروہ لاکھوں روپے مالیت کی گاڑیاں چھیننے یا چوری کرکے سندھ اور بلوچستان منتقل کرکے کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرنے کا منظم کاروبار سالوں سے کرتے آرہے ہیں، جن کی متعلقہ پولیس کے خصوصی سیل (اینٹی کار لفٹنگ سیل )کے افسران اور ہائی ویز پر موجود چیک پوسٹوں پر تعینات کالی بھیڑوں سے بھی ملی بھگت رہتی ہے،گاڑیاں چھیننے و چوری ہونے سے لے کر مطلوبہ مقام پر پہنچانے تک گروہ کے3 کارندے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی جانب سے جاری آپریشن کے باوجود کار لفٹرز شہر قائد کے مختلف علاقوں سے یومیہ 10سے 15اور اس سے زائد گاڑیاں چھین یا چوری کرلیتے ہیں۔ علاقہ پولیس واردات کی اطلاع ملتے ہی گاڑی کے مالک سے رابطہ کر کے اپنے سرقہ رجسٹر میں اس کار کا ریکارڈ اندراج کرلیتی ہے اور ایک سے دو بار کنٹرول پر مسیج پاس کرنے کے چند روز بعد ایف آئی آر درج کر کے اینٹی کارلفٹنگ سیل کے سپرد کردیتی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ کارلفٹرز بھی اب جدید ڈیوائس کے ذریعے ٹریکر نصب اور سینسر لاک والی گاڑی باآسانی چوری کرلیتے ہیں اور مالک کو خبر تک نہیں ہوتی جبکہ دوسری جانب ٹریکر نصب ہونے والی گاڑیاں جو اسلحے کے زور پر چھینی جاتی ہے، ان کے ٹریکر نظام کو کارلفٹرز فیل کرنے کی بھی خوب مہارت رکھتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کارلفٹرز نے بھی جدید دور کے ساتھ ایڈوانس ٹیکنالوجی استعمال کرکے گاڑیوں کی حفاظتی طریقے کو ناکارہ بنادیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کارلفٹرز کی اس مہارت پر گاڑیاں بنانے والی معروف کمپنیوں کے انجینئر بھی لاک کے معاملے پر ناکام نظر آتے ہیں۔

ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ شہر قائد میں سرگرم بین الصوبائی کارلفٹرز گروپس کے ارکان کا آبائی تعلق اندرون سندھ اور بلوچستان کے علاقوں سے ہے، ان کارندوں میں پشتون، سندھی، پنجابی، بلوچ اور اردو بولنے والے بھی شامل ہے ، پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ایک کار لفٹرز ایک ماہ کے دوران ایک اندازے کے مطابق 20 سے 25گاڑیاں چھین لیتا یا چوری کرتا ہے۔

انھوں نے بتایاکہ شہر سے گاڑی چھیننے یا چوری کے طریقہ کار میں گروہ کے تین کارندوں کا کام اہم ہوتا ہے ، پہلا جو گاڑی چھینتا یا چوری کرتا ہے، دوسرا چھینی و چوری کی گاڑیوں کو شہر میں کسی مقام پر ڈمپ کرتا ہے اور تیسرا وہ جو کراچی سے کچے کے راستے اندرون سندھ اور بلوچستان گاڑیاں پہنچاتا ہے۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی ماڈل کی گاڑی اگر 20لاکھ روپے مالیت کی ہے تو وہ اس گاڑی کے ایک لاکھ 40ہزار سے ایک لاکھ 60ہزار تک کے دام لگاتے ہے، شہر سے چھینی یا چوری ہونے والی گاڑیاں سندھ اور بلوچستان میں کھلے عام جعلی نمبر پلیٹوں پر چل رہی ہیں، جس کی اطلاع ( اے سی ایل سی) کے پاس ہوتی ہے لیکن پولیس کے پاس ایسے اختیارات نہیں کہ وہ سندھ اور بلوچستان پولیس سے رابطہ کرکے گاڑیاں برآمد کرلیں.

پولیس افسر کا کہنا ہے کہ دوسرے شہر جاکر گاڑی اپنے قبضے میں لینے کے لیے وزارات داخلہ سے این او سی و دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے پولیس افسر شہر سے باہر جانے والی مسروقہ گاڑیوں کو برآمد کرنے سے گریز کرتا ہے اور دوسری جانب افسر کو اپنی جان کا خطرہ بھی ہوتا ہے، پولیس افسران کا کہنا ہے کہ رواں سال شہر کے مختلف مقامات سے کروڑوں مالیت کی 1400سے زائد گاڑیاںچھینی یاچوری ہوئیں لیکن چند ہی برآمد ہوسکیں۔

دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو بھی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کار لفٹر گروہوں پر بروقت اور آسانی کے ساتھ قابو پایا جاسکے۔ دوسرا پولیس کی کالی بھیڑوں کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر یہ جعلسازی کرنا ممکن نہیں ہے، اس سلسلے میں انتہائی سخت اقدامات کرتے ہوئے قانون سازی کی بھی ضرورت ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ آٹو انڈسٹری کو بھی اس بات پر ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ گاڑی کی سیفٹی مزید سخت بناتے ہوئے کچھ نئی ایجادات اور نئے اقدامات کریں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں