تفریح گاہیں
تفریح و سیاحت کے حوالے سے ہماری وزارت اور ان کے محکموں کو اس طرف خاص توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
مسائل اور ذہنی تناؤ کے اس دور میں تفریح گاہیں انسان کو کچھ دیر کے لیے ایک اچھے ماحول میں لے جاتی ہیں، جس سے ذہن بہت حد تک پرسکون ہوجاتا ہے لیکن اکثر وہاں بھی ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ایک دوست پروفیسر حال ہی میں اپنی فیملی کے ساتھ آزاد کشمیر، اسلام آباد اور لاہور تفریح کی غرض سے گئے، اس سفر کی کچھ کہانی انھوں نے ہمیں بھی سنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں انھیں مہمان نواز لوگ تو ملے ہی مگر یہاں ایک خاص بات یہ تھی کہ کسی بھی تفریح مقام پر چائے، پانی اور دیگر کھانے پینے کے سامان پر ان سے زائد قیمت وصول نہیں کی گئی، یعنی جو پانی کی بوتل یا چپس بازار میں جس قیمت پر دستیاب تھی اسی قیمت پر تفریحی مقام پر بھی دستیاب تھی اور راستے میں بازار یا کسی تفریح گاہ پر جانے کے لیے ان سے کسی نے زائد کرایہ بھی طلب نہیں کیا، بلکہ تمام لوگ انتہائی محبت سے ملتے رہے حالانکہ ان سے جان پہچان نہیں تھی۔
پروفیسر صاحب آزاد کشمیر کے لوگوں کی اس محبت سے بہت متاثر اور خوش ہوئے لیکن بقول ان کے جب وہ اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد دیکھنے گئے تو انھیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ مسجد کے اندر جانے والوں سے جوتے باہر اتار کے رکھنے کے لیے ایک اسٹال بنا ہوا تھا اور یہاں فی جوڑی بیس روپے لیے جارہے تھے، ایک فیملی جس میں مرد، خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی جب انھوں نے مسجد کے اندر جانے کے لیے اپنے جوتے، چپل جمع کرائے تو ان کا بل کئی سو روپے بن گیا، جس پر انھوں نے کچھ شور بھی کیا مگر ''نقار خانے میں طوطی کی آواز'' کون سنتا ہے؟
اسی حوالے سے پروفیسر صاحب نے بتایا کہ وہ جب بادشاہی مسجد گئے تو وہاں انھیں جوتے، چپل رکھنے کے لیے ایک پلاسٹک کی ٹوکری دی گئی جس میں ان کے ساتھ موجود تمام لوگوں نے جوتے رکھ دیے، رش ہونے کے باعث انھوں نے اس خدمت کے عوض مطلوبہ رقم نہیں پوچھی، لیکن جب واپس آکر جوتوں کی ٹوکری حاصل کی تو ان سے تین سو روپے ادا کرنے کو کہا گیا، پروفیسر صاحب نے کہا کہ فی جوڑی بیس روپے بھی لگائیں تو تب بھی تین سو روپے نہیں بنتے، آپ کس حساب سے تین سو روپے مانگ رہے ہیں؟ اس پر ان صاحب نے کہا کہ ''ہم نے آپ کو ٹوکری دی تھی اور ٹوکری کے تین سو روپے ہی ہوتے ہیں''۔
پروفیسر صاحب نے اس کے بعد شاہی قلعہ میں ہونے والی اس قسم کی کچھ باتیں بتائیں اور کہا کہ اپنے کالم میں تفریح گاہوں کے ان مسائل پر بھی کچھ لکھیں۔ ان کے مطابق شاہی قلعہ کے داخلی دروازے سے کافی دور پہلے ہی انھیں گاڑی سے اترنا پڑا کیونکہ سیکیورٹی کے حوالے سے راستہ بہت پہلے ہی گاڑیوں کے لیے بند کردیا گیا تھا۔
جب وہ قلعے کے مرکزی دروازہ پر پہنچے تو داخلے کے لیے ٹکٹ خریدتے ہی ایک صاحب نے مزید ٹکٹ خریدنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ بھائی جان! اس گاڑی میں بیٹھ جائیں ہم آپ کو قلعہ کے اندر تک سیر کرائیں گئے اور جب آپ اندر گھوم پھر لیں تو واپس بھی یہیں چھوڑ دیں گے۔ پروفیسر نے یہ سوچتے ہوئے کہ قلعہ بہت بڑا ہوگا پہلے ہی کافی پیدل چل چکے ہیں لہٰذا بہتر ہے کہ اس چھوٹی سے خوبصورت آرام دہ گاڑی میں سوار ہو لیا جائے، 800 روپے کے ٹکٹ خرید لیے۔ جب پورا قلعہ دیکھ کر واپس آئے تو انھیں اندازہ ہوا کہ قلعہ کے اندر جانے کا راستہ تو محض دو سے چار منٹ کا ہے۔ گاڑی میں سفر کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
گاڑی کے ٹکٹ تو باہر سے آئے ہوئے نئے لوگ خرید رہے ہیں جنھیں کچھ علم نہیں، گاڑی والا آپ کو قلعہ میں مغرب کے داخلی راستے سے لے جاکر شمال کی جانب اتار دیتا ہے حالانکہ جب آپ قلعہ دیکھنے جائیں گے تو تب بھی شمال کی جانب جاکر واپس مغرب میں مرکزی دروازے ہی کی جانب آنا ہوگا، یعنی آپ قلعہ کو شمال کی جانب سے دیکھنا شروع کریں یا مغرب میں داخلی راستے کی جانب سے دیکھنا شروع کریں، قلعہ تو آپ نے پیدل ہی گھوم پھر کر دیکھنا ہے۔ گاڑی تو محض نئے لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے رقم بٹورنے کا ایک عمل ہے۔
پروفیسر صاحب نے شاہی قلعہ میں فوٹوگرافروں کی جانب سے رقم بٹورنے کا بھی دلچسپ واقعہ بتایا۔ انھوں نے بتایا کہ آپ جیسے ہی قلعہ میں اندر داخل ہوتے ہیں کئی فوٹوگرافر صرف ساٹھ روپے میں آپ کی شاہی لباس میں تصویر بنانے کی آفر کرتے ہیں۔
پروفیسر نے بتایا کہ ایک فیملی نے جب تصویر بنوانے کی پیشکش قبول کرلی تو فوٹوگرافر نے نہایت تیزی سے تصاویر بنانا شروع کردیں، جب تصویر بنوانے والوں نے کہا کہ آپ ہماری صرف ایک ایک تصویر بنائیں تو فوٹوگرافر بولا، بھائی جان تصویر بنانے کے کوئی پیسے نہیں ہیں، آپ مجھے زیادہ تصاویر بنانے دیں، آخر میں جتنی آپ منتخب کریں گے صرف اتنے ہی پیسے لیے جائیں گے۔ اس کے بعد پچاس سے زائد تصاویر اس فوٹوگرافر نے بنادیں۔
دوسری طرف فوٹو سیشن سے فارغ ہوتے ہی شاہی کپڑے والے نے کہا، بھائی آپ کے دس لوگوں نے شاہی لباس پہن کر تصویر بنوائی ہے، لہٰذا پہلے ہمارے ہزار روپے دے دو، اور تصویر والے کو بعد میں دے دینا۔ یہ فیملی حیرت سے دیکھ رہی تھی کہ یہ ساٹھ روپے سے ہزار روپے الگ کیسے ہوگئے؟ تصویر والے نے بتایا کہ شاہی لباس والے کا کاروبار الگ ہے اور ہمارا الگ ہے۔
بہرحال بقول پروفیسر کے اس کے بعد ایک جگہ فوٹوگرافر نے کمپیوٹر پر اس فیملی کو بنائی ہوئی تصاویر دکھانا شروع کردیں اور کہا کہ جو تصویر آپ کو پسند آتی جائے اس پر 'یس' بولیں اور جو پسند نہ ہو اس پر 'نو' بولیں، یوں کمپیوٹر پر جلدی جلدی تصاویر دکھا کر اس فیملی سے 'یس' 'یس' کروالیا گیا اور پھر آخر میں انھیں بتایا کہ آپ نے تیس تصاویر پر 'یس' کہا ہے، اب ان تیس تصاویر کا پرنٹ نکل رہا ہے لہٰذا اب آپ ساٹھ روپے فی تصویر کے حساب سے ایک ہزار آٹھ سو روپے ادا کردیں، یوں اس فیملی کو جو صرف ساٹھ روپے میں تصویر بنانے کی آفر سمجھ کر خوش ہورہی تھی ان تصاویر کے دو سو کم تین ہزار روپے ادا کرنا پڑے۔
تفریح گاہوں پر اس قسم کی جعلسازی یا چیٹنگ کوئی انہونی بات نہیں، اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء کے زیادہ دام وصول کرنا اور صفائی کا انتظام نہ ہونا بھی ایک عام سی بات ہے۔ راقم کو یاد ہے کہ ایک مرتبہ کراچی کے ساحل پر ایک گھوڑے والے سے کہا کہ بابا جی ہمارے بچے گھوڑے پر سواری سے ڈر رہے ہیں لیکن وہ تصویر بنوانا چاہتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو یہاں کھڑے ہوکر اپنے کیمرے سے تصویر بنوالیں؟ اس پر بابا جی بولے تصویر کے پچاس روپے ہوں گے۔
ہم نے کہا آپ سواری کے بھی پچاس روپے لے رہے ہو اور صرف تصویر بنانے کی اجازت کے بھی پچاس روپے؟ خیر ہم نے اپنے ساتھ آئے ہوئے چار بچوں کی تصویر بنا ڈالی اور جب بابا جی کو پچاس روپے دیے تو وہ کہنے لگے، بیٹا آپ نے چار مرتبہ تصویر لی ہے، لہٰذا چار کے حساب سے دو سو روپے ادا کرو۔ ہم بابا کی چالاکی اور ہوشیاری یا درست الفاظ میں چالبازی پر سخت حیران تھے۔
بہرکیف ہمارا خیال ہے کہ تفریح گاہوں پر بیشتر جگہ ایسے ہی معاملات ہوتے ہیں، کہیں کوئی پانی کی ایک چھوٹی سی بوتل جس میں پینے کا پانی صرف ایک گلاس ہوتا ہے چالیس روپے کی دی جاتی ہے۔ کہیں نئے آنے والوں کو مختلف حربوں سے لوٹا جاتا ہے، کہیں شاہ فیصل اور بادشاہی مسجد جیسی جگہوں پر جوتے، چپل رکھنے پر دو تین سو روپے لے لیے جاتے ہیں۔ تفریح و سیاحت کے حوالے سے ہماری وزارت اور ان کے محکموں کو اس طرف خاص توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔