تندرستی ہزار نعمت ہے

پاکستان میں بہت سے لوگ اپنی کم علمی، لاپرواہی اور خوف کی وجہ سے کالے موتیے کا شکار ہوجاتے ہیں۔


Zamrad Naqvi November 13, 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

تندرستی ہزار نعمت ہے۔ یہ فقرہ ہمیں بچپن سے نصابوں میں پڑھایا اور روزمرہ میں بولا جاتا ہے۔ یعنی دنیا کی ہزار نعمتیں ایک طرف اور تندرستی ایک طرف اور اس تندرستی میں بھی سب سے اہم مقام ہماری زندگی میں بصارت کا ہے۔ فرض کریں ایک آدمی تندرست ہے لیکن وہ دیکھ نہیں سکتا تو اس کی تندرستی کس کام کی۔ دنیا اس کی اندھیر ہے۔

ہمارا بدن ایک مشین کی طرح ہے۔ اس مشین کی مدت عموماً 70-60 سے سو سال تک ہے۔ اگر اس مشین کی حفاظت نہیں کریں گے تو ابتدائی عمر میں ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہوجائیں گے۔ اس مشین کے اہم پروزوں یعنی دماغ، آنکھیں، دل، جگر، گردے اور پھیپھڑے وغیرہ کو قدرت نے ایک ڈھانچے میں محفوظ کردیا ہے۔ یہ ڈھانچہ ہڈیوں ،گوشت اور اس پر منڈھی کھال پر مشتمل ہے۔

انسانی دماغ جیسی نازک چیز کو قدرت نے مضبوط ہڈیوں کے خول میں محفوظ کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد آنکھیں آتیں ہیں جو ہڈیوں کے اندر اس طرح سے محفوظ ہیں کہ انھیں آسانی سے نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ ان آنکھوں کو سب سے بڑا خطرہ سفید موتیا سے ہے۔ سفید موتیا اس وقت اندھے پن کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں اس وقت 15 لاکھ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ 54 فیصد اندھے پن کی وجہ سفید موتیا ہے۔ سفید موتیے کا پھٹنا کالا موتیا کہلاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب سفید موتیا پک جاتا ہے۔ اس لیے اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ سفید موتیا پکے بلکہ ابتدا میں ہی آپریشن کرالینا چاہیے۔

پاکستان میں بہت سے لوگ اپنی کم علمی، لاپرواہی اور خوف کی وجہ سے کالے موتیے کا شکار ہوجاتے ہیں۔کالا موتیا اس وقت ہوتا ہے جب آنکھ کے اندر وہ ڈرین ناکارہ ہوجاتی ہے جو آنکھ کے اندر پانی جذب کرتی ہے۔ جب یہ پانی جذب نہیں ہوپاتا تو وہ اس نس کو کھا جاتا ہے جس سے انسان دیکھتا ہے۔ اس مرحلے پر انسان نابینا ہوجاتا ہے۔کالا موتیا بینائی کا خاموش قاتل ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ 80 فیصد اندھا پن قابل علاج ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر مرد و زن چالیس سال کی عمر کے بعد سال میں دو مرتبہ آنکھوں کا معائنہ کرائے۔ سفید موتیا کی اہم ترین وجہ شوگر، بلڈ پریشر، آنکھ کو چوٹ لگنا اور طاقت کی دواؤں کا استعمال ہے۔ ساٹھ سال کی عمر کے بعد کسی بھی شخص کو موتیا لاحق ہوسکتا ہے۔ سفید موتیے کی اہم ترین وجہ شوگر اور بلڈ پریشر ہے۔ جب کہ پاکستان کی ایک بڑی تعداد ان دونوں خوفناک امراض میں مبتلا ہے۔ جس میں ہر گزرتے دن تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

بچوں کو آنکھ کی بیماریوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ پیدائش کے وقت ان کی آنکھ کا معائنہ کرایا جائے اس کے بعد پانچواں، دسواں اور گیارواں سال اہم ہے۔ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ چالیس سال کی عمر میں اپنی آنکھوں کا لازمی چیک اپ کرائے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ غریب طبقات استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے اور خوش حال لوگ لاپرواہی کی وجہ سے آنکھوں کا معائنہ نہیں کراتے۔

شوگر کے مرض کی صورت میں سال میں دو مرتبہ اپنی آنکھیں چیک کرانی چاہئیں۔ پیدائشی بھینگے پن کا آپریشن کے ذریعے علاج 80 فیصد تک ممکن ہے لیکن اس کے لیے سب سے مناسب ابتدائی عمر ہے۔ آنکھوں کے آپریشن کے لیے فیکو جدید ترین ایجاد ہے جس میں لیزر کے ذریعے لینز ڈالے جاتے ہیں۔ اس میں ٹانکا بھی نہیں لگتا اور زخم بھی جلد بھر جاتا ہے۔ جب کہ پرانا طریقہ علاج تکلیف دہ اور زخم دیر میں بھرتا تھا۔

لینز مختلف اقسام کے ہیں، سستے ترین سے لے کر مہنگے ترین جن کی قیمت دو سو تین سو اور سات سو بھی ہے۔ لیکن یہ لینز بھی تین ہزار تک میں بک رہے ہیں جو غریبوں اور کم وسائل رکھنے والے طبقات کے ساتھ ظلم ہے۔ مہنگا ترین لینز لاکھ اور اس سے اوپر تک ہے جس کے اندر ہی نزدیک کے دیکھنے کا انتظام ہوتا ہے۔ اس کے لیے نزدیک کی عینک نہیں لگانا پڑتی۔ آنکھوں کی ان جملہ بیماریوں کے حوالے سے ایک خصوصی نشست میو اسپتال لاہور کے چیف ایگزیکٹو CEO پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم خان کے ساتھ ہوئی۔ جس میں انھوں نے کمال مہربانی سے آنکھوں کے حوالے سے مندرجہ بالا یہ تمام معلومات بہم پہنچائیں۔

ڈاکٹر صاحب کی پاکستان میں آنکھوں کی بیماریوں کے حوالے سے انتہائی اہم خدمات ہیں جن کا اعتراف WHO سمیت دنیا کے اہم عالمی اداروں نے بھی کیا ہے۔ وہ پاکستان میں آنکھوں کی بیماریوں کے حوالے سے نیشنل کوارڈینیٹرہیں۔ حکومت پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا ہے۔ اس وقت میو اسپتال لاہور میں پروفیسر صاحب کی خصوصی کاوش سے دنیا کی آنکھوں کی جدید ترین مشینری دستیاب ہے۔ پروفیسر صاحب کی خدمات کا دائرہ صرف پنجاب تک محدود نہیں بلکہ کل پاکستان سطح پر ہے جس میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی شامل ہیں۔

پروفیسر صاحب جدیدترین آنکھوں کے کالج کے پرنسپل بھی ہیں جس کا آغاز میو اسپتال میں ایک چھوٹے سے یونٹ سے ہوا۔ اب یہ کالج جدید ترین سہولتوں سے مزین ہے۔ جہاں آنکھوں کے حوالے سے دنیا کے جدید ترین کورسز پڑھائے جاتے ہیں۔پروفیسر صاحب کو ایشیا پیسیفک ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان کا گولڈ میڈل اور دوسرے ایوارڈ اس کے علاوہ ہیں۔ تازہ ترین ایوارڈ انٹرنیشنل ایجنسی آف بلائنڈنیس کی طرف سے 2017ء میں ملا ہے۔وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے ایکٹنگ وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب بھی ڈاکٹر تھے جنہوں نے پونچھ سری نگر سے ہجرت کی۔کنگ ایڈورڈ سے تعلیم حاصل کی۔ یوں والد اور ان کے صاحب زادے نے ایک ہی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ پروفیسر اسد اسلم کے تایا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور وفاقی محتسب رہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے والد اور سردار اقبال صاحب سے یہ سیکھا کہ دولت کے پیچھے مت بھاگیں۔ لوگوں کے لیے آسانیاں اور مشکل میں مدد کریں۔ قناعت اور محنت کا سبق اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ۔پروفیسر اسد اسلم صاحب کی مصروفیات دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کے لیے کیسے وقت نکال پاتے ہیں۔

فیکو آپریشن زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے پر محیط البتہ احتیاطیں کئی ہفتوں کی ہیں۔ میں جب اس آپریشن سے گزرا تو یہ شعر بے ساختہ یاد آیا۔ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔ آفاق کی اس کارگر شیشہ گری کا۔ دوسرا شعر جو آج کی سیاسی صورت حال پر صادق آتا ہے۔ وہ یہ کہ۔ آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت۔ اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

٭... آصف علی زرداری کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ دسمبر جنوری میں چلے گا۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں