ہم کون ہیں
نہ ہم بادشاہت کے قائل ہیں،نہ ہی جمہوریت کواپنے نظام میں جگہ دیتے ہیں۔
دنیامیں مسلمان ملکوں کی تعداد تیس یاپچاس ہے،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مجموعی آبادی ایک ارب دس کروڑ ہے یاڈیڑھ ارب۔یہ بھی بے معنی چیزہے۔اصل نکتہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ملک فکری جمودکاکیوںشکارہیں۔ایک جیسے رویوں کے مالک کیوں ہیں۔ ان کاعمل اورردِعمل حیرت انگیزحد تک یکساں ہے۔سوال یہ ہے کہ کیایہ سب اتفاقیہ ہے۔کیا یہ نامعلوم دشمن کی سازش ہے۔ عذاب ہے یااس کے ذمے دارہم خودہیں۔
بنیادی طورپراس پرکالم نہیں بلکہ ایک مکالمے کی ضروررت ہے بلکہ ایک صحت مند بیانیے کی۔مگران معاشروں میں مکالمہ کفرقراردیدیاگیاہے۔اختلاف رائے پرآج بھی کسی کوکہیں بھی ماراجاسکتاہے۔متعددسوالات ہیںبلکہ سوالات کا سمندرہے۔اب توسوال کرنابھی مشکل تربنتا جا رہاہے مگرپوچھناتوچاہیے کہ ہم ایسے کیوں ہیں۔اتنے پسماندہ کیسے ہیں اورترقی کیوں نہیں کررہے۔ اس سوال کی اجازت بھی ہونی چاہیے کہ اتنے سائنس دشمن یاعلم دشمن کیسے ہیں۔
ان جیسے درجنوں سوالات کا فی الفور کوئی جواب نہیں۔مگر سوالات کوروکا نہیں جاسکتا۔ دنیاکے بیسیوں مغربی،مشرقی اورافریقی ملک گھومنے کے بعدبہرحال یہ ضروراندازہ ہوچکاہے کہ بحیثیت مسلمان،ہم تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ ہم ان سے فکری طورپرمختلف یامتضادہیں۔
ویسے اب اس اَمرسے بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ مسلمان ممالک میں کیا ہو رہاہے۔میرے لیے اپناملک ہی سب سے اہم ہے۔ایسے معلوم ہوتاہے کہ ہم ''حال'' اور''مستقبل'' بہتر بنانے کے بجائے ''ماضی''پرتوجہ دے رہے ہیں اورسزاکی حد تک تاریخ میں گم ہوچکے ہیں۔مسلمان عظیم تھے، بالکل درست مگرتوجہ اس بات پر دینے کی ضرورت ہے کہ وہ''کیوں'' عظیم تھے۔ اس''کیوں''کاجواب ہوناچاہیے۔ کسی لائبریری میں چلے جائیے۔آپ کومسلمانوں کی تاریخ پربے انتہاکتابیں مل جائیں گی۔
درست کہ ہمیں اپنے ماضی کاادراک ہوناچاہیے مگرصرف ماضی ہی کیوں؟آج کے سائنسی علوم کیا بھرپور توجہ کے قابل نہیں؟ایک ادارہ کی وسیع لائبریری میں انچارج سے پوچھاکہ آج کل نوجوان اورعمررسیدہ لوگ کیسی کتابیں پڑھتے ہیں۔جواب حیرت انگیزتھا۔بتایاکہ سیاست یاتاریخ پرکتابیں آجائیں تودوچاربندے ضرورپڑھتے ہیں۔مگر سائنس اورجدیدعلوم کی کتابیں پڑھنے والاکوئی نہیں۔یہ جملہ معاشرے کے زوال پرسندکی حد تک درست ہے۔مجموعی طور پر جب ہم اپنے''حال'' کابے رحم تجزیہ نہیں کرسکتے تو ترقی کیاخاک ہوگی۔
ہمارے اخبارات میں لکھاہوتاہے کہ فلاں پاکستانی طالبہ یاطالبعلم آئی ٹی کے میدان میں کمال حاصل کرگیا۔یہ بلاشبہ ایک قابل تحسین بات ہے مگرکوئی اس بات کونہیں سوچتاکہ ''آئی ٹی''کی ایجاد اوربروقت استعمال میں ہم کیوں اتنے پیچھے رہے۔سیاسی رہنماؤں میں سے ایک بھی آپ کوسائنس پرمکالمہ کرتے ہوئے نظرنہیں آئے گا۔ان کا مقصدتوجذباتیت،اندھی تقلیداورمنافقت کے کلچرکوپروان چڑھاناہے۔اس میں وہ کامیاب ہوچکے ہیں۔ ایک بھی مسلمان ملک ایسا نہیں جو''آئی ٹی''کوجنم دینے میں مددگارثابت ہواہو۔تیل کے کنوؤں سے مہنگے ترین جہاز اور بیش قیمت گاڑیاں توخریدی گئیں مگرسائنسدان پیدا کرنے کی اہمیت پرغورنہیں کیاگیا۔
''آئی ٹی'' کو استعارے کے طور پراستعمال کیجیے۔اس کوجدیدعلوم کا عنوان دے دیجیے۔نتیجہ بالکل یکساں ہے۔مکمل جہالت۔اب تویہ امید ہی نہیں ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں جدیدعلوم پرتوجہ دی جائے گی۔ شائدنوکری حاصل کرنے کے لیے کوئی پڑھ بھی لے مگراس کے بعدنتیجہ صفرہے۔
برصغیرمیں اگرسرسید نہ ہوتے تومعلوم نہیں کیاحال ہوتا۔سرسیدکوہمارے علماء نے ذلیل کرنے کی کوشش کی۔ سوچیے کہ اگربرصغیرکی تاریخ میں سے سرسیدکومنہاکردیں تو باقی کیا بچتاہے۔شائداکیسویں صدی میں بھی بحث جاری ہوتی ہے کہ ''ٹرین''میں سفرکرنے سے مسلمان کانکاح ٹوٹ جاتاہے یا نہیں۔پینٹ کوٹ پہننا ''کفر'' ہے۔ ''موبائل فون'' استعمال کرنابھی اعتراض کے قابل ہے۔ یہ صرف اورصرف سرسیدتھے جنہوں نے برصغیرکے مسلمانوں کے فکری قحط کوپہچان لیاتھا۔
علی گڑھ کالج کی بنیادرکھنے کے لیے انھیںکس قدرمخالفت کاسامناکرناپڑا،اسکاادراک شائد ہمیں آج تک نہیں ہوا۔ سرسید جدید سوچ لانے کے لیے باقاعدہ لڑتے رہے۔یونیورسٹی توان کے انتقال کے بعد وجود میں آئی۔تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ سرسیدصرف ایک بار پیدا ہوا۔اس کے بعد ایسا مجاہد برصغیرکے نصیب میں موجودنہیں۔ دوبارہ اپنے معاشرے کی طرف لوٹتاہوں۔ہم تقلیدکو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔جدیدیت سے گھبراتے ہیں۔ پچھلے دنوں، کالج کے زمانے میں حساب کے پروفیسرصاحب کاانتقال ہوا۔پتہ چلاکہ پہلے وہ غیرمسلم تھے۔
پروفیسرصاحب حساب میں ماسٹرزکرنے کے بعد جب پڑھانے لگے تو انھوں نے Postulatesسمجھنے کی کوشش کی۔یہ سعی انھیں وحدانیت تک لے گئی اورمسلمان ہوگئے۔عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ جدیدعلوم کسی بے راہ روی یاگمراہی کاسبب نہیں ہیں۔ ان کواپنی تعلیم کی بنیاد بنانے میں سراسرہمارا ہی فائدہ ہے۔ یہاں یہ بھی سوال کھڑاہوتاہے کہ اپنے سنہرے دورمیں مسلمانوں نے جدیدعلوم میں اس درجے ترقی کیسے کی۔ مشکل ترین مضامین کواپنے اندرکیسے سمویا۔معاشرے کو جدیدکیسے کرگئے۔جواب بے حدمشکل مگرآسان ہے۔
ان مسلمان معاشروں نے اپنے اندرگھٹن کوکم کیا۔اپنے سے مختلف بلکہ متضادفکرکوبھی بڑھاوادیا۔علم اورعالم کومعاشرے میںبلندمقام عطاکیا۔ان کی تکریم کی۔جوکچھ آج سے چند صدیاں پہلے مسلمان معاشرے کررہے تھے،آج مغربی دنیا کررہی ہے۔اس کامطلب یہ ہواکہ آج ہم لوگ،ماضی کے مسلم معاشروں جتنی برداشت نہیں رکھتے۔اتناظرف اور حوصلہ ہی نہیں ہے۔مگرسوال صرف جدیدعلوم کا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں۔
تقریباًتمام مسلمان ممالک شدیدعدم تحفظ کاشکار ہیں۔سمجھ سے بالاترنکتہ ہے کہ یہ عدم تحفظ اس درجے کیسے ہوگیا۔ملکوں کی ''شاپنگ لسٹ ''دیکھ لیجیے۔اس میں مہلک ترین اسلحہ سرِفہرست ہوگا۔سعودی عرب جیسے امیرملک نے اپنے آپ کومقروض کرلیا۔مگرآج بھی صرف اورصرف اسلحہ کی خریداری کوقومی سلامتی کامنبع سمجھتے ہیں۔ایران کابھی یہی حال ہے۔نیوکلیئرٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے بربادہونے کے لیے تیارہے۔پاکستان بھی اسی جدوجہدمیں مصروف ہے۔مسئلہ کیاہے۔
پورایورپ ایک دوسرے کوتباہ کرنے کے بعداس نتیجہ پرپہنچ چکاہے کہ لڑائی صرف اورصرف تباہی مچاتی ہے۔صدیوں کے دشمن ملک سرحدوں کونرم کرتے جا رہے ہیں۔ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھارہے ہیں۔پوری دنیا کو اپنا محتاج بنارہے ہیں۔مگر مسلمان ممالک ایک دوسرے کی گردن کاٹنے میں مصروف ہیں۔وجہ کیا ہے۔کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔مگرایک یکساں وجہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک میںNon Representative Governmentsہیں۔ اس کااردوترجمہ کرنہیں سکتا۔
اکیسویں صدی میں کئی مسلم ممالک ایسے ہیں جہاں پورے ملک کی قدرتی دولت صرف اورصرف ایک خاندان کی ملکیت میں ہے۔ہوسکتاہے کہ آپ اس نکتے کواہمیت نہ دیں۔مگراسرائیل کی مثال لیجیے۔حکومت میں اصول پسندی اورجمہوریت اس درجہ مضبوط ہے کہ کئی بارحیرت ہوتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم اپنے عہدے پررہ کربھی اپنے خلاف ایک انکوائری کورکوا نہیں سکتا۔پولیس اس کے دفترمیں آکرتفتیش کرتی ہے۔کسی مسلم ملک کودیکھ لیجیے، تمام میں شخصی حکومت، بادشاہت یاایک خاندان کاتسلط ہے۔
حکمرانوں کی ذاتی زندگیوں پرنظرڈالیں توانسان حواس باختہ ہوجاتا ہے۔ چھٹیاں گزانے کے لیے اربوں ڈالرخرچ کرنامعمولی بات ہے۔ مگروسائل کی یہ بربادی صرف انھیں حکومتوں میں ممکن ہے جہاںکوئی پوچھنے والا نہیں۔امریکا کا صدر، برطانیہ کا وزیراعظم،جرمنی کی چانسلر اور معاف کیجیے،اسرائیل کے صدرکویہ عیاشی نصیب نہیں ہے۔ظلم یہ بھی ہے کہ حال ہی میں ایک ملک کے فرمانروا،تیونس میں چھٹیاں گزارنے گئے تو اربوں ڈالرکاخرچہ ہوا۔یہ صرف ایک بارنہیں ہوابلکہ ہر سال ہوتاہے۔
مشکل بات یہ ہے کہ پچھلے سال یہی بادشاہ فرانس کے ایک شہرمیں تعطیلات گزارنے گئے توان کے عملے نے سمندرکے ساحل کواپنے لیے مختص کردیا۔مقامی عدالت نے بادشاہ کی نہ صرف سرزنش کی بلکہ انھیں باعزت طریقے سے شہرچھوڑنے کاعندیہ بھی دیدیا۔بغیرکسی جھگڑے کے بادشاہ سلامت واپس اپنے ملک آگئے۔
پاکستان میں زبوں حالی زیادہ ہے۔نہ ہم بادشاہت کے قائل ہیں،نہ ہی جمہوریت کواپنے نظام میں جگہ دیتے ہیں۔نہ جدیدرویوں کودل سے اپناتے ہیں نہ ہی قدیم معاملات کومکمل طورپردل سے اُتارتے ہیں۔فکری طورپر سب سے بدحال قوم کوئی اورنہیں بلکہ ہم خودہیں۔ایک ایسی قوم جہاں سوال پوچھنے کی کوئی اجازت نہیں۔ مگر میرا سوال ہے کہ"ہم کون ہیں"۔