کہا تھا جھوٹ سچ ہے

اگر اس منظور ہونے والی ترمیم کو نیست و نابود نہ کیا گیا تو بے ایمانی،دھوکا بازی،لوٹ مار،اب اس ملک کا قانون بن جائے گی



KARACHI: ہمارے اور آپ کے بزرگ کہا کرتے تھے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے وہ جن معنوں میں کہا کرتے تھے شاید وہ ٹھیک ہوگا مگر ان دنوں جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں اور جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں اور وہ کبھی دبئی، کبھی لندن چلاجاتا ہے اور جب جی چاہے پاکستان آجاتا ہے۔ ایک جھوٹ تو ایسا پکا ''لندنی'' ہوگیا ہے کہ شاید مرکے بھی پاکستان نہ آئے، اگر حکومت زندہ لے آئے تو کارنامہ ہوگا۔

مگر میں نہ جانے کس حکومت کی بات کررہا ہوں۔ پاکستان میں ہمیشہ دو حکومتیں ہوتی ہیں ایک وہ جو نظر آتی ہے، دوسری وہ جو شاید پاکستان سے باہر ہوتی ہے ایک ''کنسورشیم'' کی طرح جس کی ایڈوائس پر پاکستان کی حکومتی چلتی ہے۔

کوئی مانے نہ مانے مگر حقیقت یہی ہے اور اس میں کچھ اپنے بھی شامل ہوتے ہیں مگر اب پاکستان میں تین حکومتیں ہیں، نظر آنے والی حکومت میں بھی دو حکومتیں ہیں۔ ایک وزیراعظم ہے جو کسی اورکو وزیراعظم کہتا ہے اور ٹھیک کہتا ہے کیونکہ ساری پالیسیاں سابقہ کی ہی چل رہی ہیں۔ وزیر خارجہ کی کارکردگی دیکھ لیں۔

دیکھ لیجیے ایک ملزم کی عدالت میں پیشی ہے اور پاکستان کا وزیر ملزم کی خوشنودی کے لیے سرکاری کام چھوڑ کر عدالت آرہا ہے۔ آپ کا کیا کام آپ قانون کے ساتھ ہیں یا قانون توڑنے والوں کے ساتھ۔ شاید دوسری بات بہتر ہے چوہدری نثار نہیں آئے کبھی ۔ عدالت کے باہر عدالت نہیں لگائی۔ درحقیقت یہی سیاسی لوگ ہیں اور وزارت چھوڑنا ایک اعلیٰ فیصلہ!

جب 1973 کا آئین بنا تو اسمبلی میں کس قدر شاندار سیاسی لوگ تھے، عبدالصمد اچکزئی، مفتی محمودؒ، شاہ احمد نورانیؒ غوث بخش بزنجو، ذوالفقار علی بھٹو۔

دوسری پارٹی قائد حزب اختلاف کی کرسی کو پکڑے بیٹھی ہے جو ایک سیاسی غلطی ہے مگر ادھر بھی سندھ کی حکومت کا سوال ہے جو فقط پیپلزپارٹی کے پاس بچی ہے اور یہاں بھی لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ہر ادارے میں شاید ایک دوسرے کو لوٹ کر ہی سندھ خوشحال ہوگا۔ زرداری فیکٹر بھی زیادہ سے زیادہ لوٹ کے مال کا شریک رہنا چاہتا ہے۔ شاید کبھی یہاں کے بھی Box کھولے جائیں۔

آیندہ شاید پاکستان کی معذور صدارت اس پارٹی کو مل جائے اس ساتھ کے عوض جو در پردہ یہ پارٹی پنجاب مسلم لیگ ن کا دے رہی ہے۔

قائد اعظم کی مسلم لیگ میں سے مسلم لیگ نکال کر یہ پارٹی بنائی گئی ہے۔ سرحدی علاقوں میں روز بھارت لوگوں کو ہلاک کررہا ہے، پاکستان بنایا تھا اس سے محفوظ رہنے کو اور یہ گھر میں مار رہا ہے کون جانے جوابی کارروائی کی اجازت بھی ہے یا نہیں۔

بے ایمانی، دھوکا بازی، لوٹ مار، اب اس ملک کا قانون بن جائے گی اگر اس منظور ہونے والی ترمیم کو نیست و نابود نہ کیا گیا جو بے حد ضروری ہے اگر قانون بنانے والے ذاتی مفادات کا قانون بنانے لگیں تو اصل قانون کو راستہ اختیار کرنا چاہیے ابھی ان لوگوں کو سزا بھی نہیں ملی جو برا بھلا کہہ کر وزیر بن گئے ہیں۔

ایک غلط فہمی نا اہل کو بھی ہے کہ یہ سب میرے وفادار ہیں۔ حقیقت یہ نہیں ہے تاریخ میں غلط لوگوں کے ظاہری وفادار بہت تھے مگر وہ اقتدار میں اپنے حصے کے وفادار تھے، ابھی جن بڑے لوگوں کے نام میں نے لکھے ان کی موجودہ ''سیاست دان اولاد'' اپنے ''والد بزرگوار'' کے دیانت اور سچائی کے اصولوں کے وفادار نہیں رہے ملک کی خاطر انھوں نے قید و بند تک برداشت کی اور یہ اپنی اور اپنے مفاد کی خاطر چور کو سلطان کہنے کو آمادہ ہیں، کہتے ہیں:

''شرم تم کو مگر نہیں آتی''

حاصل بزنجو ایک ٹی وی پروگرام میں فرماتے ہیں کہ چور کو سلطان کہنے یا بنانے سے نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ہاں نظام الدین کو خطرہ نہیں ہے کیونکہ وہ تو ہر تناظر میں چور کو سلطان کہنے کو تیار ہیں۔ کشمیر کمیٹی ان کی شہ رگ ہے اس کا الگ بجٹ ہے سو آپ اور آپ کے دوسرے بھائی بند!

ایم کیو ایم کے ایک سینیٹر پر درست تنقید ہورہی ہے حالانکہ بے سود ہے ''میاں'' آپ کا ہی آدمی تھا شاید اور کسی ایسے وقت کے لیے ہی تھا، زرداری صاحب کے مولانا ہیں نا، جب خورشید شاہ کو مسئلہ ہوگا مولانا اپنے ساتھیوں سمیت حزب اختلاف میں جا بیٹھیں گے۔

''صدر جس جانشیند کر صدر است''

تو زرداری سے بھی سندھ میں فائدے اور وفاقی حکومت کو بھی چشم و ابرو کے بل پر رکھ لیں گے۔

اہم سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دو سینیٹرز کا کیا کردار رہا اور ان کے نہ ووٹ ڈالنے سے نا اہل کو موقع مل گیا۔ کیا سودا ہوا؟ معلوم ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی تو ہر چیز کو پبلک کرنے کی ڈیمانڈ کرتی ہے۔ کرے پبلک اس معاملے کو بھی اور گلالئی کے معاملے کو اور منی ٹریل درست دیں۔ عمران خان تو لوگوں کا اعتماد بحال ہو، اگر آپ پر ہے، ووٹ تو وہ ن لیگ کو ہی دیتے ہیں۔

بڑا دلچسپ موازنہ ہے حالانکہ پیرپگارا کا خاندان حقیقتاً باعزت اور صدی سے ہے۔ ان باعزتوں (CHINA MADE RESPECTABLES) کی طرح ہرگز نہیں۔ کیونکہ ''کیوں نکالا'' پیر پگارا کا پاسنگ تو کیا دور دور تک نہیں۔ ذاتی کردار پر بات نہیں ہورہی، چوری اور دیانت داری پر گفتگو ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کا وہ سحر نہیں ہے اور نہیں ہوگا جو ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کیا تھا وہ ایک ہی بھٹو تھا، باقی سب اس فلم کے دوسرے حصے ہیں جو اتنے جاذب اور دلکش نہیں ہیں۔ یہ فلم بے نظیر بھٹو پر The End ہوچکی ہے۔ زرداری نامی کیل نے ایسا پنکچر کیا ہے اس کوکہ بس رہے نام مولاکا۔ تو بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں ''حروں'' نے بھی اپنا سیاسی قبلہ بدل دیا اور اس کے علاوہ پیر پگارا کے جانثار رہے اور ہیں ان کا ایک مشہور نعرہ تھا اور کمال تھا یہ بھٹو کا۔ ''سر سائیں جو ووٹ بھٹو جو'' یعنی ہمارا سر پگارا سائیں کے لیے حاضر ہے مگر ووٹ بھٹو کا ہے۔

پی ٹی آئی کوبھی یہ مرحلہ درپیش ہے، پنجاب میں وجہ خالصتاً نسلی اور لسانی ہے۔ موضوع طویل ہے آج بس یہاں تک۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں