بنگلادیش تشدد کی لپیٹ میں
جنگی جرائم کے مقدمے یا سیاسی انتقام، حکومت کے اقدامات نے ملک کو آگ میں دھکیل دیا۔
بنگلادیش گذشتہ کئی دنوں سے عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ملک میں جاری مظاہرے ہیں کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک آئندہ برس انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، حکم راں عوامی لیگ کے قائم کر دہ متنازعہ جنگی جرائم کمیشن کے فیصلوں نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ کمیشن کی جانب سے جن لوگوں کے خلاف فیصلے آرہے ہیں اُن کا شمار عوامی لیگ کے مخالفین اور اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو کبھی محب وطن پاکستانی کہلاتے تھے، جو عالمی طاغوتی سازشوں کے خلاف مشرقی اور مغربی پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کی راہ میں رکاوٹ بنے تھے۔
جنہوں نے اپنے وطن کے خلاف بھارتی فوج اور اس کی تربیت یافتہ مُکتی باہنی کی جارحیت کا مقابلہ کیا تھا۔ جنہوں نے پاکستان کی شکست و ریخت میں مصروف عناصر کے عزائم سے بنگالی عوام کو آگاہ کر نے کی کوشش کی تھی اور جنہوں نے غیر بنگالیوں کی نسل کشی میں مصروف لسانی و نسلی گروہوں کا حتی المقدور ہاتھ روکا تھا۔ آج اُن سابق پاکستانیوں کی اپنے وطن سے محبت ایک ایسا جرم بن چکا ہے جس کی پاداش میں وہ سزائے موت، عمر قید و دیگر سنگین سزاؤں کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان سزاؤں کے خلاف گذشتہ تین ہفتوں سے عوام سراپا احتجاج ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی سڑکوں پر موجودگی نے نظام زندگی معطل کر رکھا ہے۔ حکومتی مشینری اور حزب مخالف کی دو بڑی جماعتوں جماعت اسلامی ( بنگلا دیش) اور بی این پی کے مابین جھڑپوں میں اب تک 80 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ متعدد افراد زخمی اور بڑے پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
اگر چہ اس پورے پس منظر میں بار دیگر پاکستان کا بھی نام استعمال ہو رہا ہے لیکن پاکستانی حکم رانوں سمیت ملک کے کسی بھی متحرک طبقے کی جانب سے بنگلا دیش کے ان ستم رسیدہ افراد کے لیے کوئی آواز نہ اُٹھانا بھی اپنی جگہ لمحہ فکریہ ہے، جس کا ذکر ہم بعد میں کریں گے، پہلے دیکھتے ہیں کہ یہ بحران شروع کہاں سے ہوا اور اس کا مقصد کیا ہے۔
2 مارچ 2010ء کو بنگلادیش کی حکم راں جماعت عوامی لیگ نے جنگی جرائم کی تفتیش کے لیے خصوصی ٹریبونل قائم کرنے کا اعلان کیا، جس کا مقصد1971ء کی جنگ کے دوران ہونے والے قتل عام کی تحقیقات کرنا تھا۔ واضح رہے کہ یہ ٹریبونل حکمراں عوامی لیگ کے ہم درد ارکان پر مشتمل ہے اور اس کی ساکھ پر انٹرنیشنل کرائسز گروپ، ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی سوالات اُٹھائے ہیں۔ ''انٹرنیشنل کرائسز گروپ'' میں ایشیائی امور کے تجزیہ نگار مائیکل شیخ نے کہا کہ ''جنگی جرائم کا مقدمہ سیاسی حریفوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔''
علاوہ ازیں9 جولائی 2009ء کو ''ہیومن رائٹس واچ'' نے بنگلادیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے نام خط میں لکھا کہ جنگی جرائم کے مقدمے کے لیے 1973ء میں بنگلادیش حکومت کی جانب سے منظور کیا جانے والا قانون سخت ناکافی ہے۔ ''ہیومن رائٹس واچ ایشیا'' کے ڈائریکٹر ایڈم بریڈی کا کہنا تھا،''بنگلادیش کے قیام کو 40 سال ہونے والے ہیں۔ اس دور کے جنگی جرائم کے شواہد تلاش کرنا اب جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس مقدمے پر سیاسی مقاصد اور بدنیتی کے غالب آنے کا قوی امکان ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ بہت سے بے قصور افراد بھی مقدمے کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ اگر جنگی جرائم کے مقدمے کی آڑ میں بڑے پیمانے پر ناانصافی ہوئی تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گا۔ خدشہ یہ ہے کہ یہ پورا عمل سیاسی نوعیت اختیار کر لے گا اور ساکھ کھو بیٹھے گا۔''
ابتدائی مرحلے میں قائم کی جانے والی ''فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی'' نے 25 مشتبہ ''جنگی مجرمان'' کی فہرست تیار کی جس میں صرف بنگلا دیش جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سرکردہ ارکان کی تعداد 23 تھی، جب کہ 2 مشتبہ جنگی مجرمان کا تعلق بیگم خالدہ ضیاء کی بی این پی سے تھا، لیکن اس وقت جن افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا ہے اُن میں سے8 کا تعلق جماعت اسلامی جب کہ دو کا تعلق بی این پی سے ہے۔ یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے، حکم راں ''عوامی لیگ'' نے مختلف مواقع پر اپنے حریفوں کو جنگی جرائم کے نام پر دبوچنے کی کوشش کی ہے اور ناکامی کا منہ دیکھا ہے۔
حالیہ شورش کی ابتداء مذکورہ بالا جنگی کمیشن کی جانب سے گذشتہ ماہ 5 فروری کو جماعت اسلامی کے سنیئر راہ نما عبدالقادر مُلا کو عمر قید کی سزا کے فیصلے سے ہوئی۔ عبدالقادر مُلا جماعت اسلامی کے دوسرے سنیئر راہ نما ہیں جنہیں جنگی کمیشن کی جانب سے سزا سنائی گئی۔ اس سے قبل کمیشن جماعت کے ایک اور سنیئر راہ نما مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی21 جنوری 2013ء کو ان کی غیر موجودگی میں سزائے موت سنا چکی ہے۔ عبدالقادر ملا کے خلاف فیصلے نے جہاں جماعت اسلامی کے کارکنان کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا وہیں حکم راں عوامی لیگ اور فیصلے کے حامی بھی پیچھے نہیں رہے ۔ اُنہوں نے بھی فیصلے کے حق میں ڈھاکا میں بھرپور مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ عبد القادر ملا کو عمر قید کے بجائے پھانسی کی سزا سنائی جائے۔
اس شورش زدہ ماحول میں جلتی پر تیل کا کام رواں برس 18فروری کو بنگلا دیش کی پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی ایک آئینی ترمیم نے کیا، جس کے تحت 1971ء کی جنگ آزادی کی مخالفت کرنے اور مبینہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے جرم میں جماعت اسلامی پر پابندی عاید کی جا سکے گی۔ اس ترمیم کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ جماعت اسلامی کے راہ نما عبد القادر مُلا کو دی جانے والی عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کرانے کے لیے اپیل دائر کرسکے۔ آئینی ترمیم کے تحت خصوصی ٹریبونل کو یہ بھی اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی ایسی تنظیم یا سیاسی جماعت پر پابندی عاید کرسکے جو جنگی جرائم میں ملوث رہی ہو۔ بنگلادیش کے وزیر قانون شفیق احمد کا کہنا ہے کہ جنگی جرائم کا الزام ثابت ہوگیا تو جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دیا جا سکے گا۔
حکومت کی جانب سے کی گئی اس آئینی ترمیم کے ٹھیک 10روز بعد، یعنی 28 فروری کو جنگی کمیشن کی جانب سے ایک اور فیصلہ سامنے آیا جس میں جماعت اسلامی کے سینئر راہ نما دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت سنائی گئی۔ اس فیصلے نے ملک میں جاری کشیدہ صورت حال کو مزید ابتر کر دیا اور یہ مظاہرے ڈھاکا سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گئے۔ سعیدی پر الزام تھا کہ انہوں نے تحریک آزادی کے دوران پاکستان کے حامی البدر گروپ کی معاونت کی تھی اور بہت سے پر تشدد واقعات، جن میں ہندوؤں کو جبراً اسلام قبول کروانا بھی شامل ہے، کے مرتکب ہوئے۔ جب کہ جماعت اسلامی نے ان الزامات کو کُلیتاً مسترد کر تے ہوئے کہا ہے آئین میں ترمیم کا مقصد صرف اور صرف جماعت اسلامی کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ دلاور حسین سعیدی کی سزا کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کو گذشتہ چند عشروں کے دوران ہونے والے بدترین مظاہروں میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے، جن میں اب تک کئی افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ان مظاہروں پر قابو پانے کے لیے فوج کو طلب کرنا پڑا ہے۔
جنگی کمیشن کے فیصلوں اور آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج نہ صرف بنگلا دیش تک محدود ہے، بلکہ عالمی سطح پر ان فیصلوں کے خلاف آواز اُٹھائی جارہی ہے۔ جمعرات28 فروری کو سیکڑوں بنگلادیشی باشندے اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے جمع ہوئے اور اُنہوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ مظاہرین نے سزاؤں کو مسترد اور اسے سیاسی انتقام قرار دیا۔ انہوں نے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے اپیل کی کہ وہ پولیس کی جانب سے معصوم افراد کے قتل عام کا نوٹس لیں۔ اقوام متحدہ کے آزاد ماہرین نے بھی ان مقدمات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''سزائیں دیتے وقت قانون کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔''
بنگلا دیشی تجزیہ نگار معین الحق کا کہنا ہے کہ آئندہ برس بنگلادیش میں عام انتخابات ہو نے جارہے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ کسی بھی طرح جائز و ناجائز طریقۂ کار استعمال کرکے سب سے پہلے جماعت اسلامی پر پابندی عاید کرے، تاکہ جنگی جرائم کے مرتکبین کو پھانسی دینے کا معاملہ ان کے اگلے انتخابات میں کام یابی کی ضمانت بن جائے اور اس کے بعد عوامی لیگ کی حریف جماعت ''بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی'' بھی اس کے سامنے کم زور پڑ جائے گی۔ بی این پی اگر چہ خود کو سیکولر کے بجائے قوم پرست جماعت کہلاتی ہے لیکن ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی این پی اصل میں جماعت اسلامی کی ایک روشن خیال تصویر ہے، اور ماضی میں عوامی لیگ کے خلاف جماعت اسلامی اور بی این پی کا سیاسی اتحاد عوامی لیگ کی مسلسل شکست کا سبب بھی بن چکا ہے۔ اسی لیے بنگلا دیش کی تحریک آزادی کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے اپنے سیاسی مشیروں کی مدد سے ایک نیا سیاسی روڈ میپ بنا کر سب سے پہلے جماعت اسلامی اور اس کے بعد بی این پی پر پابندی عاید کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ اسلام پسندوں کی صورت میں موجود راہ کی رکاوٹیں دور کی جاسکیں۔
بنگلادیش کی مین اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء نے بھی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس اقدام کو ''درندگی'' قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت اس طریقے سے ملک کو بدترین بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔ جس طرح سے لوگوں کو قتل عام کیا جارہا ہے اس کے جواب میں اپوزیشن کی حیثیت سے ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔'' واضح رہے کہ بی این پی اور جماعت اسلامی نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اور 2009ء سے دونوں جماعتیں پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہیں۔ اس کے باوجود حکم راں جماعت نے بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے یک طرفہ طور پر ہی تمام کارروائیوں کا فیصلہ کیا ہے اور پارلیمنٹ کے سیشن میں بھی حزب مخالف کی عدم موجودگی کے باجود جنگی جرائم کے ٹریبونل کی ترمیم منظور کرلی۔
ایک ایسے وقت میں جب بنگلادیش میں جماعت اسلامی اور اس کے حامیوں پر جنگی جرائم کی تحقیقات کے کمیشن کی جانب سے اس الزام میں سزائیں مسلط کی جارہی ہیں کہ انھوں نے بھارتی کی جارحیت کے خلاف پاکستان اور پاک فوج کا ساتھ دیا تھا، پاکستانی حکم رانوں اور دیگر فعال طبقات کی جانب سے مکمل خاموشی نہ صرف ناقابل فہم بلکہ پاکستان کے لیے مثبت جذبات رکھنے والے بنگلادیشیوں کے لیے بھی منفی پیغام ہے۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ بنگلا دیش کا قیام بھارت کے کھلے اور چْھپے تعاون، ننگی جارحیت اور حملے کے ذریعہ پاکستان کو توڑ کر عمل میں لایا گیا تھا۔ اس دوران وہاں آباد لاکھوں غیر بنگالی اور اَن گنت محبِ وطن بنگالی شہری بھی ''عوامی لیگ'' کی گوریلا فورس مْکتی باہنی کی درندگی کا شکار ہوئے تھے۔
پورے کے پورے خاندان، جن میں بوڑھے، بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں، اذیتیں دے دے کر ہلاک کیے گئے۔ اربوں روپے کی املاک لوٹ لی گئیں۔ اجتماعی قتل گاہیں بنا کر زندہ انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا، سرنجوں کے ذریعے ان کی رگوں سے خون نچوڑا گیا اور ان کے بدن کے ٹکڑے کیے گئے۔ لیکن حیران کْن بات یہ ہے کہ اس خونِ کثیر و ناحق کا آج نہ کوئی مدعی ہے، نہ منصف، کسی عدالتی چارہ جوئی کے لیے ان لاکھوں غیربنگالیوں اور اَن گنت بنگالیوں کا شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ عوامی لیگ کی حکومت نے اپنے ہاں تاریخ کے ان دردناک سانحات کا انکار کرنے اور ان کا تذکرہ کسی تحریر میں نہ آنے دینے کی پالیسی اپنائی ہے اور اس کے لیے منصوبہ بندی کے تحت اقدامات کیے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان نے بھی ان لاکھوں لوگوں کی قربانیاں بھلا دی ہیں، جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔
یہ وقت ہے کہ تمام محب وطن پاکستانی اپنے اُن بھائیوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کریں جن پر زمین اس لیے تنگ کی جارہی ہے کہ وہ کبھی پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانا چاہتے تھے۔ 1960ء کے عشرے میں تُرکی کی حکومت نے سابق وزیر اعظم ''عدنان میندریس'' کو سزائے موت سنائی تو فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھیج کر پھانسی رکوانے کی کوشش کی تھی ۔ اور آج جب بنگلادیش میں پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو ہماری قومی قیادت کیوں گنگ بیٹھی ہے۔ عوامی لیگ کی حکومت کے معتوب لوگوں کے 71میں کردار سے قطع نظر دنیا بالخصوص پاکستان کو ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، کیوں کہ یہ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی پامالی ہے۔