ایک بُرے آدمی سے لوگوں کو نجات دلادی اور پھر خود برائی کے راستے پر چل پڑا
اس نے ڈکیتی کے دوران ایک لڑکی پر بُری نیت رکھنے والے اپنے ساتھی کی جان لے لی۔
سینئرصحافی عبداللطیف ابوشامل کی قلم آرائیوں کا خاصہ عام زندگیوں کے اچھوتے پہلو ہیں۔ بہ طور صحافی پرویزمشرف حکومت کے اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں ان کے شب وروز جیل کے ساکت وقت میں بھی گزر چکے ہیں، جہاں انھیں مختلف قیدیوں کی کہانیاں سننے کا موقع ملا۔ ایسی ہی کچھ منفرد کہانیاں وہ سنڈے میگزین کے قارئین کے لیے تحریر کریں گے، جن میں سے یہ پہلی کتھا ہے۔
بہت اداس سا لگتا تھا، نجانے کیوں؟ مجھے دیگر قیدیوں نے بتایا تھا کہ اسے معصوم مت سمجھیں، لگتا معصوم سا ہے، چار قتل کیے ہیں اس نے۔ ہاں تصدیق کی تھی اس نے، اس بات کی۔ وہ بہت زیادہ خیال رکھتا تھا میرا۔ میں اس زمانے میں جرم حق گوئی کی سزا بھگت رہا تھا۔ وہ میری بیرک ہی میں تھا۔ لطیفے سنانے پر آتا تو ہنستا ہی چلا جاتا۔ ایک عجیب سی حرکت وہ یہ کرتا کہ جھوٹ موٹ سوجاتا، میں کہتا یہ کون سا وقت ہے سونے کا، تو آنکھیں موندے موندے ہی کہتا ، بھائی! مجھے تنگ نہ کریں، میں گھومنے پھرنے جارہا ہوں، تھوڑی دیر تک وہ آنکھیں بند کیے لیٹا رہتا اور پھر جاگ جاتا اور اپنی خیالی واقعات سنانے لگتا:
بہت مزا آیا بھائی، بہت ہی زیادہ۔
میں یہاں سے نکلا تو فوراً ہی بس مل گئی تھی اور رش بھی نہیں تھا۔ خالی پڑی ہوئی تھیں سیٹیں۔ میں نے شیشے والی سیٹ پکڑی اور پھر تو مزا آگیا۔ موسم کتنا اچھا تھا، بہت سہانا موسم تھا، بس میں گانا لگا ہوا تھا، آئے موسم رنگیلے سہانے، جیا نہیں مانے، تُو چھٹی لے کے آجا بالما۔۔۔۔بس پھر میں اداس ہوگیا بھائی۔ کیسے چھٹی لے کر آؤں، اب تو دس سال بعد ہی آسکوں گا۔ بہت خوب صورت ہے وہ۔ بچپن سے ہی ہم ساتھ رہتے ہیں، میرے پڑوس ہی میں تو وہ رہتی ہے، گول مٹول سی گگلو۔
ہم ساتھ ہی اسکول میں داخل ہوئے تھے۔ میں اکثر اس کا لنچ کھا جاتا تھا۔ وہ بہت لڑتی تھی مجھ سے کہ میرا لنچ کھا گئے، لیکن بھائی! ایک بات اور تھی، اور وہ پتا ہے کیا؟ میں جس دن اس کا لنچ نہیں کھاتا ، وہ اداس ہوجاتی اور کہتی، آج مزا نہیں آیا۔ میں پوچھتا آج تو میں نے تمہارا لنچ نہیں کھایا تو کہتی اس لیے تو مزا نہیں آیا۔ اسے مجھ سے لڑ کر، چھینا جھپٹی کرکے ہی مزا آتا تھا۔ ساری ٹیچرز ہمیں کہتی تھیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
پھر وہ خاموش ہوجاتا۔ اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں، لیکن وہ انہیں برسنے سے روک لیتا۔
پھر وہ ہنسنے لگتا، بھائی! سب جھوٹ بولتے تھے۔ کتنے سال ہوگئے مجھے یہاں، نہ میں مرا نہ وہ مری۔ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ شروع میں تو، میں نے اپنی ماں سے جو یہاں مجھ سے ملنے آتی ہے، اس کا پوچھا تو وہ ڈانٹ دیتی اور کہتی کسی کا خیال نہیں آیا تھا تو کم ازکم اس معصوم ہی کا خیال کرلیتا۔ اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ عجیب سے حالات ہوگئے تھے۔ میں پیدائشی غنڈا تو نہیں ہوں ناں، بس حالات نے بنادیا۔ چلو غنڈا ہی رہتا، میں تو ڈکیت اور قاتل بھی بن گیا۔ بھائی! آپ بھی میری کہانی کتنے غور سے سنتے ہیں۔ میری کیا آپ تو سب کی سنتے ہیں۔ بور نہیں ہوتے آپ؟ ہمیں تو منہ بھی نہیں لگانا چاہیے۔
وہ سب مجھے بھائی کہتے تھے اور بہت پیار سے۔ آپس میں لڑتے جھگڑتے تو میں کہتا خاموش ہوجاؤ اور پھر میں دیکھتا سب خاموش ہوجاتے، نجانے کیوں؟ مجھے حیرت ہوتی کہ یہ کیسے قاتل ہیں، کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ قاتل ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک، کسی نے چار قتل کیے اور کسی نے سات، بس ایک ہی تھا ان میں جس نے بس دو قتل کیے تھے۔
فہیم (فرضی نام ) ان میں سب سے خوش شکل تھا، بالکل ہیرو کی طرح۔ عمر بھی بس یہی کوئی چوبیس سال تھی۔ ایک دن اس سے میں نے پوچھا تھا، تم نے کیوں قتل کیے اتنے لوگ؟
تو وہ پھٹ پڑا، بھائی! میں نے قتل نہیں کیے، وہ سب تھے ہی ایسے کہ انہیں زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا۔ میں پوچھتا کیوں؟ تب وہ بولتا۔
بھائی! ہمارے محلے میں ایک مخبر رہتا تھا، عجیب ہی آدمی، لوگوں کو مارنا پیٹنا تو اس کا شوق تھا۔ چلو یہاں تک تو ٹھیک تھا، پھر اس نے نیا دھندا شروع کردیا۔ وہ آدھی رات کو پولیس والوں کے ساتھ آتا اور ایک کپڑے میں لپٹا ہوا پستول کسی کے بھی گھر پھینک دیتا، کسی کی چھت پر۔ پھر اس گھر پر دستک دی جاتی، گھر والے جاگ جاتے، تو پولیس والے کہتے ہیں اطلاع ملی ہے تمہارے گھر میں اسلحہ ہے۔ گھر والے کہتے آؤ دیکھ لو۔ پستول تو وہ پھینک چکا ہوتا، پولیس تلاشی لیتی اور پستول برآمد کرلیتی۔ پھر سب کو تھانے لایا جاتا، وہ سب مجبوراً پولیس والوں کو منہ مانگی رشوت دیتے اور جان بخشی ہوتی۔
اس نے تو یہ دھندا بنالیا تھا۔ میں روز یہ دیکھتا، محلے والے بھی اکثر یہ باتیں کرتے رہتے، سال بھر سے زیادہ ہوگیا تھا۔ لوگ بس باتیں ہی کرتے رہتے تھے، اس زمانے میں، میں انڈین فلمیں بہت دیکھتا تھا۔ بس ایک دن میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آگیا کہ اس بہت زیادہ برے آدمی سے تو محلے والوں کی جان بخشی کرادوں۔ بس میں نے ایک فیصلہ کرلیا۔ اب اسے مارنے کا کام کیسے کرناہے، میرے پاس تو پستول تھا نہیں، میں نے اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ وہ ڈبو کے کلب پر ہوتا تھا، میں جوان ہوں، ہاتھوں میں دم بھی ہے، ایک رات کو وہ ڈبو کھیل کر اکیلا جارہا تھا۔
اس کے تو وہم و گمان میں نہیں تھا ایک سنسان جگہ پر وہ جیسے ہی پہنچا میں نے اسے دبوچ لیا اور پھر اس کا پستول میرے ہاتھ آگیا۔ میں نے کچھ نہیں سوچا، ساری گولیاں اس کے سینے میں اتاردیں، فائرنگ کی آواز سے محلے کے لوگ جاگ گئے تھے۔ کوئی سامنے نہیں آیا۔ میں نے اس کا پستول قریب ہی ایک گٹر میں پھینکا اور گھر آگیا۔ میں اپنی حالت بیان نہیں کرسکتا، تھوڑی دیر تک تو میں جاگتا رہا، پھر سوگیا۔ صبح سویرے پورے محلے میں خوشیاں منائی جارہی تھیں کہ یہ تھا ہی ایسا کہ اسے مرجانا چاہیے تھا۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے اس کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ہو۔ پولیس نے تفتیش شروع کی، پھر پتا نہیں کیا ہوا، بات آئی گئی ہوگئی۔
کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ میرا کام ہوسکتا ہے، لیکن میں ایک قتل تو کر ہی چکا تھا، قتل کرنے کے بعد کوئی بھی زیادہ دیر تک چھپا نہیں سکتا۔ میں نے بہت دنوں تک تو کسی کو بتایا نہیں، آخر اپنے ایک دوست کو بتادیا کہ اسے میں نے مارا تھا۔ وہ بھی ڈبو کھیلتا تھا۔ اس نے ماننے سے انکار کردیا، پھر ہماری دوستی گہری ہوگئی۔ ایک دن اس نے کہا یار فہیم! کام دھندا تو ہے نہیں، چل کوئی ڈکیتی ہی کرلیں، میں نے کہا میرے پاس تو پستول نہیں ہے۔ اس نے کہا اس کا انتظام میں کرلوں گا۔ ایک دن ہم دونوں موٹرسائیکل پر نکلے۔
ایک سنسان جگہ پر ہمیں ایک کار نظر آگئی۔ میں نے پستول تان لیا کہ جو کچھ ہے دو۔ انہوں نے سب کچھ ہمارے حوالے کردیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ چار ہزار روپے سے زیادہ تھے۔ موبائل بھی تھا، ہم دونوں نے آدھے آدھے بانٹے، لیکن میرے دوست نے بتایا کہ یہ پستول تو چیک کرلے۔ میں نے دیکھا تو وہ کھلونا پستول تھا، بالکل اصلی کی طرح کا۔ کہانی بہت لمبی ہوجائے گی۔ ہم نے چھوٹی موٹی ڈکیتیاں کرنا شروع کردی تھیں۔ روز ہمیں ہزاروں روپے مل جاتے تھے۔
ایک دن ہمیں ایک کار نے آکر روک لیا۔ اس میں سے چار لوگ نکلے۔ ان کے پاس کلاشنکوفیں تھیں، ہم نے سوچا کہ مارے گئے۔ ہوسکتا ہے سادہ لباس میں پولیس والے ہوں، لیکن انہوں نے ہمیں کچھ نہیں کہا۔ ہماری موٹرسائیکل لی اور ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھاکر چل دیے۔ مجھے حیرت ہورہی تھی اور ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا؟ لیکن پھر ایک بنگلے کے اندر گاڑی رک گئی۔
ہم نیچے اترے تو دیکھا کہ وہ ایک بڑا سجا سجایا بنگلا تھا۔ ہم نے چائے پی، پھر ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: گھبراؤ نہیں، ہم بھی تمہارے جیسے ہیں۔ بہت دن سے تمہارا پیچھا کر رہے تھے، چلو اب ہمارے ساتھ کام کرو، عیش کروگے۔ ہم نے تو فوراً ہی حامی بھرلی۔ بس بھائی! پھر تو چل سو چل ہوگیا۔ عیاشی ہی عیاشی۔ وہ سب ڈکیت تھے، مگر بظاہر کاروباری اور محلے میں شریف بنے ہوتے۔ بنگلا بھی کرائے پر لیا ہوا تھا، لیکن یہ سب بس دکھاوا تھا۔
میں ان کے ساتھ کام کرنے لگا۔ کون سا برا کام تھا جو ہم نہیں کرتے تھے۔ بہت عرصے تک میں ان کے ساتھ ڈکیتیاں کرتا رہا۔ اس دوران میں گھر بھی جاتا تھا، بہت شریف بن کر، لیکن آخر کب تک انسان چھپ سکتا ہے؟ گھر والوں کو یہ تو معلوم نہیں تھا کہ میں ڈکیت بن گیا ہوں۔ بس اتنا پتا تھا کہ آوارہ لڑکوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ آہستہ آہستہ وہ بھی بے زار ہوگئے اور میرا گھر جانا تقریباً بند ہوگیا۔ پھر تو بس ڈکیتیاں تھیں اور عیاشی تھی۔ ایک دن مجھے اپنا گروہ بنانے کا خیال آیا اور وہ اس لیے کہ یہاں بہت سے گروہ کام کر رہے تھے اور ان کی آدھی سے زاید کمائی جنہوں نے ہمیں رکھا ہوا تھا، وہ کھا رہے تھے۔
اگر ہم میں سے کوئی کہیں پھنس جاتا تو مدد بھی کرتے تھے، لیکن بس میرے من میں آئی کہ اپنا گروہ بناؤں۔ گروہ کو ہماری زبان میں ''چین'' (chain) کہتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک دوست سے بات کی تو وہ بھی مان گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہاں جن لوگوں میں ہم پھنس گئے ہیں، ان کے چنگل سے کیسے نکلا جائے۔ ہم نے طے کرلیا کہ بس عیاشی کریں گے۔ کام پر اگر گئے بھی تو خالی ہاتھ واپس آئیں گے، کچھ عرصے تک یہ چلتا رہا۔ ہم چھوٹی موٹی لوٹ مار تو کرتے تھے، بتاتے نہیں تھے۔ ایک دن آخر انہوں نے پوچھ لیا کہ تم کام وام نہیں کر رہے، بس بیٹھے بیٹھے کھا رہے ہو، کب تک ایسا کروگے؟ میں نے بھی جواب دیا۔ بات بگڑگئی اور ہم تو چاہتے بھی یہی تھے۔ آخر وہاں سے ہماری جان خلاصی ہوئی، اتنی آسانی سے نہیں۔ یہ ایک دوسری کہانی ہے۔
بہرحال ہم دونوں نے اپنے ساتھ پانچ لڑکے اور ملا لیے اور سپر ہائی وے پر ویران پڑے ہوئے فلیٹوں کو اپنا اڈا بنالیا۔ میں چین کا رکھوالا تھا۔ ہم نے اصول بنائے کہ بس ڈکیتی کریں گے، کوئی کسی عورت یا لڑکی، بچے یا بوڑھے کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا، خاص کر لڑکی کو۔ سب نے اسے مان بھی لیا۔ ایک دن میں نے اپنی چین کے ساتھ پہلی ڈکیتی کی۔ جب ہم مال سمیٹ کر نکل رہے تھے کہ پیچھے سے ایک لڑکی کے رونے کی آواز آئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرے جوڑی دار نے ایک لڑکی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے کہا اسے چھوڑ دو۔
یہی اصول ہے تو وہ بولا مجھے پسند آگئی ہے، اسے نہیں چھوڑ سکتا۔ میں نے اسے کہا کہ کسی اور وقت اس لڑکی کو اٹھالیں گے، اب چلو یہاں سے۔ وہ راستے بھر مجھے کوستا رہا اور میں غصے سے کھولتا رہا۔ آخر ہم اپنے اڈے پر پہنچے اور مال رکھا۔ راستے میں، میں اپنے جوڑی دار کو سزا دینے کا پلان بناچکا تھا۔ بہن، بیٹیاں، مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ اس لڑکی کا چہرہ میری نظروں میں آتا تو مجھے اپنی بہن یاد آجاتی۔
اس نے اصول توڑ دیا تھا، جس کی سزا اسے ملنی چاہیے تھی ، اور یہ سزا اس لیے بھی ضروری تھی کہ پھر پوری چین اپنی مرضی کرنے لگتی اور بکھر جاتی۔ مال رکھنے کے بعد میں نے اپنے جوڑی دار سے کہا، چلو کھانا لے کر آتے ہیں، اس وقت ہمارے پاس ایک شیراڈ کار ہوتی تھی۔ میں سپرہائی وے سے نکلا تو وہ کہنے لگا بہت تھکن ہورہی ہے، یہیں قریب ہی سے کھانا لے لیں۔ میں نے کہا، نہیں یار! کورنگی میں ایک ہوٹل ہے، وہاں سے زبردست کھانا لیں گے۔ وہ خاموش ہوگیا۔
پتا نہیں اسے کیوں تھکن ہورہی تھی، میں نے دیکھا وہ سوگیا ہے اور میں کورنگی کے ایک سنسان علاقے میں پہنچا۔ وہ علاقہ میرا دیکھا بھالا اور بہت سنسان تھا۔ میں نے گاڑی روکی، وہ سویا ہوا تھا، میں نے اسے گھسیٹ کر نیچے اتارا، تب اس کی آنکھ کھلی۔ وہ چیخا کہ یہ کہاں لے آئے مجھے؟ بس میں نے ایک جملہ کہا، تم نے اس لڑکی کو کیوں ہاتھ لگایا؟ اور یہ کہتے ہی پورا میگزین اس کے جسم میں اتار دیا۔
قریب ہی ایک اندھا کنواں تھا، میں نے اسے وہاں پھینکا اور خود کھانا لے کر اپنے اڈے پر پہنچا۔ میرے کپڑوں پر خون دیکھ کر باقی لوگوں نے پوچھا۔ کیا ہوا؟ میں نے انہیں سچ بتا دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہ اگر کبھی کسی نے ایسی حرکت کی اس کی سزا بھی یہی ہوگی۔ وہ سب بالکل خاموش ہوگئے۔ میں کھانا کھائے بغیر سوگیا، آپ مجھے بتائیے بھائی! میں نے غلط کیا؟
میری خاموشی دیکھ کر وہ پھر اپنی کہانی سنانے لگا۔
آہستہ آہستہ ہماری کارروائیاں بڑھتی جارہی تھیں اور ہماری چین مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ ایک رات ہم ڈکیتی کرنے نکلے اور ایک گھر میں کود گئے۔ گارڈ کو میرے ساتھیوں نے بے دست و پا کردیا۔ ہم نے اندر داخل ہوکر سب کو ایک کمرے میں بند کیا اور تلاشی لینے لگے۔ اتنے میں کسی دوسرے گینگ نے ہمیں گھیر لیا، ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ دو گینگ ایک ہی گھر میں آمنے سامنے کھڑے ہوں۔
میں نے ان سے بات کی کہ ہمارا حق پہلے ہے، ہم پہلے آئے ہیں، وہ میرا مذاق اڑانے لگے، مجھے شک ہوگیا کہ آخر یہ کیا ہوا ہے۔ میں اڈے پر پہنچا اور سوچنے لگا، اتنے میں ہماری چین کے ایک لڑکے کو میں نے موبائل فون پر بات کرتے دیکھ لیا تھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ میں نے اس سے موبائل فون چھین لیا، دوسری طرف سے ہنس ہنس کر ایک آدمی کہہ رہا تھا، تم اگر ہمیں نہیں بتاتے تو آج اتنا مال ہاتھ نہ آتا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ ہماری چین کے اس لڑکے نے وہاں پہنچتے ہی دوسرے گروہ کو اطلاع کردی تھی۔ یہ تو سراسرغداری ہے۔ بس تیسرا شکار میرا وہ لڑکا تھا۔ آخر مجھے اپنی چین کے لوگوں کو اپنے رعب میں رکھنا تھا کہ کوئی اور یہ حرکت نہ کرے اور دوسرے اس گینگ کو بھی بتانا تھا کہ آئندہ کسی نے یہ بے اصولی کی تو اس کا انجام بھی یہی ہوگا۔
دن گزرتے گئے، ہم لوٹ مار کرتے اور لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں جاکر عیاشی کرتے رہے۔ کوئی ایک بھی ایسا برا کام نہیں ہے جو ہم نے نہیں کیا، لیکن لوٹ مار میں اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ چوتھا مقتول پولیس کا ایک مخبر تھا ۔ وہ بٹیر تھا پولیس کا۔ بٹیر اسے کہتے ہیں جو پولیس کے لیے بھتا جمع کرتا ہے۔ وہ بہت ذلیل آدمی تھا۔ ٹھیلے والوں سے شام کو پیسے جمع کرکے پولیس کو پہنچاتا تھا۔ جو پیسے نہ دے اس ٹھیلے والے کو کھڑا ہونے نہیں دیتا تھا۔ میں نے ایک دن اس سے بات کی کہ یار! یہ غریب لوگ ہیں، انہیں معاف کردو۔ وہ مجھے جانتا نہیں تھا۔ اکڑ گیا کہ جاؤ جو کرنا ہے کرلو، اور تو اور اس نے مجھے بازار میں تھپڑ ماردیا، بس رات کو ہم نے اسے اٹھایا اور پھر وہ بھی گیا زندگی سے۔
تو یہ ہے تمہاری رام کہانی۔
ہاں بھائی!
یہ تم جیل میں کیسے پہنچ گئے؟
وہ بہت دیر تک ہنستا رہا، لیکن اس کی آنکھیں نم تھیں، پھر وہ بہت دیر تک خاموش رہا۔ نجانے کہاں کھو گیا تھا وہ۔ میں نے اسے شانے سے پکڑ کر ہلایا۔
کہاں کھو گئے تم؟ جیل کیسے پہنچ گئے؟
ہاں بھائی! برے کام کا برا انجام ہوتا ہے۔ زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے، ایک بنگلے پر ڈکیتی کر رہے تھے، پولیس والوں نے گھیر لیا ہمیں۔ فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور گھر کا ایک فرد زخمی ہوگیا ۔ لیکن ہم سب پکڑے گئے، پوری چین کو پکڑ لیا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ بنگلا کسی بڑے آدمی کا تھا۔ بس کیس چل رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے اگلی پیشی پر فیصلہ آجائے گا۔ پانچ سال تو ہوگئے ہیں جیل میں، اب میں زندگی کے عجیب سے موڑ پر کھڑا ہوں اور مجھے کوئی فیصلہ کرنا ہے۔
مجھے حیرت ہوئی، کیسا فیصلہ کرنا ہے اب؟ سزا بھگتو! میں نے کہا۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا۔
بھائی! آپ نہیں سمجھیں گے۔ جرائم کی دنیا بہت عجیب ہے، بہت ذہین ہوتے ہیں، یہ جو باہر بڑے بڑے لکھے پڑھے لوگ ہیں ناں سب خود کو ذہین سمجھتے ہیں، سب بے وقوف ہیں۔ ان کی ہی بے وقوفی سے ہماری دنیا آباد ہے۔
وہ کیسے؟
ہماری پوری چین جیل میں ہے، لیکن ہمارے رابطے باہر سے ہیں، اب فیصلہ یہ کرنا ہے ، اور میں طے کرچکا ہوں ، وکیل سے بات بھی ہوگئی ہے، جیل میں ہم سب چین والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جج کے سامنے جاکر کوئی ایک آدمی قبول کرلے گا کہ قتل اس نے کیے ہیں۔ اس طرح باقی سب بچ جائیں گے۔
یعنی تم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ تم قربانی کا بکرا بنوگے؟
وہ ہنسنے لگا۔ لیکن مفت میں قربانی کا بکرا نہیں بنوں گا۔ معاہدہ ہوگیا ہے کہ وہ مجھے اس کام کے اسّی لاکھ روپے دیں گے۔ ضمانت باہر کے ایک اور گروہ نے دی ہے۔ جب میں عدالت میں یہ سب قبول کرلوں گا، کہ یہ سب میرے ساتھ نہیں تھے، میرے ساتھی تو بھاگ گئے ہیں، تو باقی بچ جائیں گے اور رِہا ہوجائیں گے۔ باہر نکل کر وہ میرے ایک دوست کو 80 لاکھ روپے ادا کریں گے۔
اور تم اندر سڑتے رہوگے؟ یہ ہے تمہاری ذہانت؟ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرو، تم نے تو مشترکہ گناہ کیے ہیں، سب اپنی سزا بھگتو۔ یہ تمہاری چین باہر جاکر پھر سے لوٹ مار کرے گی اور وہ تمہاری وجہ سے باہر
جائے گی، ان کی ساری لوٹ مار میں تمہارا حصہ ہوگا۔ چھوڑ دو برے کام، بدلو خود کو۔۔۔۔۔!
میں نے تقریر شروع کردی تو وہ سنجیدہ ہوگیا۔
بھائی! آپ صحیح کہتے ہیں ، اب ہم چھوڑنا بھی چاہیں تو دوسرے نہیں چھوڑنے دیتے۔ آپ نہیں سمجھیں گے بھائی! آپ نہیں سمجھیں گے۔ انسان ہوں، بہت شرمندہ ہوں، لیکن اب یہ دنیا نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ سب باہر ہوں گے تو ایک دن میں بھی باہر ہوں گا۔
وہ کیسے؟
یہ آپ نہیں سمجھیں گے، یہاں ''پیسہ پھینک تماشا دیکھ'' دنیا ہے۔ نہیں بھائی! آپ نہیں سمجھیں گے۔