شبنم شکیل کی آخری کتاب
مگر پہلے تو یہ سوچنا پڑے گا کہ شبنم شکیل تو شاعری کے گلشن میں گل پھول کھلا رہی تھیں۔
حکما نے ٹھیک کہا کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔ کل کا کیا بھروسہ۔ جانے کل کی صبح کیا گل کھلائے۔ وہی ہوا۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ شبنم شکیل عجلت میں ہیں۔
ابھی ڈیڑھ دو ہفتے پہلے ہمیں ان کی نئی کتاب سنگ میل کی طرف سے بطور خاص موصول ہوئی تھی۔ ہم نے کھول کر بس ایک نظر ڈالی تھی کہ پکڑے گئے۔ پھر پڑھتے ہی چلے گئے۔ ختم کر کے دم لیا۔ سوچ رہے تھے کہ اس بی بی کا تو نثر میں بھی قلم خوب چلتا ہے۔ اس کام پر انھیں کھلے دل سے داد دینی چاہیے۔ لیجیے ہم سوچتے ہی رہ گئے۔ ادھر اس نے شتابی سے رخت سفر باندھا اور ملک عدم کی طرف کوچ کر گئی۔ اب ہم حیران ہیں کہ اس بی بی نے تو اسی کتاب کے تسلسل میں اس سے بڑھ کر ایک تذکرہ مرتب کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ اپنے منصوبہ کو بیچ میں چھوڑ کر دنیا سے گزر گئی۔
جس کتاب کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ منتخب مغنیائوں کا ایک تذکرہ ہے جو'' آواز تو دیکھو'' کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔
عنوان بھی خوب ہے؎
اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
مگر کوئی ایک آواز ہو تو دیکھیں۔ یہاں تو آوازوں کا ایک سلسلہ ہے اور ہر آواز مغنیہ کی آتش نفسی کا اعلان۔
مگر پہلے تو یہ سوچنا پڑے گا کہ شبنم شکیل تو شاعری کے گلشن میں گل پھول کھلا رہی تھیں۔ موسیقی کے کوچہ میں کیسے آ نکلیں۔ اس کا جواب خود انھوں نے جو دیا ہے وہ سن لیجیے۔ کہتی ہیں ''شاعری کی طرح موسیقی بھی مجھے والد سے ورثے میں ملی۔''
والد بھلا کون تھے۔ سید عابد علی عابد۔ شاعر۔ اور شاعر سے بڑھ کر عالم فاضل۔ علوم کا بحر بیکراں، علم زباں، لسانیات، شعریات، فلسفہ، تاریخ اور ہاں علم موسیقی، کسی بھی واسطے سے سوال کر دیکھئے۔ علم کا دریا رواں، موسیقی سے غیر معمولی شغف تھا۔ شبنم شکیل بتاتی ہیں کہ ''میں بچپن میں دیکھا کرتی تھی کہ وہ پکے راگوں کے بہت رسیا ہیں اور کلاسیکل موسیقی کے رموز و علائم سے خوب اچھی طرح سے آشنا ہیں''۔
اولاد میں کسی نہ کسی کو تو باپ کے ورثے کو سنگھوانا تھا۔ چھوٹی بیٹی تیز نکلی۔ اس نے باپ کو شعر کہتے اور شاعری کے فن پر بصیرت افروز باتیں کرتے دیکھا تو اولاً اس نے باپ سے شاعری کو بطور ورثہ قبول کیا اور شعر میں رواں ہو گئی۔ شبنم شکیل نے ایک عمر شاعری میں صرف کی۔ اس کا صلہ بھی اچھا ملا۔ شاعری میں بہت نام پیدا کیا۔ زمانہ بھی اچھا ملا پہلے تو خواتین اگر ادب میں نظر بھی آتی تھیں تو بس ناول و افسانے میں۔ مگر تقسیم کے بعد شاعری میں بھی عورت کا جوہر نمایاں ہوا۔ دیکھتے دیکھتے کیا غزل کیا نئی شاعری ہر رنگ شعر میں شاعرات نمایاں نظر آنے لگیں۔
اس فضا میں شبنم کی شاعری نے بھی خوب رنگ پکڑا اور صف اول کی شاعرات میں ان کا شمار ہونے لگا۔ مگر خالی اور محض شاعر بن کر رہیں، غالباً یہ انھیں منظور نہیں تھا۔ شاعری میں گل پھول کھلا کر نثر کی طرف قدم بڑھایا اور ایک نثر پارہ تو ایسا لکھا کہ ہم اس بی بی کے شگفتہ بیانی کے قائل ہو گئے۔ گھر میں آراستہ ہونے والی ایک محفل کا ایسا نقشہ کھینچا کہ اللہ دے اور بندہ لے۔
ویسے تو یہ شبنم کی گڑیا کی شادی کی تقریب تھی۔ مگر اس بہانے عابد صاحب نے اپنے دوستوں کو بھی بلا بھیجا۔ ڈاکٹر تاثیر، ڈاکٹر سید عبداللہ، صوفی تبسم، فیض صاحب، اس بیچ یہ گل کھلا کہ گڈے کے ساتھ حادثہ گزر گیا۔ گڑیا کی شادی میں کھنڈت پڑ گئی۔ مگر عابد صاحب کے ستم ظریف دوستوں نے جلد ایک نئے دولہا کا بندوبست کر لیا۔ بھلا یہ نیا دولہا کون تھا۔ فیض صاحب، شبنم شکیل نے اس ہلکی پھلکی تقریب کو اس خوبصورتی سے اور اتنی شگفتگی سے بیان کیا ہے کہ اس بیان کے حوالے سے وہ بہت منجھی ہوئی مزاح نگار نظر آتی ہیں۔
ہم نے اسے پڑھ کر فوراً ہی اس نوخیز نثرنگار کو جی بھر کر خراج تحسین پیش کر دیا تھا۔ پھر جو انھوں نے خاکے لکھے تھے جن میں ایک خاکہ عابد صاحب کا بھی تھا وہ بھی پڑھے اور اب خاکے لکھتے لکھتے ایک اور رنگ کی شخصیتوں پر ان کا قلم رواں نظر آ رہا تھا۔ یہ تھیں دنیائے موسیقی کی ساحرائیں... روشن آرا بیگم، نور جہاں، ملکہ پکھراج، بیگم اختر، زہرا بائی انبالے والی، شمشاد بیگم، ثریا، امیر بائی کرناٹکی، خورشید، مختار بیگم، یہ ہماری نامی گرامی گانے والیاں اور بیان شبنم شکیل کا اس دعوے کے ساتھ کہ ''میں جن گانے والیوں سے ملی ہوں شاید کم ہی لوگوں کو ان سے ملنے کا موقع مل سکا ہو گا''۔
ان میں زیادہ تر وہ ہیں جنھیں انھوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے زمانے میں ''بالکل سامنے بیٹھ کر سنا''۔ اب انھوں نے اپنے اگلے پچھلے اوراق کو اور ان ساری یادوں کو یکجا کیا اور ان روشن چہروں کو اس طرح روشناس کرایا کہ بس کوزوں میں دریا کو بند کر دیا۔ بیان مختصر مگر ہر گانے والی کی شخصیت اور فن دونوں سے اس طرح کا تعارف ہو جاتا ہے کہ تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔
چہروں کی یہ گیلری خوب اور مرغوب ہے۔ مگر انھیں ایک کوتاہی کا احساس ستاتا نظر آتا ہے اور اس کوتاہی کا ذمے دار کون ہے۔ ریڈیو پاکستان۔ اصل میں اس ادارے نے ایک ایسے سلسلہ کی فرمائش کی تھی جس کے مطابق انھوں نے ان مسلمان گلوکارائوں پر لکھنا شروع کیا جو چالیس کی دہائی میں اپنے عروج پر تھیں۔ اب ذرا ان کی معذرت بھی سن لیجیے۔ ''یقینا سوال اٹھے گا کہ محض مسلمان گلوکارائوں کی کیا تخصیص تھی جب کہ برصغیر میں اچھی سے اچھی گانے والی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی گلوکارائوں میں موجود تھی۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ کیونکہ مجھ سے کہا گیا تھا کہ اس حوالے سے آپ دوسرا پروگرام کریں گی۔ فی الحال ہم صرف انھیں مسلمان گلوکارائوں کے فن کو نمایاں کریں گے کہ جو چالیس کی دہائی میں اپنے عروج پر تھیں''۔
ریڈیو پاکستان نے 47ء کے بعد وجود میں آتے ہی اس طرح کی کوتاہ نظری کا مظاہرہ شروع کر دیا تھا۔ ایسی مثالیں اور بھی ہیں۔ ان میں اس مثال کا بھی اضافہ کر لیجیے۔ شبنم شکیل ارادہ ظاہر کرتی ہیں کہ ''میں موسیقی کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب لکھوں جس میں فنکاروں کے حوالے سے مذہب کی اور قومیت کی کوئی قید نہ ہو۔'' وہ اپنے اس ارادے کو اپنی گرتی ہوئی صحت کی بنا پر جامۂ عمل نہ پہنا سکیں۔ مگر انھوں نے بشرط صحت یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ ''باقی چیزیں انشاء اللہ اگلی کتاب کے لیے چھوڑ رہی ہوں''۔ مگر انھیں کب خبر تھی کہ اجل کا قزاق گھات میں ہے۔ وہ انھیں اس نیک کام کے لیے مہلت نہیں دے گا۔
سو انھوں نے گرتی ہوئی صحت کے بیچ جلدی جلدی یہ کتاب مرتب کی اور اگلی کتاب کا منصوبہ بغل میں داب کر سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں ؎
کام تھے عشق میں بہت پر میر
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
آخرمیں شبنم کے لیے دعائے مغفرت کہ؎
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے