مشکور حسین یاد
مشکور بھائی سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یہ کچھ ٹھیک سے یاد نہیں
''آج ایک اور دور ختم ہوگیا'' یہ وہ جملہ ہے جو ادبی دنیا کے سینئر اور ممتاز لوگوں کی رحلت کے ہنگامہ میں بارہا کانوں میں پڑتا ہے لیکن کل جب مشکور حسین یاد صاحب کے جنازے میں برادرم قاسم جعفری نے اسے دہرایا تو یک دم ذہن کو ایک دھچکا سا لگا کہ اب یہ بات ایک رسمی اظہار عقیدت اور ہدیۂ تعظیم سے ہٹ کر سچ مچ ایک حقیقت بنتی چلی جارہی ہے۔ 20 نومبر کو فیض صاحب کی چوبیسویں برسی ہے۔
ان سے چار برس قبل جوش اور حفیظ رخصت ہوئے۔ بلا شبہ یہ تینوں مشاہیر اپنی اپنی جگہ پر ایک دور تھے لیکن ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے والوں میں ابھی احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، حکیم محمد سعید، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ، حاجرہ مسرور، جمیل الدین عالی، پروین شاکر، محمد منشا یاد، شفیق الرحمن، محمد خالد اختر، منیر نیازی، احمد فراز، جون ایلیا، سلیم احمد، مشفق خواجہ، انتظار حسین، مختار مسعود، نسیم حجازی، شان الحق حقی، ابن صفی، ڈاکٹر جاوید اقبال، شبنم شکیل، احسان دانش، شہزاد احمد، اے حمید، شریف کنجاہی، پریشان خٹک، فارغ بخاری، محسن بھوپالی، صہبا اختر، کرنل محمد خان، صدیق سالک، سید ضمیر جعفری اور ان سے ملتے جلتے رتبے اور مقام کے حامل کئی اور روشن ستارے، عہد ساز اور اپنے عہد کی پہچان بننے والے ادیب اور قلم کار ہمارے درمیان زندہ اور موجود تھے لیکن انتظار حسین، مختار مسعود اور اب مشکور حسین یاد کے اوپر تلے رخصت ہوجانے کے باعث یہ تاثر بہت شدت اختیار کرگیا ہے کہ یہ صف بہت تیزی سے سمٹتی جا رہی ہے۔ اچھے لکھنے والے تو اب بھی ہیں اور آیندہ بھی آتے رہیں گے مگر ان میں سے ایسے لوگ کہ جنھیں اپنے دور کی پہچان کہا جاسکے اب شاید مقدار اور معیار دونوں حوالوں سے کمیاب ہوتے جائیں گے اور یہ مصرعہ زیادہ بامعنی ہوتا چلا جائے گا کہ ''اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم''
مشکور بھائی سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یہ کچھ ٹھیک سے یاد نہیں مگر غالباً یہ کوئی بین الکلیاتی قسم کا مشاعرہ تھا جس میں میں نے بطور طالب علم شاعر حصہ لیا تھا اور مشکور حسین یاد منصفین کی جیوری کے رکن تھے۔ یعنی یہ قصہ نصف صدی کا ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں۔ ان کی باڈی لینگوئج اور بات کرنے کا مخصوص انداز اس وقت بھی کم و بیش ایسے ہی تھے جیسے چند ماہ قبل آخری ملاقات کے دوران دیکھنے میں آئے۔ وہ اپنی بات دھڑلے سے کہنے کے عادی ہی نہیں تھے بلکہ اپنے اس رویے کا کھل کر دفاع بھی کرتے تھے کہ انسان کو تنقید، سزا اور استہزا سب سے بے نیاز ہوکر اپنی بات اپنے انداز میں کرنی چاہیے۔
ان کے اس رویے میں بظاہر ایک جارحیت سی تھی مگر اس کا تعلق خود پرستی کے بجائے ایک مخصوص نوع کی خوش دلی سے تھا کہ وہ خود اپنی کچھ عادات، کمزوریوں اور غلطیوں کا سب سے زیادہ مذاق خود اڑاتے تھے اور اپنی بھول چوک کی عادت سے متعلق واقعات اور قصوں کو چھپانے کے بجائے انھیں مزید مرچ مسالہ لگا کر خود سناتے تھے۔ اوائل عمر کے تلخ تجربات، قیام پاکستان سے ملحق فسادات کی دلخراش آپ بیتی اور ایک مفاد پرست اور طبقاتی معاشرے میں سیلف میڈ لوگوں کو پیش آنے والے چیلنجز کی سنگینی نے مل جل کر ان کے مزاح اور مزاج دونوں میں ایک ایسے طنزیہ رویے کی کاٹ پیدا کردی تھی کہ وہ اپنے سمیت کسی بھی فرد، طبقے، فلسفے، سوچ اور معاشرتی دباؤ کا کھل کر مضحکہ اڑاتے تھے۔
ہر بات کو خود پرکھنے اور اپنے نتیجے آپ نکالنے اور ان کے مطابق فیصلے کرنے پر عمل بھی کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ ان کی بیشتر مزاحیہ شاعری کے موضوعات اور انداز بیان میں آپ کو Sublime اور Ridiculous کا ایک ایسا امتزاج نظر آتا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ بحروں کے استعمال اور ردیف و قوانی کے چناؤ میں بھی وہ ہر قسم کے تجربات کرنے کے شوقین تھے اور یوں مہمل باتوں کو بامعنی اور بامعنی باتوں کو مہمل بناکر پیش کرنے کی ایک ایسی عجیب وغریب فضا آپ کو ان کی نثری اور شعری دونوں کی تحریروں میں ملتی ہے جسے قائم رکھنے کے لیے فنی دسترس کے ساتھ ساتھ اپنی ذات اور طرز فکر پر ایک ایسے غیر معمولی اعتماد کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس کا بوجھ اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مشکور بھائی نے یہاں بھی میر کے اس شعر کو نیا رنگ دیا ہے کہ؎
سب پہ جس یار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
وہ اردو ادب کے استاد، محقق، شاعر اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی اور بالخصوص فارسی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کوئی تیس برس قبل اپنے گھر پر دنیا بھر سے جمع کردہ بہترین چائے کے ذائقے چکھانے اور انھیں تیار کرنے کے آداب بتانے کے دوران انھوں نے فارسی کے کئی شعروں اور شاعروں کے حوالے سے ایسی دلچسپ اورمعلومات افزا گفتگو کی اور ان سے متعلق بعض ایسے گوشوں سے پردہ اٹھایا کہ ذہن اور ذوق دونوں ایک ساتھ سرشار ہوگئے۔ ہمارے مرحوم افسانہ نگار دوست محمد منشا بھی ان کی طرح یادؔ کا تخلص استعمال کرتے تھے۔
(یہ اور بات ہے کہ وہ ساری عمر نثر سے ہی منسلک رہے) لیکن اس کے علاوہ بھی ان دونوں میں ایک مشترک صفت اور مماثلت ایسی تھی جو توجہ طلب ہے اور وہ ان کی اپنی تہذیب اور کلچر سے وابستگی اور ان کی ادب کے حوالے سے بھر پور نمایندگی ہے کہ منشا نے پنجاب کے دیہات اور مشکور حسین یاد نے یو پی سی پی کے اہل زبان کی معاشرت کی اس بھرپور انداز میں ترجمانی کی ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر ان کے سمبل اور نمایندہ بن گئے ہیں۔
مشکور حسین یاد کو نئے، انوکھے،مشکل، متنازعہ اور چونکانے والے کاموں سے فطری دلچسپی تھی۔ لفظوں کے معانی، مفاہیم، ان کے پردوں کو کھولنے اوران میں موجود امکانات پر غور کرنے اور ان کو دریافت کرکے ایک نئے رنگ میں پیش کرنے کا ان کو بہت شوق تھا۔ سو ہم نے دیکھا کہ انھوں نے مرزا غالب کے کلام کی تشریح میں بعض ایسے نقاط اٹھائے ہیں جن سے آپ بھلے ہی اتفاق نہ کریں مگر ان کی ندرت فکر اور جولانی طبع کے ضرور قائل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری میں بھی فلسفے، تصوف اور خیال آفرینی کے حوالے سے کئی مقامات پر ان کی باتیں اور لفظ و معانی کے معاملات مشکل کی حدوں سے نکل کر ابہام کے ایک ایسے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں کہ آپ ان کے اخذ کردہ نتائج اور تشریح سے مکمل اتفاق نہ کرنے کے باوجود بھی ان کی تنوع پسندی اور تخلیقی اپج کی داد دینے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کسی زاویہ نظر کا نیا اور مختلف ہونا اپنی جگہ پر ایک اہم اور قابل توجہ بات ہے۔ ہمارے ادب میں اس طرح سے Out of Box ہوکر چیزوں اور مسائل کو دیکھنے کی روش تقریباً ناپید ہے۔ سو مشکور حسین یاد کی یہ کاوش لائق تحسین ہے کہ نیا سوال پیدا کرنا بھی ایک حوالے سے تخلیقی عمل ہی کا حصہ ہوتا ہے۔
ان کے بچوں اور جنازے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے احباب سے ان کی ذات صفات اور ادبی خدمات پر بہت سی باتیں ہوئیں جن کا لب لباب یہی تھا کہ مشکور حسین یاد نے اپنی طویل عمر سے بھر پور انصاف کرتے ہوئے ایک سیلف میڈ انسان کی طرح نہ صرف کامیاب زندگی گزاری بلکہ اپنی طبیعت کی تمام تر شوخی اور بے قاعدگی کے باوجود نہایت ذمے داری سے تمام انسانی اور معاشرتی ذمے داریاں نبھائیں اور ایک ایسا تاثر چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے کہ لوگ ان کے بارے میں محبت اور احترام سے بات کرتے ہیں اور یہی وہ توشہ ہے جو یقینا آخرت میں بھی ان کے کام آئے گا۔ وہ اللہ کے بندوں سے پیار کرنے والے اور ان میں آسانیاں تقسیم کرنے والوں میں سے تھے اور رب کریم ایسے لوگوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔