فطرت کی قربت سے دوری
خاموشی سے ایک طرف بیٹھ کر گانے سنتے رہیں یا کسی تعمیری کام میں مگن ہوجائیں
ISTANBUL:
ہر موسم کی اپنی انفرادیت اور خوبصورتی ہے۔ نومبر کے مہینے کا اپنا الگ مزاج ہے۔ خودکلامی اور کتاب پڑھنے کا جو مزہ سردیوں کے موسم میں ملتا ہے وہ رنگ آپ کو کسی اور موسم میں نظر نہیں آئینگے۔
خاموشی سے ایک طرف بیٹھ کر گانے سنتے رہیں یا کسی تعمیری کام میں مگن ہوجائیں۔ ہر لمحہ خوبصورتی لیے ہوتا ہے۔ ابھی سردیوں کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے، بس ایک ہلکی لہر آئی ہے البتہ موسمی بیماریاں زوروں پر ہیں۔ تھکن، گھبراہٹ اور افسردگی کی علامات عام طور دکھائی دیتی ہیں۔ مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں کہ دنیا کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھتے رہنے کی وجہ سے، دنیا چھ سو سالوں میں انسانوں کے رہنے کی قابل نہیں رہے گی لہٰذا انھیں کسی اور سیارے پر پناہ لینے پڑیگی۔ سوچئے ذرا جب درجہ حرارت دو سو پچاس۔ سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا، تو زمین پر زندگی کی موجودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ حقیقت ہے کہ ماحولیاتی آلودگی نے نہ فقط فطرت کی خوبصورتی کو بے حد متاثر کیا ہے بلکہ انسانی صحت بھی تیزی سے زوال پذیر ہے۔ جسمانی و ذہنی بیماریوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے ڈاکٹر رابرٹ بروک کا کہنا ہے کہ ''ذہنی دباؤ میں، ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔'' اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم آلودہ ہوا میں سانس لیتے ہیں تو اسٹریس ہارمونز بڑھ جاتے ہیں۔ اور مہلک بیماریاں حملہ آور ہوجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے زندگی کا دورانیہ کم ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا میں ہر سال نو ملین لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں۔ دنیا کے دس ملکوں میں انڈیا، نیپال، بنگلہ دیش، صومالیہ اور پاکستان بھی شامل ہیں، جو ماحولیاتی آلودگی کے متاثرین میں سرفہرست ہیں۔ حیاتیاتی کیمیا کی افزائش کی وجہ سے زندگی کیمیائی اشیا سے بھر چکی ہے۔ یہ خطرناک اجزا غذا سے لے کر کاسمیٹکس اور صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکلز تک زندگی پر برے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن میں اضافہ ہوا ہے۔
ملک کے مختلف شہروں میں سموگ کی وجہ سے لوگوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سموگ ہوا کی آلودگی ہے جو منظر پر دھند کی دبیز تہہ ڈال دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے روڈ ایکسیڈنٹ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ گراؤنڈ لیول اوزون، سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی وجہ سے معمر افراد اور بچوں کی صحت کو کئی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ کھانسی، دمے اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اکثر فیس ماسک بھی آلودگی کو جسم میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتے تاہم دہلی کے حالیہ سموگ میں ڈاکٹرز نے N-90 ماسک کو موثر قرار دیا۔ دہلی سمیت دنیا کے کئی ملک سموگ کے حملے سے نبردآزما ہیں۔ اس سنگین نوعیت کی ماحولیاتی آلودگی میں فقط بہتر غذا کے چناؤ اور لائف اسٹائل کے صحت بخش طریقوں سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ جسم کے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے صحت بخش غذا کا استعمال کارآمد رہتا ہے۔ جسمانی مشقیں دوران خون اور آکسیجن کا بہاؤ فعال رکھتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ زندگی کو اس وقت کئی خطرات کا سامنا ہے۔ جس میں ماحولیاتی آلودگی سرفہرست ہے۔ لہٰذا ہمیں حکمت عملی کے ہنر سے آگاہ ہونا پڑے گا۔ تھوڑی احتیاطی تدابیر سے کئی مسائل کا حل دریافت کیا جاسکتا ہے۔ گھروں میں ماحولیاتی آلودگی کا مقابلہ Air Purifiers سے کیا جاسکتا ہے۔ رات میں اکثر گلا خشک ہونے کی وجہ سے نیند متاثر ہوجاتی ہے۔ ہوا میں نمی کا تناسب برقرار رکھنے کے لیے Humidifiers استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ کان، ناک و گلے کی خشکی سے بچا جاسکے۔ بعض اوقات منہ سے سانس لینے کے باعث جسم کی کارکردگی بیحد متاثر ہوتی ہے۔
دور جدید کا انسان اپنی صحت کا خود دشمن بنا ہوا ہے۔ بے خوابی، غیر صحت بخش طرز زندگی، بیجا تشویش، دواؤں کا استعمال اور ذہنی دباؤ جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور بنا دیتے ہیں جسکے بعد موسم کی سختیاں جھیلنا انسان کے اختیار میں نہیں رہتا۔ آج کل سہل پسندی کا آزار بڑھا ہے۔ سست اور آرام دہ طرز زندگی انسان کی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ فرصت کی وجہ سے منفی سوچ الگ جسم و ذہن کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ تعمیری سرگرمیوں اور مشاغل کا قحط ہے۔ یکسانیت زندگی پر جمود طاری کردیتی ہے۔
بہت سے مسائل خودساختہ ہیں اور ہماری لاپرواہی کی وجہ سے جڑ پکڑتے ہیں۔ ہم چاہیں تو ممکنہ خطرے سے بچنے کی خاطر، گھروں، محلوں و شاہراہوں کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں۔ خوبصورت لباس، آرام دہ زندگی اور آسائشیں ہمارے کس کام کے جب ہمارے بچے حد درجہ آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہوں۔ تمام تر مسائل کو ایک طرف رکھ کے ہمیں ماحولیاتی آلودگی کے خلاف لڑنا ہے۔
یہ ایک خاموش اور سفاک قاتل ہمارے درمیان موجود ہے۔ جس کے نقصانات سے ہم جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں۔ ہم چاہیں تو گھر کے اندر اور باہر پودے اور درخت لگا سکتے ہیں۔ بجائے درخت لگانے کے ہم درختوں کو کاٹ رہے ہیں۔ دھڑا دھڑ پلازہ، شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹ تعمیر ہو رہے ہیں۔ لوگ ضرورت سے زیادہ کھانے لگے ہیں۔ یہ بسیار خوری ان کی زوال پذیر ذہنی صحت کی نشاندہی کر رہی ہے۔ آگے چل کر باہر کا کھانا زندگی کو بہت مہنگا پڑ جاتا ہے۔ ناقص غذا نے زندگی کے معیار کو بے حد متاثر کیا ہے۔ یہ ذہنی اور جسمانی ابتری غیر پیشہ ورانہ رویوں کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ ہر طرف منفی رویوں کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔ مزاج کے تعین میں غذا کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
خشک موسم سے لڑنے کے کئی طریقے موجود ہیں۔ پانی، مشروبات، سبز چائے و سوپ کا زیادہ استعمال، موسمی بیماریوں کے مقابلے کے لیے بہترین حل ہیں۔ سبزے سے مزین کھلی فضا، دھوپ اور فطری توانائی کی قربت، انسان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ آج ہماری زندگی میں جتنے بھی مسائل ہیں، ان کی بنیادی وجہ فطری زندگی کا استحصال اور فطرت سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت، آج کے انسان سے انتقام لینے پر مصر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی، کل کے مقابلے میں آج، کافی حد تک بہتر دکھائی دیتی ہے۔
مگر خودساختہ مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ صورتحال حسیاتی طور پر غیر متحرک ہونے کا نتیجہ ہے۔ حواس خمسہ اس وقت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے ہیں جب انھیں استعمال نہ کیا جائے۔ توانائی سے بھرپور مناظر اور کھلی فضائیں ایسا ذریعہ ہیں، جو ہماری تمام تر حسوں کو متحرک کردیتی ہیں۔ لفظ اس وقت تک بے اثر ہیں جب تک ان میں عمل کی تاثیر نہیں ملتی۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ لفظوں کی تکرار اور منفی جملوں کی گردان ہے۔ یہ عادات اس قدر پختہ ہوچکی ہیں کہ سماجی زندگی غیر فعال ہوکے رہ گئی ہے۔ لوگ لفظوں سے تبدیل نہیں ہوتے۔ انھیں عملی مثال چاہیے جس کی تقلید انھیں بہتر راستوں کی طرف لے کر جاسکتی ہے۔
انسان کو جس قدر اپنے منتشر ذہن سے خطرہ لاحق ہے، شاید ہی کسی دشمن سے ہو۔ ذہن اسے مسائل کی تکرار میں الجھائے رکھتا ہے۔ الجھنیں اسے حل تلاش کرنے سے روکے رکھتی ہیں۔ تمام تر مسائل کا حل حقیقت پسندی کے رجحان میں پوشیدہ ہے۔ حقیقت کی قبولیت یا حقائق کو سمجھنا ایسا منطقی رویہ ہے جو فراریت کے بھنور سے کھینچ کر باہر لے کر آتا ہے۔ مسائل کو تمام تر حقائق سمیت قبول کرلینا چاہیے۔ جب ہم مسائل کو دھتکارتے ہیں وہ مزید ڈھیٹ بن کر ہم سے چمٹ جاتے ہیں جب کہ مسائل کی سمجھ اور قبولیت نہیں ہے لہٰذا ہمیں حل بھی نہیں مل پاتا!