اینٹی ایچ آئی وی کریم تیار کرنے کی کوششیں ایڈز کے خلاف نئی امید

کریم محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے تیارکی ہے اور اس کے حوالے سے رپورٹ طبی جریدے PLoS Pathogens میں شائع ہوئی ہے۔


Muhammad Akhtar March 10, 2013
کریم محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے تیارکی ہے اور اس کے حوالے سے رپورٹ طبی جریدے PLoS Pathogens میں شائع ہوئی ہے۔ فوٹو : فائل

ایڈز کی بیماری دنیا بھر کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے اوراس کے علاج کے لیے طرح طرح کی دوائیں تیار کی جارہی ہیں۔

ان ہی دواؤں میں ایک نیا اضافہ ایک کریم یا جیل ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایڈز کے خلاف یہ پہلی دفاعی لائن ہے۔ سٹڈی کے مطابق یہ کریم ایڈز کے خلاف پہلی دفاعی لائن اس لیے قرار دی گئی ہے کیونکہ اگر اس کو لگالیا جائے تو وائرس کو خلیات میں داخل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

یہ کریم محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے تیارکی ہے اور اس کے حوالے سے رپورٹ طبی جریدے PLoS Pathogens میں شائع ہوئی ہے۔یہ کریم ایچ آئی وی کو بہت چالاکی سے دھوکہ دیتی ہے اوراس ریسپٹر کاراستہ روکتی ہے جس کے ذریعے ایچ آئی وی کا وائرس مدافعتی خلیات تک رسائی حاصل کرتا ہے۔تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر اوبیسی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اصل میں اس میں ہوتا یہ ہے کہ کریم کے ذریعے اس مخصوص جگہ کا رستہ بلاک کردیا جاتا ہے جہاں سے وائرس مدافعتی نظام کے خلیات میں داخل ہوتا ہے۔

تحقیق کے فرانس سے تعلق رکھنے والے شریک کار لوئک مارٹن کا کہنا ہے کہ یہ کریم اپنی کارکردگی کے اعتبار سے بہت کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔حال ہی میں تیار کی جانے والی اس کریم کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کو ابھی فی الحال ایچ آئی وی کے حوالے سے تحقیق میں استعمال نہیں کیا جارہا ۔ڈاکٹر مارٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ کریم وائرس کو پھیلنے سے روک سکتی ہے جو کہ فی الحال روایتی دواؤں کے خلاف خاصا مزاحم ہوچکا ہے۔

اس مرحلے پرمذکورہ کریم کو صرف بندروں پر ہی آزمایا جارہا ہے اور ابھی انسانوں پر اس کو آزمانے کے لیے کم ازکم پانچ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔اس دوا کی مکمل طورپر کامیابی ثابت ہونے کی صورت میں ایڈز کے خلاف علاج میں ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے کیونکہ فی الحال یہ بیماری دنیا بھر میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

ایڈز کے علاج کے لیے کریم تیار کرنے کی کوششیں 1990 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوئی تھیں جب تولیدی جرثوموں کو ہلاک کرنے والے ایک جیل کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ یہ ایچ آئی وی وائرس کو بھی ہلاک کرسکتا ہے۔ تاہم اس کے بعد جب طبی تجربات کیے گئے تو یہ جیل انفیکشن کو روکنے کے بجائے الٹا شدید نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس جیل کی وجہ سے ورم پیدا ہوا اور دفاعی نظام کے خلیات تیزی سے اس ورم کی جانب بڑھتے دکھائی دیے اور یہی وہ خلیات تھے جو ایچ آئی وی وائرس کا پسندیدہ شکار ثابت ہوئے۔اس طرح یہ ایسی کشتیاں ثابت ہوئے جن کے ذریعے وائرس جسم میں داخل ہوگیا۔

پھر 2007ء میں مارکیٹ میں متعارف کرایا جانیوالا ایک جیل بھی واپس لے لیا گیا کیونکہ یہ بھی الٹا ایچ آئی وی میں اضافہ کررہا تھا۔کیس ویسٹرن ریزرو یونیورسٹی امریکہ کے ڈائریکٹر کینسر ریسرچ مائیکل لیڈرمین نے اعتراف کیا کہ ایچ آئی وی کریم کے ابتدائی تجربات کے نتائج خاصے خراب نکلے تھے۔انہوں نے بتایا کہ اس سے استعمال کنندگان پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب جو نئی کریم تیار کی گئی ہے یہ صرف منتخب کردہ حصوں کو ہدف بناتی ہے اور امید ہے کہ موثر اور مفید ثابت ہوگی ۔

ادھر ڈاکٹر اوبیسی کا کہنا ہے کہ اس وقت کم ازکم نو مختلف کریمیں انٹی ایچ آئی وی کے طور پر آزمائی جارہی ہیں جن میں صرف چند ہی موثر دکھائی دے رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کریموں کی تیاری میں بہت محنت کی گئی ہے۔ یہ کریمیں خواتین کے لیے ہیں جن کو لگا کر وہ خود کو ایڈز سے بچاسکتی ہیں کیونکہ ایڈز سے بچنے کے لیے خواتین کے پاس اختیار بہت کم ہوتا ہے۔سب صحارن افریقہ جہاں ایڈز کی بیماری سب سے بلند سطح پر ہے وہاں جو نئے کیس سامنے آرہے ہیں ان میں ساٹھ فیصد عورتیں ہیں۔

ڈاکٹر اوبیسی نے مزید بتایا کہ دنیا کے بہت سے حصوں بالخصوص ایسی جگہوں پرجہاں ایڈز بہت پھیلی ہوئی ہے، وہاں جنس کے حوالے سے کئی قسم کے امتیازی معیارات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے عورتوں کے لیے بہت مشکل ہوچکا ہے کہ وہ خود کو ایچ آئی وی اورایڈز سے بچاسکیں۔ جہاں وہ روایتی طریقے جن کے ذریعے ایڈز سے بچاسکتا ہے ، وہ عورتوں کے اختیار میں نہیں اور یوں ان کے ایچ آئی وی میں مبتلا ہونے کا امکان دن بدن بڑھ رہا ہے اور اعدادوشمار بھی اسکی گواہی دیتے ہیں۔افریقی ممالک جیسے کینیا ، نمیبیا ، جنوبی افریقہ اور زمبابوے میں تو صورت حال بہت خراب ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ایڈز کی دواؤں اور مرکبات کی تیاری کی کوششیں جاری ہیں اور فی الحال مارکیٹ میں جو ادویات موجود ہیں ، وہ زیادہ موثر نہیں۔انہوں نے کہا کہ ان دواؤں کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ ضروری احتیاطیں چھوڑ دی جائیں۔پروفیسر گاڈفرے فاسٹ کے بقول ایڈز کا علاج دن بدن مہنگا بھی ہورہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں اور لوگوں کے لیے علاج کرانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جیل یا کریم کی تیاری اصل میں علاج نہیں بلکہ بچاؤ کی تدبیر ہے اوراس کے لیے بھی مزید سٹڈیز درکار ہیں۔

ڈاکٹر اوبیسی اور ڈاکٹر فاسٹ کا کہنا ہے کہ ایچ آئی اے کے خلاف ویکسین ، گولیوں اوردیگر ادویات کے مقابلے میں کریم کی تیاری اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ بچاؤ کی تدبیر کرتی ہے اور ایچ آئی وی کے وائرس کو جسم میں داخل ہونے سے روکتی ہے۔اس کے علاوہ یہ خواتین کے لیے ہے جو بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ہمیشہ بے اختیار رہی ہیں۔یہ کریم انہیں اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو ایچ آئی وی ایڈز جیسی مہلک بیماری سے محفوظ رکھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں