مچھروں نے اپنی دشمن دوا کے خلاف مزاحمت پیدا کرلی

ایڈس ایجپٹی نامی مچھر پر کی گئی جو کہ ڈینگی اور زرد بخار پھیلانے والا مچھر ہے۔۔


Muhammad Akhtar March 10, 2013
ایڈس ایجپٹی نامی مچھر پر کی گئی جو کہ ڈینگی اور زرد بخار پھیلانے والا مچھر ہے۔ فوٹو: فائل

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مچھروں کو بھگانے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال ہونیوالی دوا ''ڈیٹ''Deet اب مچھروں کے سامنے بے بس ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے محققین کے مطابق طویل عرصہ تک یہ دوا مچھروں کو بھگانے کے لیے کامیاب رہی ہے لیکن اب یہ اپنی تاثیر کھورہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ڈیٹ، جو کہ امریکی فوج کی ایجاد تھی ،کا متبادل تلاش کیا جائے۔

مذکورہ بالا تحقیق کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ ایڈس ایجپٹی نامی مچھر پر کی گئی جو کہ ڈینگی اور زرد بخار پھیلانے والا مچھر ہے۔اس تحقیق کے نتائج جریدے پلوس میں شائع ہوئے ہیں۔مذکورہ بالا طبی ادارے کے ڈاکٹر جیمز لوگن کا کہنا ہے کہ جتنا ہم مچھر بھگانے والی ادویات کے بارے میں اور مچھروں میں ان کے خلاف مزاحمت کے بارے میں مزید جانیں گے اتنا ہم اس بات کو روکنے میں کامیاب ہوں گے کہ ان کو مچھروں کے لیے ناقابل مزاحمت بنایا جائے۔

یاد رہے کہ ڈیٹ اصل میں ایک ایسا کیمیائی جز ہے جسے مچھربھگاؤ تیلوں،کوائل اور دیگر ادویات میں شامل کیا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جنگلوں میں لڑی جانیوالی جنگوں سے حاصل ہونے والے تجربات کے بعد اس جز کو امریکی فوج نے تیار کیا تھا۔

طویل عرصے تک یہ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ یہ کیمیائی جز کیسے کام کرتا ہے لیکن پھر حالیہ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ مچھر محض اس کی بو کی وجہ سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ انہیں یہ بو پسند نہیں۔لیکن اب معلوم ہورہا ہے کہ مچھر اس کی بو کو نظر انداز کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔تحقیق کے سلسلے میں لندن سکول کے محققین نے ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کو آزمانے کے لیے انسانی بازو پر ڈیٹ لگا کر مچھروں کو کاٹنے کے لیے بڑھایا ۔ توقع کے مطابق مچھر بازو کے قریب جانے سے باز رہے لیکن کچھ گھنٹوں بعد یہی عمل دوبارہ دہرایا گیا اور انہی مچھروں کو آگے کیا گیا تو پتہ چلا کہ ڈیٹ اب بہت کم موثر تھی اور مچھروں نے بازو پر کاٹ لیا تھا۔

ایسا کیوں ہوا؟ یہ جاننے کے لیے محققین نے مچھروں کے انٹینا یا مونچھوں پر الیکٹراڈز لگائے۔اس سے پتہ چلا کہ مچھروں کی مونچھوں یا انٹینا جو کہ سونگھنے کے آلے تھے ، وہ کیا ردعمل ظاہر کررہے تھے۔اسی سے یہ بات سامنے آئی کہ اب ڈیٹ کی دوا ان پر زیادہ اثر نہیں کررہی تھی اور وہ تھوڑی سی جدوجہد کے ساتھ اس کو نظرانداز کرنے میں کامیاب ہورہے تھے۔

اسی ٹیم کے محققین کی پہلی تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ مچھروں کی بعض اقسام میں اس قسم کی جینیاتی تبدیلیاں ہوچکی ہیںجس سے وہ ڈیٹ کے خلاف مزاحمت پیدا کرچکے ہیںحالانکہ اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ کیا جنگلوں میں موجود مچھربھی ایسی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔

ڈاکٹر لوگن کاکہنا ہے کہ یہ بات جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ آیا مچھروں میں ہونیوالی یہ تبدیلیاں مستقل جینیاتی تبدیلیاں ہیں یا کوئی عارضی صلاحیت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مچھر اپنے اندر ارتقاء کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق کامطلب یہ نہیں کہ لوگ ڈیٹ کا استعمال چھوڑ دیں تاہم ان سائنسدانوں کے لیے یہ تحقیق مفید ہے جو اس کا کوئی اور متبادل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں