بُک شیلف

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کا شمار ان گِنے چنے لوگوں میں ہوتا تھا، جن کی ذات قدیم و جدیم علوم کا سنگم تھی۔


علی احمد بیگ March 10, 2013
فوٹو : فائل

خطباتِ کراچی

مؤلف: ڈاکٹر محمود احمد غازی
صفحات:304، قیمت: 250روپے

ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، کراچی, اے۔4/17، ناظم آباد نمبر4، کراچی

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کا شمار ان گِنے چنے لوگوں میں ہوتا تھا، جن کی ذات قدیم و جدیم علوم کا سنگم تھی۔ سیرتِ پاک، اسلامی قوانین، اسلامی تعلیم، تاریخ اور معاشیاتِ اسلامی اُن کا خاص موضوع تھے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی علمی قابلیت سے عوام الناس اور طبقۂ علما دونوں ہی مستفید ہوئے ہیں۔ بلاشبہہ انھیں عالم ِ اسلام کی ان لائق شخصیات میں شمار کیا جاسکتا ہے، جو ہر آن امت کی نبض پر نظر رکھتے تھے اور عصرِ حاضر میں ہونے والی فکری و تہذیبی تبدیلیوں اور اس کے مزاج سے کماحقہٗ واقف تھے۔

ڈاکٹر محمود غازی تحریر ہی نہیں خطابت پر بھی عبور رکھتے تھے۔ اس ضمن میں وہ خود کو اسلام کا داعی خیال کرتے تھے۔ ان کا اخلاص ان کی تحریروں اور تقریروں سے عیاں ہے۔ پیشِ نظر کتاب ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کے اُن خطبات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے ''مولانا سید زوار حسین شاہ سالانہ یادگاری لیکچر'' کے تحت 2007ء سے 2010ء کے دوران دارالعلم والتحقیق میں دیے تھے۔ سرِدست تفصیل کے ساتھ ان خطبات پر اظہارِ خیال ممکن نہیں۔ تاہم جن موضوعات پر یہ خطبات دیے گئے ہیں، ان کے عنوانات سے اِن کی افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

پہلا خطبہ ''اسلام اور مغرب۔ موجودہ صورتِ حال، امکانات ، تجاویز''، دوسرا خطبہ ''اسلام شریعت۔ مقاصد و حکمت''، تیسرا خطبہ ''اسلامی سزائوں کا تصور اور مغربی قوانین'' اور چوتھا خطبہ ''علم ِ سیرت اور مستشرقین'' جیسے اہم اور وقیع موضوع پر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے لیکچر کا انداز جدید اسلوب پر استوار، رواں، مدلّل، واضح اور علمیت سے بھرپور ہے۔ ابہام، الجھائو، تکرار، پیچیدگی کا یہاں گزر نہیں ہے۔ یہ خطبات محض زورِکلام اور ظاہری لفظوں کی چکاچوند کے بجائے قوّتِ استدلال کے ساتھ قیمتی معلومات کا بیش بہا خزانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ وسعت ِنظری اور گہرائیِ فکر رکھتے ہوئے علوم و معارف کے دریا انھوں نے جس سہل انداز میں بہائے ہیں، بلاشبہہ یہ اُن ہی کا حصہ ہے۔

جس موضوع پر انھوں نے کلام کیا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تاریخ گویا ان کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ ان کی زبان سے نکلی ہوئی بات ہر قسم کے کھوٹ سے پاک اور محققانہ ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کو پیش کرنے میں انھوں نے ہمیشہ اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے اور اسی توازن کے ساتھ انھوں نے معترضین کا رد کیا ہے۔ دشمنانِ اسلام میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنے مذہب کے کم زور پہلوئوں اور بے سروپا نظریات پر پردہ ڈالنے کے لیے رسالتِ مآب ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں عیب نکالنے کی ناکام کوشش کے ذریعے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرتا ہے۔

اپنے خطبہ بعنوان ''علمِ سیرت اور مستشرقین'' میں ڈاکٹر صاحب نے ان مستشرقین کی حقیقت واضح اور کتبِ سیَر میں درج کم زور روایات کو بنیاد بناکر اعتراض کرنے والے مستشرقین کی گرفت کی ہے۔

نیز جن مستشرقین نے غلط ترجموں کے ساتھ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی، غازی صاحب نے اُن کے اس فریب یا ''علمیت'' کا پردہ چاک کردیا ہے۔ وہ مغربی تہذیب و فکر سے نبرد آزما ہونے اور اُن سے فکری لحاظ سے مقابلہ کرنے کے لیے ان بنیادوں کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جن سے مغربی تہذیب کی تعمیر ہوئی ہے۔

ان خطبات کو کتابی شکل میں شایع کرنے والے جناب عزیز الرحمٰن ہماری تہنیت، شکرگزاری اور دعائے خیر کے مستحق ہیں، جنھوں نے عالمِ اسلام کی اس عبقری شخصیت کے خطبات کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ یہ پُرمغز خطبات دعوت دیتے ہیں کہ ان کا مطالعہ کرکے غور و فکر کیا جائے، جس کی فی زمانہ اشد ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں