جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

عوام تو بے چارے ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی مکمل تصویر بنے ہوئے ہیں۔


نجمہ عالم November 17, 2017
[email protected]

''اگر ہمیں اقتدار ملا تو ہم ملک کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے، اگر ہمیں عوام کی خدمت کرنے دی جائے تو ہم کراچی شہر کا امن و سکون اور کھوئی ہوئی ثقافت دوبارہ بحال کردیں گے، ہم اقتدار میں آکر نہ صرف نیا پاکستان تشکیل دیں گے بلکہ تمام اداروں کو ان کی حدود میں مکمل آزادی و خودمختاری سے کام کرنے کا موقعہ دیں گے'' وغیرہ وغیرہ۔ روز کے اخبارات ایسے دعوؤں اور عزائم سے بھرے ہوتے ہیں ۔

عوام کی خدمت اور ملکی بہتری کا جذبہ ہر طرف ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے مگر یہ جذبہ اقتدار سے مشروط ہے۔ اب ذرا سوچیے ''خدمت خلق'' کا اقتدار سے کیا تعلق؟ مانا کہ اگر اختیارات ہوں تو کام بحسن وخوبی بلا کسی رکاوٹ کے ہوسکتا ہے، مگر خدمت عوام بلا اختیار و اقتدار بھی کی جاسکتی ہے۔کچھ خدمات تو ایسی ہیں جن میں روپے پیسے کی بھی ضرورت نہیں یا تھوڑی بہت رقم سے بھی آپ اپنے جذبہ خدمت کی تسکین کا سامان کرسکتے ہیں۔ مثلاً سب سے بڑی مثال تو مرحوم عبدالستار ایدھی کی ہے جنھوں نے بلا مال و دولت کے خدمت خلق کی وہ مثال قائم کی جو پوری دنیا کو حیران کرگئی۔ مثالیں بے شمار ہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں لوگوں نے کس کس طرح بے سہارا لوگوں کی نہ صرف مدد کی ہے بلکہ ان کو خود اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے دوسروں کا سہارا بننے کے قابل بنادیا، مگر خود اپنا نام تک سامنے نہ آنے دیا۔

ایک مثال اس وقت پروین سعید کی ذہن میں آرہی ہے کہ انھوں نے کس طرح اپنے لیے صرف دو جوڑے کپڑے رکھ کر باقی ضرورت مندوں میں تقسیم کردیے۔ اپنی ماہانہ آمدنی سے اپنی ضرورت کو بالکل محدود کرکے ''کھانا گھر'' کا آغازکیا اور دن بھر محنت مشقت کرنے کے باوجود بھوکے رہنے والے محنت کشوں خصوصاً بچوں کو پیٹ بھر کھانے کا بندوبست کیا اور وہ عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے صرف ایک روپے میں سالن اور روٹی ساتھ مفت وہ بھی اتنی کہ پیٹ بھر جائے۔ اب تو ان کا یہ کام اس قدر بڑھ گیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد بھی کی اور ان کا ساتھ دینے والے پہلے خود ان کے گھر والے اور بعد میں اور افراد بھی شامل ہوتے رہے۔ مگر انھوں نے اپنی اس خدمت خلق کے عوض کوئی بڑا عہدہ یا فائدہ طلب نہیں کیا۔ اس طرح کے بے لوث افراد پر تو الگ ہی اظہاریے کی ضرورت ہے۔

ہمارا آج کا موضوع ایسے مخلص و بے لوث خادمان قوم نہیں بلکہ وہ سیاسی خادم ہیں جو خدمت خلق کا نام حصول اقتدار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دعوے بڑے بڑے ہیں مگر ذرا ان کا طرز زندگی ہی ملاحظہ فرما لیجیے تو ان کے عزائم کا پول کھل جائے۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر اتنی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے ذرایع آمدنی کیا ہیں؟ ہر روز ہر شہر میں بڑے بڑے جلسے، اسٹیج، مائیک (ساؤنڈ سسٹم)، کرسیاں وغیرہ وغیرہ۔ آخر یہ سب کہاں سے ہوتا ہے؟ کیسے ہوتا ہے؟

دو سیاسی جماعتوں کو تو پاکستانی عوام اچھی طرح آزما چکے ہیں۔ اگر ان کی لوٹ مار کے اعداد و شمار یکجا کیے جائیں تو ہم دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوں گے کہ اتنا کچھ غیر ممالک جاچکا اس پر بھی لشٹم پشٹم ملک ابھی تک چل رہا ہے۔ جو ابھی آزمائے نہیں گئے وہ بھی اپنی بات کا آغاز ''ہم اقتدار میں آکر یہ کریں گے وہ کریں گے'' سے ہی کرتے ہیں۔ جو تھوڑا بہت اختیار حاصل ہے اس میں تو کوئی ایسی مثال قائم نہ کرسکے کہ عوام آنے والے دور کے لیے کچھ پرامید ہوں اور سوچیں کہ بس ہمارے برے دن ختم اور سنہری دورکا آغاز ہونے ہی کو ہے ''چند روز میری جان فقط چند ہی روز''۔

ترس آتا ہے ان ماؤں پر جو ایک دن میں چار پانچ گھروں میں جھاڑو پوچا کرکے، برتن دھو کرکس کس طرح اپنے بچوں کی نہ صرف پرورش کر رہی ہیں بلکہ ان کو اچھے اسکولوں میں پڑھانے کی کوشش بھی ، اس آس پرکر رہی ہیں کہ ہمارے بچے اچھا مستقبل پاسکیں اور شاید ہمارا بڑھاپا کچھ بہتر گزر جائے، مگر وہ نہیں جانتیں کہ ان کے لائق اور قابل بچوں کے ہاتھ میں اعلیٰ ڈگری ہوتے ہوئے بھی اعلیٰ عہدہ کسی بڑے جاگیردار کے نالائق بیٹے کو ہی حاصل ہوگا اور ان کا بیٹا اپنی لیاقت (بلا ٹیوشن) سے حاصل کردہ ڈگری کے ساتھ یا ٹیکسی چلا رہا ہوگا یا رکشہ اور اگر یہ بھی حاصل نہ ہوسکا تو خود کو نشے میں ڈبو کر تمام غموں سے نجات کا کوئی راستہ تلاش کرلے گا۔ اگر ایسا نہ بھی کیا تو حق حلال کی کمائی تو اس کا مقدر بن ہی نہیں سکتی۔

2018 کے انتخابات جوں جوں قریب آتے جا رہے ہیں، سیاسی سرگرمیاں اتنی ہی تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ مگر اس تیزی میں کوئی مثبت پہلو کم ہی نظر آتا ہے۔ اب سیاستدان اپنے کارناموں، کامیابیوں، خدمت خلق کے تذکروں کے بجائے مخالفین پر بے ہودہ، لغو اخلاق سے گرے ہوئے الزامات عائد کرکے اپنے قد بڑھاتے نظر آرہے ہیں۔ کوئی فرماتا ہے ہم تو کئی پشتوں سے یہ کام کرتے آرہے ہیں مگر فلاں (اپنے مخالف کا نام لے کر) کے دادا تو غدار تھے، ڈاکو تھے، مفرور تھے وغیرہ وغیرہ۔ فلاں کی بیوی اس کو فلاں وجہ سے چھوڑ کر بھاگ گئی تھی تو جواب میں اس کی تردید کے بجائے مخالف کی والدہ کی شان میں کوئی اخلاق سے گرا ہوا الزام لگادیا جائے گا جیسے اس طرح خود ان کا دامن پاک اور معاشرتی درجہ بلند ہوگیا اور مخالف تو کسی کو منہ دکھانے کے لائق ہی نہ رہا، مگر الزام در الزام کا بازار گرم ہے اور شرم کسی ایک کو بھی چھو کر نہیں گئی۔

جہاں تک عزت دار سیاستدانوں (جو اس گندگی میں براہ راست ملوث نہیں) کا تعلق ہے وہ زبان غیر اخلاقی بے شک نہ استعمال کرتے ہوں مگر سیاست ان کی بھی صرف ان کے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ملکی یا صوبائی مفادات سے اتنا سروکار نہیں مگر آیندہ انتخابات میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے نئے نئے گر آزمائے جا رہے ہیں۔

ہم پہلے کبھی کئی بار بتا چکے ہیں کہ سندھ کے سیاستدان اور حکمران دونوں باتیں بنانے اور کچھ نہ کرکے دکھانے کے گویا عادی ہوچکے ہیں۔ بڑے بڑے دعوے تواتر کے ساتھ ترقیاتی کاموں کے سامنے آرہے ہیں۔ یہ کردیا ہے، یہ کرنے والے ہیں، اتنے منصوبے آیندہ چند ہفتوں یا مہینوں میں مکمل ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مگر گزشتہ دنوں سندھ کے تمام ترقیاتی کاموں کے دعوے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوگئے۔ سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران بتایا گیا ہے کہ 2011-12 کے ایک ہزار منصوبوں میں سے پانچ سال گزرنے کے باوجود بیشتر نامکمل ہیں اور جب کہ 157 منصوبوں پر کام کا آغاز ہی نہیں ہوسکا اور کئی منصوبے ختم ہی کردیے گئے ۔

محکمہ تعلیم میں سنا تھا کہ ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی مگر سیکڑوں اسکیمیں شروع ہی نہ ہوسکیں۔ باتیں تو بہت ہیں اور ذرایع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچ بھی رہی ہیں۔ حتیٰ کہ مردم شماری میں بھی ہاتھ دکھایا گیا ہے اور اب قائد حزب اختلاف کا فرمانا ہے کہ آیندہ انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر ہی کرائے جائیں جب کہ دیگر کئی جماعتیں مردم شماری کے نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کو درست کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ ایک سیاستدان نے تو یہ تک کہا ہے کہ آدم شماری کے بجائے آدم خوری کی گئی ہے۔

ملک بھر سے روزانہ کی بنیاد پر کراچی آنے والوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود شہر کی آبادی کم ہونا تعجب خیز نہیں؟ جب کہ دیہاتوں کی آبادی میں اضافہ ہونا اس سے بڑھ کر تعجب خیز ہے۔ اس تناظر میں قائد حزب اختلاف یہ کہہ کر کہ پرانی حلقہ بندی کے مطابق آیندہ انتخابات بروقت ہونے چاہئیں مزید شک و شبے میں مبتلا کر رہے ہیں کہ جو نشستیں حاصل ہوگئی تھیں درست مردم شماری کے باعث کہیں وہ بھی ہاتھ سے نہ چلی جائیں تو یہ ہے قوم کا درد اور خدمت خلق کا جذبہ۔

مندرجہ بالا ترقیاتی اعداد و شمار کی خبر کے عین نیچے خبر ہے کہ ''انتخابات میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی'' وزیر اعلیٰ سندھ۔ گویا پانچ سال (تقریباً) کچھ نہ کرکے بھی اگلے انتخابات کے لیے اتنے پرجوش شاید اسی کو کہتے ہیں ''جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے'' عوام تو بے چارے ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی مکمل تصویر بنے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔