دھڑام
معاشی بدحالی سے حکومتوں کی جڑیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں اور ویسے بھی حکومت تو ایک پاؤں پر کھڑی ہے
KARACHI:
مہنگائی معیشت کے لیے تباہ کن ہوتی ہے، یہ معاشی نموکے پہلے اشاریے یعنی طلب کو تہس نہس کردیتی ہے، اشیا وخدمات کی ڈیمانڈ گری تو فیکٹریاںاورکمپنیوں کا پہیہ گھومنا بھی سست پڑجاتا ہے، پیداوار کم ہوتی ہے تو آمدنیاں بھی سکڑجاتی ہیں، ملازمتیں ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور حکومتوں کو ٹیکس ریونیو بھی کم ملتا ہے۔ قومی اخراجات کے لیے پیسے نہیں ہوتے پھر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومتوں کو قرض کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
یہ ایک سیدھی سی بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے کسی سائنس کی ضرورت نہیں، یعنی معیشت کو ترقی دینی ہے تو مہنگائی کو روکنا ہوگا اور افراط زرکی شرح کو اس سطح پر رکھنا ہوگا جہاں عوام کی قوت خرید متاثر نہ ہو اور سرمایہ کار یا تاجر کو معقول منافع ملے اور اس کا کاروبار چلتا رہے۔
یہ توازن بگڑا تو معیشت کا پہیہ پٹڑی سے اترجائے گا، اشیاوخدمات اگر اپنی وقعت کھودیں (سپلائی میں اضافے وغیرہ کی صورت میں) اور قیمتیں اس قدر گر جائیں کہ لاگت بھی پوری نہ ہو توکاروبار ترقی نہیں کرسکتا اور کمپنیاں بھی نہیں چل سکتیں۔اس کے لیے معقول منافع بہت ضروری ہے اور اگر اشیا وخدمات اتنی مہنگی ہو جائیں کہ عوام کی ان تک رسائی ہی نہ ہو تو بھی معیشت ترقی نہیں کرسکتی، یہ ایک نہایت باریک لائن ہے جہاں توازن برقرار رکھتا ہوتا ہے تاکہ معاشی نمو میں اضافہ ہو۔
اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مہنگائی نام ہے اشیا وخدمات کا عوام کی قوت خرید سے باہر جانے کا جب کہ افراط زر کہتے ہیں قیمتوں میں اضافے کی رفتارکو، یعنی یہ دونوں اشاریے ہرصورت ایک دوسرے کا متبادل نہیں مگر پاکستان جیسی معیشت میں انفلیشن ریٹ مہنگائی کا متبادل ہو سکتا ہے جہاں اشیا وخدمات کبھی عوام کی رسائی میں نہیں رہتیں۔ اس لیے پاکستان کا اصل معاملہ ہے ہی مہنگائی، یہاں سرکاری اعداد وشمار سے قطع نظر عمومی صورتحال پیش نظر ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کی وجہ ضروری نہیں کہ اشیا وخدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہو (اگرچہ یہ کیس بھی ہے) بلکہ اس کا تعلق عوام کی قوت خرید سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان میں غربت کے شکار عوام کی تعداد زیادہ ہے، یہاں غربت کی شرح 39 فیصد ہے، شہروں میں 9.3 فیصد غریب ہیں تو دیہات میںآدھی سے بھی زیادہ یعنی54.6 فیصدآبادی افلاس کا شکار ہے۔
اس کا مطلب صاف ہے، یہ تعداد روزمرہ ضرورت کی اشیا خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ اس لیے اس طبقے کا معیار زندگی آپ کی سوچ ہے، تعلیم وتربیت، رہائش ولباس، صحت وتوانائی 'پیٹ بھرے کی مستی' لگتی ہے، دو وقت کی روٹی ہی بس زندگی اور معیشت کو ترقی دینے کے لیے کئی منصوبوں کے ساتھ رات دن محنت اور اس بڑی تعداد کو ''گردش ایام'' سے نکالنے کے لیے حکمت عملی ''2 روپے کی روٹی اور بینظیرکارڈ''۔
یعنی مصنوعی سانس سے زندگی کی ڈورجڑی ہے اور ترقی کا دعویٰ ہے، دھکیلہ پیچھے جا رہا ہے اور پھر یہ کہ گاڑی آگے کیوں نہیں بڑھ رہی، پالیسیاں ایسی ہیں کہ زندگی کٹ جائے مگر زندگی نہ کٹے اور دعویٰ یہ کہ ملک کو ''ایشین ٹائیگر'' بنادیں گے، اب پاکستان میں تو لوگ ہنسنا بھول گئے ہیں مگر عوام کی حالت اس سے زیادہ بگڑ سکتی ہے اس لیے باہر سے ٹھٹوںکی آوازیں ضرور آتی ہیں، اقتصادی میدان کا سرکاری حکیم نبض دیکھ کر مسئلہ سمجھنے سے عاری ہے، یہاں ٹیکس لگا کرمہنگائی کا حل دھونڈا جاتا ہے، تجارتی خسارہ بڑھ گیا لہٰذا کوئی بھی چیز باہر سے نہ آنے پائے چاہے آپ کے پاس مقامی طور پر دستیاب ہی نہ ہو۔
یہ مسائل کے حل ہیں، لگتا ہے کسی نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا، تجربہ چاہے خراب ہی کیوں نہ ہو مگر روایت کے طور پر ہی سہی عمل کرنے میں کیا حرج ہے لیکن یہاں کسی بااثرحلقے سے دباؤ آیا اور وہاں غلطی کا احساس ہوا اور معیشت کو غیرضروری بوجھ سے آزاد کرانے کے لیے پرانے فیصلے پر نظرثانی ہوئی اور پھر بڑی بڑی گاڑیاں بھی باہر سے پھر آنے لگیں گی۔
یہ بات حکومت جان نہیں سکی کہ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلے اسے سمجنا ضروری ہے ورنہ بخار میں پیٹ درد کی دوا کا اثر نہیں ہوگا، اب اشیا پر ٹیکس لگا کر اس کا اثر کم کرنے کے لیے سبسڈی دینے کا کھیل بند ہو جانا چاہیے۔ غربت ختم کرنے کے لیے روزگارکے مواقعے پیدا کرنے کی ضرورت ہے، 'اپناکماؤ اور اپنا کھاؤ' کا نعرہ لگنا چاہیے۔
حکومت محض کمائی کے طریقوں کے لیے بیج بوئے، اس کی آبیاری کرے، ماحول بنائے، سہولت دے تو روزگارکی فصل خود ہی پھلے پھولے گی ورنہ قرضے لے کر معیشت کو ترقی دینے کے جاگتے خوابوں سے سبسڈی کا چکرکبھی ختم نہیں ہوگا، یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دس بیس نہیں لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنا ہے۔ ہر سال یہ تعداد بڑھتی ہے اس لیے صرف انٹرپرینیورشپ اور خود روزگار کے سہانے خوابوں سے کام نہیں چلے گا، بڑے پیمانے پر نوجوانوں کوکام پر لگانے کے لیے حکومتی سطح پر بڑے پیمانے پر منصوبے چلانا ہوں گے مگر یہ سہولتی منصوبے ہونا چاہئیں ۔
جب حکومتی آمدن محدود ہے تو آسان ہدف عوام ہیں جن کی جیبوں پر باآسانی ڈالا جاسکتا ہے اور پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، اس لیے بجلی گیس کے ریٹ بڑھانے کے ساتھ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے کیونکہ دوسری طرف بااثر طبقہ ہے جس پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، سب سے بڑا معاملہ زرعی آمدن پر ٹیکسوں کا ہے مگر یہ میدان حکومت کے لیے شجرممنوعہ ہے کیونکہ یہ ذاتیت کا معاملہ بن جاتا ہے، ویسے بھی حکومت کے لیے سیاسی حالات موافق نہیں، بیک وقت کئی محاذ پر جنگ چھڑ چکی ہے، چھٹی کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن نظریں ہیں آیندہ پانچ برسوں پر، سیاسی میدان کے زمینی حقائق بدل چکے مگر حکومت ماننے کو تیار نہیں اس لیے کوئی بھی کام درست طریقے سے نہیں ہورہا اور اقتصادی میدان میں ہرطرف سے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ خاص طور پرمہنگائی کا جن پھر سے بے قابو ہونے کو تیار ہے، اب بھی عالمی سطح پر کموڈیٹی پرائسزکم ہیں مگر حکومت نے صورتحال کا فائدہ نہیں اٹھایا اور مہنگائی کے خلاف بندوں کے پشتے مضبوط نہیں کیے جس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ جب عفریت سر اٹھائے گا تو کمزور دل ملیا میٹ ہو جائیں گے۔
اب چونکہ پانی سر سے اونچا ہونے والا ہے اس لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے اور اس کے لیے وسائل کی ضرورت ہے، وسائل ہیں نہیں اس لیے کمزور دل ملیا میٹ ہونے کے لیے تیار ہوجائیں مگر جب سیلاب آتا ہے تو بنیاد پکے مکانات کی بھی ہل جاتی ہے۔ اس لیے مہنگائی کا جن جب بوتل سے نکلے گا تو پوری معیشت کو ہلائے گا، اگرچہ کمزور طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں مگر معاشی بدحالی سے حکومتوں کی جڑیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں اور ویسے بھی حکومت تو ایک پاؤں پر کھڑی ہے، اس لیے معمولی سے دباؤ بھی دھڑام کے لیے کافی ہوگا۔