عظمت و اعجازِ قرآنِ حکیم
قرآن تورات و اناجیل کا شاہد اور عصمتِ مریم کا گواہ ہے۔
یوں تو اپنے اپنے وقت پر تمام صحائف آسمانی اپنی اپنی اقوام و ملل کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے کامل نمونہ اور ظلمت خانۂ شب کے لیے چراغ ِ ھدیٰ کی حیثیت رکھتے تھے مگر اُن اقوام کی کَج رویوں اور تخریبانہ سوچ نے اُن صحائف کو اپنی تاویلات کا کھلونا بنا دیا، اُن کے اہل زبان نے اُن مقدس کتابوں کی شان و مقصدِ نزول اور نفسِ مضامین میں اپنی تمناؤں کے مطابق ترامیم کا ناقابلِ معافی جُرم کر ڈالا، جس کے بڑے دور رس اور قبیح اثرات مرتب ہوئے۔
مگر اس کے برعکس حضور سید المُرسلین خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سینۂ اطہر پر نازل ہونے والے صحیفۂ آسمانی جسے قرآنِ مبین کہا گیا ہے اور جس کی وجہ سے غارِ حرا دریچۂ انوار بن گیا۔ اس قرآن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ لمحۂ نزول سے لے کے طلوع آفتاب قیامت تک اس کے پارے اور آیات تو کُجا زیر، زبر، شد اور مد تک تبدیل کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوسکے گی۔ تاریخ آدمیت و اسلام کی ورق گردانی کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ سلسلۂ نزولِ قرآن کے وقت قریشِ مکہ میں '' بزعم ِ خویش '' بڑے بڑے صاحبان ِ فکر و دانش اور تاجورانِ زبان و بیان موجود تھے۔
جن کو اپنی زبان دانی اور اندازِ تکلم پر بڑا ناز تھا اور اپنی اس گوہر فشانی کو وہ اثاثہ ِ فخر و مباہات سمجھتے تھے۔ مگر جب یہ آیت کریمہ بہ زبانِ رسالتؐ پوری آب و تاب کے ساتھ اُن کی سماعتوں کی ٹکرائی کہ اقرا باسم ربک الذی خلق تو اقلیم لسانی کے وہ تاج دار اس آیت ِ کریمہ کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دم بہ خود رہ گئے۔ اُن کی زبانیں گُنگ اور خیالات کی وسعت پایاب ہونے لگی۔ عقل و خرد کے وہ پُجاری دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے اور حیرت و استعجاب کی وادی میں کھو گئے۔
ایجاز و بلاغت وہ کہ، اعجاز ہی اعجاز
اجمال وہ دل کش کہ فدا جس پہ ہو تفصیل
اس کے بعد اس اُم الکتاب کی آیاتِ بیّنات تواتر و تسلسل سے نازل ہونے لگی تو معاندین اسلام کے غور و فکر میں ایک کرب ناک ارتعاش پیدا ہوگیا کہ انوار و تجلیاتِ الٰہی کی مظہر یہ آیات ہیں کیا ؟ یہ نثر نگاری پر مشتمل ہے یا (معاذ اللہ ) کوئی شاعری ہے جس کے ایک بھی شد مد کا جواب تک بن نہیں پڑ رہا۔ قرآن کی بلاغت میں جو رعنائی و زیبائی محوِ خرام تھی اُس نے اُن اہل فن کے ہوش اُڑا دیے۔ جب اُن کی بصیرت و بصارت حد سے بڑھ کر قعر مذلت میں غوطہ زنی کرنے لگی تو جلالِ خداوندی نے ان حقائق سے نقاب اُلٹ دیا اور فرمایا، مفہوم : '' اے محبوبؐ! ان سے کہہ دیجیے کہ اس چرخِ کبود کے نیچے اور کائناتِ رنگ و بُو میں موجود تمام جن و انس مل کر بھی اس کے ایک لفظ کی بھی تمثیل لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے۔''
اس میں پائے جانے والے مضامین کی مقصدیت و جامعیت اور معنویت کائنات بھر کے اربابِ فصاحت کو اپنی طر ف کھینچتی رہے گی۔ اس کے لامحدود اور بے کراں محاسن میں سب سے بڑھ کر خوبی یہ ہے کہ اس کی ہر آیت ہر بار پڑھنے سے ایک نئی لطافت و لذت عطا کرتی ہے۔ جس طرح حضور سید المُرسلین ختمی مرتبت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اسی طرح یہ کتاب اتنی اجود و اکمل ہے کہ اب قیامت تک انسانیت کے ظلمت خانۂ شب کے لیے کوئی چراغِ ھدایت نازل نہیں ہوگا۔ یہ کلید مسائلِ حیات اتنی جامع ہے کہ چشم ِ آدمیت بصارت کے لیے کہیں اور اٹھ ہی نہیں سکتی ۔
قرآن پاک منبع صدق و یقین ہے
قرآن پاک راہ برِ دنیا و دین ہے
یوں تو فقط تلاوتِ قرآن بھی باعث برکت و نجات ہے لیکن جب تک اس کے معانی پر غور و فکر نہ کیا جائے اُس وقت تک اس کے مقاصدِ نزول کا صحیح پتا نہیں چلتا۔ آج ہمارے سماج میں اضطراب و بے چینی کی جو غایت پائی جاتی ہے اس کی بنیادی وجہ قرآن کے معنوی ساخت پر غور نہ کرنا ہے۔ ہم حضور سید المُرسلین ﷺ کے اس نادر الوجود معجزے (قرآن) کی عظمت کے قائل تو ہیں مگر اپنے مسائل کے حل کے لیے اس سے تابش و راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ کی توحید و کبریائی سے لے کر اور پھر اس سے انحراف کا انجام، حضور سرورِ کائناتؐ کی شان و احترام، عبادات اور اُن کی مبادیات و توضیح، حقوق الناس، خانگی معاملات، تہذیب و تمدن، اندازِ جہاں گیری و جہاں بانی، جہاد فی الاسلام سے لے کر صلح و آشتی کی کیفیات، احوالِ انبیائے کرامؑ، سابقہ امتوں کے فنا کے اسباب بل کہ ہر خشکی و تری کی تفصیل قرآن میں موجود ہے۔
قرآن تورات و اناجیل کا شاہد اور عصمتِ مریم کا گواہ ہے۔ یہ معرفتوں کی منزلوں کا راہ بر ہے۔ یہ رہروانِ آگہی کا ہم سفر ہے۔ یہ انسانیت کی نجاتِ اُخروی کا ضامن ہے۔ یہ داورِ محشر کا لطفِ اولیں ہے۔ قرآن حاصلِ کونین بھی ہے اور نعمتِ دارین بھی ہے، یہ روح کا قرار بھی ہے اور قلب کا چین بھی۔ اس کی آیات نسخۂ دافع رنج و بلا بھی ہیں اور علالت میں باعث ِ شفا بھی۔