کوٹے کیلیے حج کمپنیوں کی خرید و فروخت شروع لاکھوں کی بولیاں لگ گئیں

بیوروکریٹس، وفاقی وزرا اور بااثر شخصیات نے حکومت کے خاتمے سے قبل حج آپریشن سے بڑے پیمانے پر مال بنانے کامنصوبہ بنالیا


Nasiruddin November 17, 2017
2012میں2200کمپنیاں رجسٹرہوئی تھیں، حج کوٹاکے حصول کیلیے فی کمپنی20سے 60لاکھ تک پیشکش کی جارہی ہے۔ فوٹو: فائل فوٹو: فائل

حج کوٹے کے حصول کیلیے حج کمپنیوں کی خرید و فروخت شروع ہوگئی جب کہ کمپنیوں کی20 لاکھ سے60 لاکھ روپے تک بولی لگائی جارہی ہے۔


حکومت اور وزارت مذہبی امور میں اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیات حج کمپنیوں کی خریدوفروخت میں مصروف ہیں تاکہ خریدی جانے والی کمپنیوں کے نام پر حج کوٹا حاصل کرسکیں، وزارت مذہبی امورکی جانب سے2012 میں انرولڈ ہونے والی کمپنیوں کی خرید و فروخت کا کام عروج پر پہنچ گیا ہے۔ یہ کمپنیاں تاحال حج کوٹے سے محروم ہیں، اچھی ساکھ رکھنے والی اور 2005 سے 2009 تک S.E.P.C میں رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں کی مارکیٹ میں مانگ بڑھ گئی ہے۔


وفاقی وزارت مذہبی امورکی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ وہ ایک نئی آڈٹ کمپنی سے تمام کمپنیوں کی جانچ پڑتال کرائے گی، وزارت مذہبی امور اور حکومت میں اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات نے کمپنیاں خریدنا شروع کردی ہیں تاکہ وہ حج2018 میں ان کمپنیوں کے نام پر حج کوٹا الاٹ کراسکیں جب کہ وزارت مذہبی امور نے ایک ماہ قبل تمام 2758 حج کمپنیوں کی رجسٹریشن منسوخ کردی تھی اور ان کمپنیوں کی نئے سرے سے رجسٹریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، وزارت مذہبی امور نے تمام کمپنیوں کی ازسرنو رجسٹریشن کیلیے آڈٹ کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں۔


وزارت مذہبی امور میں تعینات بیوروکریٹس، وفاقی وزرا اور حکومت میں شامل بااثر شخصیات نے موجودہ حکومت کی مدت اقتدار کے خاتمے سے قبل وزارت مذہبی امور سے بڑے پیمانے پر مال کمانے کا منصوبہ بنایاہے اور تمام حج کمپنیوں کی رجسٹریشن کینسل کرکے ازسرنو رجسٹریشن کا مقصد بھی یہی ہے جبکہ2200کے لگ بھگ کمپنیوں کی رجسڑیشن صرف 4 سال قبل کی گئی تاہم 2012 میں انرولڈ ہونے والی کمپنیاں حج کوٹا سے تاحال محروم ہیں ان کمپنیوں کو اب بااثر شخصیات خرید رہی ہیں تاکہ ان کمپنیوں کے نام پر حج2018 کے موقع پر حج کوٹا حاصل کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ وزارت مذہبی امور میں موجود ایک لابی ان کمپنیوں کے مالکان سے رابطے کررہی ہے اور ان کمپنیوں کی خریداری کیلیے20 لاکھ سے60 لاکھ روپے تک پیشکش کی جارہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں