سروے اور تجزیے پیش گوئیاں ہیں حقیقی نتائج الیکشن والے روز سامنے آئیں گے
نثار کھوڑو نے 1950 میں لاڑکانہ شہر سے چھے کلومیٹر پرے، دریا کے کنارے آباد ایک گاؤں، عاقل میں آنکھ کھولی۔
''والدہ کی تربیت آج بھی کام آرہی ہے، بچوں سے دوستانہ روابط رہے!''
کلام لطیف کے شایق سیاست داں کی زندگی پر ایک نظر
نثار کھوڑو نے 1950 میں لاڑکانہ شہر سے چھے کلومیٹر پرے، دریا کے کنارے آباد ایک گاؤں، عاقل میں آنکھ کھولی۔ کھیتی باڑی اُن کا آبائی پیشہ ہے۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔ جس وقت والد، حاجی محمد نواز کھوڑو کا انتقال ہوا، نثار کھوڑو ایک ماہ کے تھے۔ یوں تو محمد نواز کھوڑو زمیں دار تھے، اپنے بڑے بھائی اور معروف سیاست داں، محمد ایوب کھوڑو کی سرپرستی میں وہ میدان سیاست میں بھی سرگرم رہے، کچھ عرصے خاکسار تحریک سے جُڑے رہے۔ والد کے انتقال کے بعد نثار کھوڑو کے تایا، ایوب کھوڑو اُن کے سرپرست بنے۔ آنے والے برسوں میں اُن کی راہ نمائی حاصل رہی۔
والدہ نے اُن کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ماضی کھوجتے ہوئے بتاتے ہیں،''گو یہ آسان نہیں تھا، مگر میری والدہ نے والد کی کمی پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُن کی تربیت اور دعائیں آج بھی میرے کام آرہی ہیں!'' بچپن میں شرارتوں سے دُور ہی رہے۔ ایک حد تک شرمیلے اور کم گو تھے۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی زیادہ فعال نہیں رہے۔ کبھی سزا کی نوبت نہیں آئی۔ جہاں گِلّی ڈنڈا اور دیگر مقامی کھیل کھیلے، وہیں کرکٹ، والی بال اور بیڈمنٹن کا بھی تجربہ کیا۔ جہاں ناول اور کہانیاں پڑھیں، وہیں کومکس کے اوراق بھی پلٹے۔
ساتویں تک تعلیم گاؤں کے سرکاری اسکول سے حاصل کی۔ 62ء، میں، جب عمر بارہ برس تھی، انھوں نے لاڑکانہ شہر کا رخ کیا، جہاں گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری اسکول سے 66ء میں میٹرک کرنے کے بعد کراچی کے لیے رخت سفر باندھا۔ گاؤں چھوڑنے کے بعد والدہ سے دُوری کا احساس ستاتا تھا، پر نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں کوئی خاص دقت پیش نہیں آئی۔ ڈی جے سائنس کالج سے انٹر کرنے کے بعد وہ جامعہ کراچی کا حصہ بن گئے۔ گریجویشن کے بعد عملی زندگی شروع ہوئی۔ زمینوں کی دیکھ ریکھ کرنے لگے۔
اُنھوں نے دو شادیاں کیں، جن سے پانچ بیٹیاں ہیں۔ دو بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے، خیر سے نانا ہیں۔ بچپن میں اکیلے پن کا تجربہ کرنے والے نثار صاحب نے اپنے بچوں سے دوستانہ روابط رکھے۔ اُن کے بہ قول، اس سے بچوں کو اعتماد ملا، اُن میں فہم پیدا ہوا۔ عام طور سے سادہ غذا لیتے ہیں۔ دال چاول سے رغبت ہے۔ کوکنگ میں کوئی خاص دل چسپی نہیں، البتہ ناشتہ تیار کر لیتے ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔
شاعری سے شغف رکھتے ہیں۔ شاہ لطیف کے مداح ہیں۔ گائیکی میں جہاں مہدی حسن اور جگجیت کا نام لیتے ہیں، وہیں لتا، نورجہاں، فریدہ خانم اور عابدہ پروین کو بھی سراہتے ہیں۔ باپ بننا زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ بیٹے کی وفات سے کرب ناک یادیں جُڑی ہیں۔
ایک دیوار محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصاویر سے سجی ہے۔ ایک میز پر ٹرافیاں چُنی ہوئی ہیں، دوسری شیلڈز سے آراستہ ہے۔
اور جو شے فوراً توجہ مبذول کرواتی ہے، وہ شیلف میں سلیقے سے لگی انگریزی، اردو اور سندھی میں تحریرکردہ کتابیں ہیں، جن کے موضوعات میں خاصا تنوع ہے۔ کوئی کتاب تاریخ کا احاطہ کرتی ہے، کوئی سیاست کا، کسی کا موضوع ادب ہے، کسی کا شاعری۔ ایک خاص حصہ شیخ ایاز کی تخلیقات کے لیے مختص ہے۔
یہ کراچی کے علاقے ڈیفینس میں واقع اسپیکر سندھ اسمبلی، نثار کھوڑو کے بنگلے کا ڈرائنگ روم ہے۔ اپنے ملاقاتیوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ سوالات کا سلسلہ شروع ہوا، جن کا وہ اپنے مخصوص، دھیمے مگر متوازن لہجے میں جواب دیتے رہے۔ حالاتِ زیست کھوجتے سمے تو ہم وار راستہ ملا، مگر سیاست کا موضوع آتے ہی سوالات نئی زمینوں کی اُور نکل گئے، اُن کی ہیئت بدل گئی، مگر اُن کا لہجہ نہیں بدلا۔ دھیما پن اُس وقت بھی برقرار رہا، جب سوال بُلند آہنگ تھا، توازن اس وقت بھی قائم رہا، جب گفت گو تنگ پگڈنڈیوں سے گزر رہی تھی۔ پیپلزپارٹی کے اِس سینئر راہ نما سے ہونے والا خصوصی انٹرویو پیش خدمت ہے۔
سوال: تحریک استقلال سے سیاسی کیریر کا آغاز کرنے والے نثار کھوڑو گذشتہ تین عشروں میں، بہ طور سیاسی کارکن کن مراحل سے گزرے؟
نثارکھوڑو: کئی مراحل آئے۔ تنظیمی تجربہ، خود کو میٹنگز میں پیش کرنے کا ڈھنگ تحریک استقلال سے ملا۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہاں بنیادی تربیت ہوئی۔ البتہ مرکزی دھارے کی سیاست کرنے اور عوام کے درمیان کھڑے ہونے کا طریقہ پیپلزپارٹی میں آکر سیکھا۔
سوال: ایئر مارشل اصغر خان کی سرپرستی میں آپ نے سیاسی سفر شروع کیا، پھر اُن سے الگ ہوگئے۔ آج اُن کے طرز سیاست کو کس طرح پرکھتے ہیں؟
نثار کھوڑو: ایئر مارشل صاحب سیدھی اور سچی بات کرنے کے عادی تھے۔ اس عادت نے اُن کی سیاست کو نقصان بھی پہنچایا۔ یہ بات صحیح ہے کہ جمہوریت کے لیے انھوں نے پہل کی، اِس کی پروا نہیں کی کہ پیپلزپارٹی بڑی جماعت ہے، وہ انڈر شیڈو آجائیں گے۔ یہ بڑی بات ہے۔ میں اس کی تعریف کرتا ہوں۔
یہ بھی دیکھیں کہ جو اصغر خان پیپلزپارٹی کے مخالف تھے، وہ 90ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے الائنس میں شامل ہوئے۔ اُنھوں نے جمہوریت کے لیے لچک دکھائی۔ جب اُنھیں پتا چلا کہ گذشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی، پیپلزپارٹی کو روکنے کے لیے آئی جے آئی کو تشکیل دیا گیا، چودہ کروڑ روپے بانٹے گئے، عوام کے ساتھ ناانصافی ہوئی، تو پھر ایئرمارشل صاحب کیس لے کر سپریم کورٹ گئے۔ اُس کیس کا نتیجہ آج سامنے آرہا ہے۔ تو یہ مثبت باتیں ہیں۔ بے شک وہ جمہوری اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ البتہ 86ء میں اُن کا ایم آر ڈی سے نکلنے کا فیصلہ دُرست نہیں تھا۔ یہ بات میں کل بھی کہتا تھا، اور آج بھی کہتا ہوں۔
سوال: آپ تین بار اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے۔ بہ طور اپوزیشن لیڈر کون سا دور کٹھن ثابت ہوا؟
نثار کھوڑو:91ء تا 93ء، نواز شریف کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی پر بہت حملے ہوئے۔ ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے۔ ایم پی ایز کو ہراساں کیا گیا۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنے۔ انتقامی کارروائی کی انتہائی شکل یہ تھی کہ لاڑکانہ میں میرا گھر جلا دیا گیا۔ اس وقت بات ذاتیات تک پہنچ گئی تھی۔ ہم نے بڑی ہمت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں مسلم لیگ ن کی حکومت بہت کم زور تھی۔ مقابلہ نسبتاً آسان تھا۔ اِسی طرح 2002 تا 2008، بہ طور اپوزیشن لیڈر پرویز مشرف کی حکومت کی خامیاں اجاگر کرنے کا موقع ملا۔
سوال: سندھ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے۔ آپ اِس کے اسپیکر رہے۔ یہ تجربہ کیسا رہا؟
نثار کھوڑو: دیکھیں، اسپیکر کا رویہ بہت معنی رکھتا ہے، کیوں کہ رویہ آپ کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔ پھر مجھے چھے اسمبلیوں کا تجربہ تھا۔ قوانین کا پتا تھا۔ گفت گو کے طریقۂ کار کا اندازہ تھا۔ غیرجانب دار رہنا بھی آپ کے کام آتا ہے۔ سرکاری بینچوں پر بیٹھے وزرا اور ارکان شاید مجھ سے ناراض بھی ہوئے ہوں، کیوں کہ میں اپوزیشن کو بولنے کا زیادہ وقت دیتا ہوں۔ اسپیکر بھلے حکومتی نمایندہ ہو، لیکن اپوزیشن اقلیت ہوتی ہے، اسپیکر کی ذمے داری ہے کہ اُسے ''پروٹیکٹ'' کرے۔
سوال: کیا مثبت رویے کا بنیادی سبب بلامقابلہ اسپیکر منتخب ہونا تھا؟
نثارکھوڑو: میری کسی سے ذاتی پرخاش تو رہی نہیں۔ اگر مقابلہ ہوتا بھی، اور میری مخالفت میں ووٹ ڈالے جاتے، تب بھی میرا یہ فرض تھا کہ جہاں سرکاری بینچوں کو سُنوں، وہیں اپوزیشن کو بھی موقع دوں۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔
سوال: یہ پیپلزپارٹی کی چوتھی حکومت ہے۔ گو ماضی کے برعکس اِس بار آپ کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملا، لیکن عام تاثر ہے کہ موجودہ حکومت جمہوری تاریخ کی ناکام ترین حکومت ثابت ہوئی؟
نثارکھوڑو: میں اِس سے اختلاف کروں گا۔ آپ کہتے ہیں حکومت ناکام ثابت ہوئی، اور میں کہتا ہوں کہ یہ ملکی تاریخ کی کام یاب ترین حکومت ہے۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں آئین کے بگاڑ کو سُدھارا گیا۔ صوبائی خودمختاری کا دیرینہ مسئلہ حل ہوا۔ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے مسئلے کا اتفاق رائے سے حل نکالا گیا۔ فارمولا بدل کر صوبوں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا۔ اگر آئین میں، جو عمرانی معاہدہ ہے، بنیادی غلطیاں ہوں، اور حکومت اُنھیں درست نہیں کرسکے، تو وہ ناکام حکومت کہلائے گی۔
اِس نقطۂ نظر سے نواز شریف کی 91ء اور 97ء کی حکومتیں ناکام ثابت ہوئیں۔ وہ آئین میں ترمیم نہیں کرسکے۔ ماضی میں ملکی وسائل کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ نواز شریف متعصب ہیں، اُنھوں نے سندھ کے ساتھ تعصب پر مبنی پالیسی اپنائی۔ اگر یہاں کوئلے سے بجلی پیدا ہوگی، تو سندھ کی اہمیت بڑھ جائے گی، اِس لیے اُس کمپنی کو بھگا دیا، جو اس پراجیکٹ کے لیے پیسے لے کر آئی تھی۔ نو برسوں میں مشرف نے ایک ایک دن ضایع کیا۔ اِس وقت ہمارے پاس سادہ اکثریت نہیں ہے، اِس کے باوجود ہم نے اتفاق رائے سے مسائل کا حل تلاش کیا۔ پانچ برس تک اسمبلی چلا کر عوام کو اعتماد دیا کہ ان کے ووٹ کی اہمیت ہے۔ تو یہ پیپلزپارٹی کی کام یابی ہی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے ہر مسئلہ حل کردیا۔ ضرور کچھ خامیوں بھی ہوں گی، ہمیں رکاوٹیں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، مگر ہم نے روشن مستقبل کی جانب پیش قدمی کی ہے۔
سوال: اگر ایسا ہی ہے کھوڑو صاحب، تو تجزیہ کار، ملکی و بین الاقوامی سروے یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی مقبولیت میں واضح کمی آئی ہے؟
نثارکھوڑو: اگر مقبولیت میں کمی آئی ہے، تو صرف پیپلزپارٹی کی نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، کیوں کہ سب ہی حکومت میں رہے۔ اور پھر کسی سروے پر ہم کیسے اعتبار کر سکتے ہیں۔ یہ سروے اور تجزیے پیش گوئیاں ہیں، حقیقی نتائج الیکشن والے روز سامنے آئیں گے، جب پاکستان کے جمہوریت پسند عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔
سوال: اگر ہم تجزیوں کو نظر انداز کردیں، تو پھر آپ فرمائیں، آیندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کو آپ کہاں دیکھ رہے ہیں؟ ووٹر کیا فیصلہ کریں گے؟
نثارکھوڑو: میں سمجھتا ہوں کہ عوام نے ہمیشہ اچھا فیصلہ کیا ہے۔ دیکھیں 90ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ اور بعد میں دھاندلی کرنے والوں نے اس کا اعتراف بھی کیا۔ 97ء میں جو انتخابات ہوئے، اس میں جیتنے والے کو خود یقین نہیں آرہا تھا کہ اُسے قائد اعظم سے بھی زیادہ مینڈیٹ کیسے مل گیا۔ یہ انتخابات متنازع ہیں، لیکن پیپلزپارٹی نے جن انتخابات میں کام یابی حاصل کی، اُن کی حیثیت متنازع نہیں۔ عوام کے ووٹوں نے پارٹی کو منتخب کیا۔
سوال: تو 2013 میں عوام کسے منتخب کریں گے؟
نثارکھوڑو: دیکھیں، عوام میں ٹھہراؤ تو آیا ہے۔ اعتماد پیدا ہوا ہے۔ میں پرویز مشرف حکومت کو ناجائز تصور کرتا ہوں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اُس اسمبلی نے پانچ سال پورے کیے۔ موجودہ اسمبلی نے بھی آئینی مدت پوری کی ہے، تو اگر کوئی ڈرائے دھمکائے نہیں، مہینے نہ گنوائے کہ فلاں مہینے حکومت چلی جائے گی، فلاں مہینے یہ ہوجائے گا، تو عوام میں جمہوری سیٹ اپ کے حوالے سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ ہم امید کرسکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی کوششوں کو عوام نے محسوس کیا ہوگا۔ اور اگر نہیں کیا ہے، تو الیکشن کی مہم کے دوران ہم اُنھیں اِس کا احساس دلائیں گے، اور ہمیں یقین ہے کہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
سوال: ہم الیکشن کے موضوع پر بات کر رہے ہیں، لیکن گذشتہ چند ماہ سے الیکشن ملتوی کروانے اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت بننے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے؟
نثارکھوڑو: الیکشن ملتوی کروانے کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں، جو فصل کی بوائی کے وقت سو رہے تھے، اور کٹائی کے وقت جاگ گئے۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان والا معاملہ ہے۔ آپ کو اچھا لگے نہ لگے، لیکن کھانے کے درمیان سے مجھے لقمہ لینا ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن پر اعتراض کیوں کیا جائے۔ ہم نے متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کو آزاد اور غیرجانب دار بنانے کا فیصلہ کیا۔ تمام سیاسی پارٹیاں اِس عمل میں شامل تھیں۔ اُس وقت عمران خان اور طاہر القادری دونوں سو رہے تھے۔ عمران خان اُس وقت جاگے، جب اُنھوں نے لاہور میں جلسہ کیا۔ اور طاہر القادری الیکشن سے فقط تین ماہ پہلے کہاں سے آگئے؟ پہلے احتساب کرو، پھر انتخاب کرو، یہ وہی نعرہ ہے، جو آمروں نے لگایا۔ پرویز مشرف، ضیاالحق، یحییٰ خان اور ایوب خان، سب یہی کہتے تھے۔ احتساب کرنے کے لیے عدالتیں آزاد ہیں۔ الیکشن کمیشن متفقہ طور پر بنایا گیا ہے، اِس کی تحلیل کسی طور قابل قبول نہیں ہوگی۔
سوال: تو کیا طاہر القادری اور عمران خان خود سے میدان میں آگئے، یا اُن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے؟
نثارکھوڑو: (ہنستے ہوئے) اب مجھ سے وہ باتیں نہ کہلوائیں، جن پر جھگڑا ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ 2002 میں عمران خان اور طاہر القادری کو پرویز مشرف کے منعقد کردہ الیکشن اچھے لگے۔ اُنھوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ ریفرنڈم میں مشرف کی حمایت کی۔ اور جب مشرف کے جانے کا وقت آیا، بڑے لیڈر پاکستان آنے لگے، تو اُنھوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ سیدھی سی بات ہے، یہ لوگ جمہوری نظام کے حامیوں میں سے نہیں۔
سوال: طاہر القادری کا لانگ مارچ ختم ہونے کے بعد رضاربانی نے جمہوریت کے خلاف ہونے والی مزید سازشوں کی جانب اشارہ کیا تھا۔ تو کیا الیکشن ملتوی کروانے کا خطرہ تاحال موجود ہے؟
نثارکھوڑو: گذشتہ پانچ سال میں ایسا کون سا دن گزرا، جب جمہوریت کے خلاف سازش نہیں ہوئی۔ کسی دن آرام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ کبھی دہشت گردی، کبھی مقدمے، کبھی کچھ اور۔ ان پانچ برسوں میں پیپلزپارٹی کی یہ حکومت دہکتے کوئلوں پر چلی ہے۔
سوال: اب بھی سازشیں ہورہی ہیں؟
نثارکھوڑو: ہورہی ہوں گی۔ اِس طرح کی سازشیں ہوتی ہیں، لیکن میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جب ادارے بن چکے ہیں، سب الیکشن چاہتے ہیں، تو اِکّا دُکّا پارٹیاں انھیں ملتوی نہیں کرواسکتیں۔
سوال: منہگائی آسمان کو چُھو رہی ہے، ایسے میں حکومتی پروگرام کے تحت غریب گھرانے کی خواتین کو ماہانہ ایک ہزار روپے دے کر کیا اِس عفریت پر قابو پایا جاسکتا ہے؟
نثارکھوڑو: دیکھیں، ہر اُس گھرانے کی عورت کو، جس کا سربراہ ایک ماہ میں چھے ہزار روپے نہیں کماسکتا، ایک ہزار روپے ملتے ہیں۔ کیا یہ بڑی بات نہیں؟ ہم نے اربوں روپے خرچ کرکے غربت کم کرنے کی کوشش تو کی۔ فلاحی ریاست کا مطلب کیا ہے، یہی ناں کہ عوام کو سہارا دیا جائے۔ ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان میں ہیلتھ انشورنس ہونی چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ بے روزگاری ایک عالمی مسئلہ ہے۔
سوال: ڈیم وقت کی ضرورت ہیں، لیکن ہمارے ہاں کالا باغ ڈیم سیاسی ایشو بن چکا ہے؟
نثارکھوڑو: کالاباغ ڈیم کی وجہ سے صوبے لڑ پڑے تھے۔ پیپلزپارٹی نے اِس مسئلے پر ایک اسٹینڈ لیا۔ دیکھیں، سندھ کے لوگ پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں۔ اور جہاں اُنھوں نے پاکستان بنایا، وہیں قربانیاں دے کر اِسے بچایا بھی۔ اِسی سندھ کے ماہرین نے کہا تھا کہ دریائے سندھ پر چودہ ایسے مقامات ہیں، جہاں پاور پلانٹ لگا کر پانی کے بہاؤ سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، مگر ڈیم نہ بنائیں۔ ڈیم بنانے ہیں، تو تربیلا سے اوپر بنائیں۔ اُس پر کوئی اعتراض نہیں۔ بھاشا ڈیم پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
سوال: آپ حکومت کی کام یابیوں کا تذکرہ کررہے ہیں، لیکن کیا یہ پریشان کن امر نہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی ہی لیڈر کے قاتل گرفتار نہیں کرسکی، گو صدر پاکستان اور وزیر داخلہ کی جانب سے متعدد بار کہا گیا کہ حکومت کو بی بی کے قاتلوں کا علم ہے؟
نثارکھوڑو: کچھ قاتل تو وہ تھے، جو دھماکے کے ساتھ ہی اڑ گئے۔ ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ گولی چلانے والا ہاتھ مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ سازش کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ہم نے اس معاملے میں وہی طریقہ اختیار کیا، جو محترمہ نے اپنی زندگی میں اختیار کیا تھا۔ 18 اکتوبر کے سانحے کی تحقیقات کا معاملہ بی بی نے موجودہ حکومت پر نہیں چھوڑا، بلکہ یہ کہا تھا کہ کوئی بیرونی ادارہ اس کی تحقیقات کرے۔ اپنے بھائی کی شہادت کے کیس میں بھی ایسا ہی کیا۔ بے نظیر صاحبہ کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ پرویز مشرف سے بھلا کیسے کیا جاسکتا تھا، جس نے دو گھنٹے میں جائے وقوعہ کو دھلوا دیا، اور پھر سوری کہہ دیا۔ تو اس کام میں وقت لگا۔ یواین او سے رجوع کیا گیا۔ یو این او کی رپورٹ واضح ہے یا نہیں، یہ الگ معاملہ ہے۔ کیس چل رہا ہے۔ کچھ لوگوں کی نشان دہی ہوئی ہے، کچھ گرفتار ہیں۔ کچھ بھاگے ہوئے ہیں۔ اور جو بھاگے ہوئے ہیں، وہ آکر حاضر نہیں ہوتے۔ ان کی جائیداد ضبط کرنے کے احکامات جاری ہوتے ہیں، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ دوسرے کورٹ کے احکامات پر تو فوری عمل ہوجاتا ہے، مگر اِس کیس میں کورٹ کے آرڈر پر عمل نہیں ہورہا۔
سوال: لیکن جب وزیر داخلہ یہ بیان دیتے ہیں کہ انھیں قاتلوں کا علم ہے۔۔۔
نثارکھوڑو: (بات کاٹتے ہوئے) میرے بھائی، آپ نے ہم نے، سب نے یہ سنا ہے کہ تحقیقات طالبان کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ کچھ اور لوگوں کی جانب بھی اشارہ کیا گیا۔ اُس وقت کی حکومت کیا نااہل تھی کہ اُس نے محترمہ کو پروٹیکشن نہیں دی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں دی؟ اس طرح کے سوال ان کے قاتلوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں، لیکن یہ معاملہ ابھی کورٹ میں ہے۔ اور ایسا تو نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی نے اس کیس کی پیروی نہیں کی۔ ہم تو اب بھٹو کیس پر آرہے ہیں۔ خدا کرے، سپریم کورٹ کو جوش آئے، اور بھٹو کی پھانسی کو اگر قتل نہیں، تو کم از کم ناجائز ہی قرار دے دیا جائے۔
سوال: محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کا شکار بنیں، لیکن حکومت میں آنے کے بعد اُن کی جماعت اِس مسئلے پر بھی قابو پانے میں ناکام رہی؟
نثارکھوڑو: قوم کی تقدیر کئی طریقوں سے بدلی جاتی ہے۔ عوام میں شعور اجاگر کرنا بھی ایک طریقہ ہے۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو، محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہم سے چھین لیا گیا، لیکن ہم نے راستہ بدلنے کے بجائے بلاول بھٹو زرداری کو پیش کردیا۔ اِس کا مقصد عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ سیاسی طریقۂ کار بہترین راستہ ہے، اِسے اختیار کیا جائے۔ پھر دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے جہاں ضرورت پیش آئی، افواج پاکستان کو استعمال کیا۔ جن علاقوں میں پاکستان کے جھنڈے اتار دیے گئے تھے، وہاں پاکستان کے جھنڈے لہرائے۔
سوال: لیکن مجموعی کارکردگی کو اطمینان بخش تو قرار نہیں دیا جاسکتا؟
نثارکھوڑو: دیکھیں، دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ پاکستان ہی کیا، پوری دنیا کو اِس نے کم زور کیا۔ کیا نیٹو افواج افغانستان میں، عراق میں امن قائم کرسکیں؟ نہیں! پاکستان بھی اِسی مسئلے کا شکار ہے۔ جہاں فوجی اہل کاروں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے، وہیں عوام بھی شہید ہوئے۔ ہم نے اپنے لوگوں کو بھی نہیں بخشا، جو قصور وار تھے، انھیں سزائیں دیں۔
سوال: دہشت گردی بے شک ایک عالمی مسئلہ ہے، لیکن سندھ، خصوصاً کراچی میں روزانہ دس، بارہ لاشیں گر رہی ہیں، اِس پر تو قابو پایا جاسکتا تھا؟
نثارکھوڑو: یہ ایک افسوس ناک امر ہے۔ ایسا بالکل ہونا نہیں چاہیے، لیکن اس معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ جب سے آپ نے شعور سنبھالا ہے، اخبارات میں یہی پڑھا ہوگا کہ کراچی میں روزانہ لاشیں گر رہی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یہ نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اِس کے محرکات کیا ہیں؟ اس کی جڑیں کہاں تک جاتی ہیں؟ ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا۔ ڈرگ مافیا، جرائم پیشہ عناصر اس میں شامل ہیں۔ پھر کراچی میں بے دریغ اسلحہ آیا۔ نیشنل لاجسٹک سیل کے اسلحے سے بھرے ٹرک کراچی پہنچے۔ اب اسلحہ اگر لائسنس والا ہے، تو شاید آپ قاتل تک پہنچ جائیں، لیکن اگر لائسنس والا نہیں، تو کیسے پہنچیں گے؟ پھر یہ بڑا شہر ہے، جرائم پیشہ افراد کے لیے چُھپنے کے لیے اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ ہاں، امن قائم کرنے والے ادارے بھی کم زوری کا شکار ہیں۔ کبھی انھیں وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی دباؤ کا۔
سوال: مگر بنیادی ذمے داری تو حکومتِ سندھ ہی کی ہے؟
نثارکھوڑو: میں خود کو، گورنمنٹ کو ذمے داری سے مبرا قرار نہیں دے رہا۔ صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہتھیاروں کی ترسیل، جو برسوں سے چلی آرہی ہے، اِس کا بڑا سبب ہے۔ یہ ہتھیار کبھی استعمال ہوتے ہیں، کبھی چُھپ جاتے ہیں۔
سوال: ایم کیو ایم سندھ اور وفاق میں آپ کی اتحادی رہی۔ کئی بار معاملات بگڑے، پھر مذاکرات ہوئے، معاملات سُلجھا لیے گئے، مگر نگراں سیٹ اپ آنے سے چند ہفتے قبل ایم کیو ایم پھر حکومت سے علیحدہ ہوگئی؟
نثارکھوڑو: سب سے پہلے میں جمہوری اداروں کے لیے کردار ادا کرنے پر ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے اس معاملے میں کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دیکھیں، مخالفت حق ہے۔ اتحادی حکومت ہے۔ ہر پارٹی کا اپنا منشور ہے۔ اپنی لائن ہے۔ ہر پارٹی کو اپنی پالیسی اختیار کرنے، اپنے فیصلے کرنے کا حق ہے۔
سوال: بلدیاتی نظام کا مسئلہ تو حالیہ دنوں میں سامنے آیا، لیکن گذشتہ برس پیپلزپارٹی کے سنیئر راہ نما، ذوالفقار مرزا کا اچانک سامنا آنے، دھواں دار تقریرکرنا، کیا یہ اُن کا انفرادی فعل تھا، یا یہ اپنے اتحادیوں کو قابو میں رکھنے کی حکمت عملی تھی؟
نثارکھوڑو: کس حکمت عملی کی باتیں ہورہی ہیں؟ انھوں نے ایک ایشو کو سامنے لانے کی کوشش کی، لیکن اس ایشو کو جس طرح ہینڈل کرنا چاہیے تھا، اس طرح ہینڈل نہیں کیا گیا۔ وہ جذباتیت کا شکار ہوگئے۔ کچھ جرائم پیشہ افراد کی نشان دہی کرتے ہوئے پوری قوم کو لپیٹ دینا ٹھیک نہیں۔ برے عناصر ہر پارٹی میں ہوسکتے ہیں۔ اور ضروری نہیں کہ یہ عناصر پارٹی پالیسی ہی پر عمل کرتے ہوں۔ خیر، میں اُن کے طریقۂ کار سے اختلاف رکھتا ہوں۔
سوال: کچھ عرصے قبل یہ خیال سامنے آیا تھا کہ پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ الائنس بنا کر الیکشن میں حصہ لے گی۔ موجودہ صورت حال میں کیا ممکن ہے؟
نثارکھوڑو: ہم نے ہمیشہ الیکشن میں اتحادیوں کے ساتھ تعاون کا ارادہ ظاہر کیا ہے، مگر ضروری نہیں کہ جو خیال ہم پیش کریں، اس پر عمل بھی ہو۔ ایسا تو نہیں تھا کہ ہم اپنی کچھ سیٹیں ایم کیو ایم کو دے دیتے، یا وہ ہمیں کچھ سیٹیں دے دیتے۔ ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جب اپوزیشن کی جماعتوں کا الائنس بن سکتا ہے، تو حکومتی جماعتوں کا الائنس کیوں نہیں بن سکتا؟ تو یہ ایک خیال ہے۔
سوال: تو کیا انتخابات کے بعد ن لیگ یا تحریک انصاف کے اشتراک سے بھی حکومت قائم کی جاسکتی ہے؟
نثارکھوڑو: امکان تو ہوسکتا ہے۔ کیا ن لیگ اور ہمارے درمیان اتحاد نہیں تھا؟ گذشتہ انتخابات میں ہمارے اور اُن کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمینٹ ہوئی تھی۔
سوال: آیندہ انتخابات میں آپ ن لیگ اور تحریک انصاف کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں؟
نثارکھوڑو: دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف ملک بھر میں کتنے امیدوار کھڑے کرتی ہے، اور ن لیگ کتنے کھڑے کرتی ہے، اور ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کتنے امیدوار کھڑی کرتی ہے۔ پھر دیکھا یہ جائے گا کہ کس امیدوار میں پوٹینشل ہے۔ اسی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ ماضی کی طرح اِس بار بھی پیپلزپارٹی ملک کے ہر حلقے میں امیدوار کھڑے کرے گی۔
سوال: کیا پارٹی کی سطح پر ہونے والے انتخابات کے بغیر حقیقی جمہوریت کا اطلاق ممکن ہے؟
نثارکھوڑو: پارٹیوں کی سطح پر انتخابات ہونے چاہییں۔ یہ اچھی بات ہے۔ جب آپ ووٹر کے فیصلے کو اعلیٰ ترین فیصلہ مانتے ہیں، تو پارٹی کی سطح پر ورکر کے فیصلے کو بھی ماننا چاہیے۔ اِس میں کوئی اختلاف نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کم زور رہی، جمہوری ادارے بھونچال کا شکار رہے، اِس لیے کبھی کبھار پارٹیوں میں الیکشن کروانا اضافی لگتا ہے۔ اور اگر تمام امیدوار متفقہ طور پر منتخب ہوگئے، تو کوئی کیوں اعتراض کرے۔ اگر میں اپنے تنظیمی سیٹ میں تبدیلی نہیں چاہتا، تو مجھے اس کا حق ہے۔
سوال: ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ناتے کیا پیپلزپارٹی کو اِس میدان میں مثال نہیں قائم کرنی چاہیے؟
نثارکھوڑو: ہمیشہ کی ہے۔ 2002 اور 2008 کے انتخابات سے پہلے پارٹی الیکشن ہوئے۔ ہمارے پارٹی الیکشن ہوچکے ہیں، جس کے تمام کوائف الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کر دیے گئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں، جب کہ ہم نے پارٹی کی ذیلی تنظیم پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرین کے تحت انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اگلے انتخابات میں بھی اِسی ونگ کے پلیٹ فورم سے حصہ لیں گے۔ اِس کے سربراہ مخدوم امین فہیم ہیں۔
سوال: کچھ ادب پر بات ہوجائے۔ آپ کے شیلف، مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی کتابیں سے آراستہ ہیں، شیخ ایاز سے متعلق کئی کتابیں ہیں، مطالعے کے لیے وقت مل جاتا ہے؟
نثارکھوڑو: مطالعے کے لیے زیادہ وقت تو نہیں ملتا۔ شیخ ایاز کو پورا نہیں پڑھا ہے، مگر وہ سندھی ادب کا بڑا نام ہیں، اس لیے ان کی تمام تخلیقات اپنے پاس رکھتا ہوں۔ سندھی، اردو، انگریزی میں لکھی جانے والی ہر قسم کی کتابیں پڑھتا ہوں۔
سوال: آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں؟
نثارکھوڑو: شیربازمزاری کی کتاب گذشتہ دنوں میرے مطالعے میں رہی۔ آج کل سیاسی موضوع پر لکھی ہوئی ایک کتاب Deception پڑھ رہا ہوں۔
سوال: سیاسی مصروفیات نے اچھی فلموں سے لطف اندوز ہونے کا وقت دیا؟
نثارکھوڑو: بالکل، اب بھی فلمیں دیکھتا ہوں۔ گذشتہ دنوں فلم ''برفی'' دیکھی تھی۔
سوال: کس کی اداکاری پسند ہے؟
نثارکھوڑو: ہمارے زمانے کے لوگ دلیپ کمار ہی کا نام لیتے ہیں۔ بے شک وہ ٹرینڈ سیٹر ہیں۔ موجودہ نسل کے فن کاروں میں رنبیر کپور خود کو وراسٹائل ثابت کرسکتا ہے۔
سوال: مزاجاً کیسے ہیں؟ غصہ آتا ہے؟
نثارکھوڑو: مجھے غصہ نہیں آتا، یہ تو عادت ہے۔ (قہقہہ!) دیکھیں یہ فطری ہے۔ اگر آپ ہر وقت مسکراتے رہیں گے، تو منافق کہلائیں گے۔ غصہ آتا ہے، مگر ایک منٹ میں ختم ہوجاتا ہے۔
سوال: کیا ایسا ہی 2008 میں، انتخابات کے موقع پر ہوا، جب غنویٰ بھٹو کے انتہائی دُرشت رویے کے باوجود آپ نے خود پر قابو رکھا؟
نثارکھوڑو: (چند لمحوں کے توقف کے بعد) جو رویہ میں نے اُس روز اختیار کیا، آج اُس کے لیے میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میرا جواب میں ہاتھ نہ اٹھانا ہی غنویٰ کی شکست بنا۔ دیکھیں میرے سامنے ایک عورت تھی، جو چاہتی تھی کہ بدمزگی ہو، پولنگ بند ہو۔ مگر میں نے خود کو روک لیا، کیوں کہ اسی الیکشن کے لیے محترمہ نے اپنی جان کی قربانی دی تھی۔ میں نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ میں نے غنویٰ کو معاف کردیا۔ اُنھوں نے جو کیا، وہ اُن کا ظرف تھا، اور میں نے جو کیا، وہ میرا ظرف تھا۔
سوال: سندھ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کو ہے۔ آپ کو اسپیکر کی حیثیت سے کوئی مشکل پیش آئی؟
نثارکھوڑو: نہیں، بالکل نہیں۔ بلکہ اب تو یہ تجربہ اچھا لگتا ہے۔ خود پر بھروسا تھا، بولنے میں جھجک بھی نہیں ہوتی تھی۔ سچ تو یہ ہے اِن برسوں میں کوئی تلخ لمحہ نہیں آیا۔
کلام لطیف کے شایق سیاست داں کی زندگی پر ایک نظر
نثار کھوڑو نے 1950 میں لاڑکانہ شہر سے چھے کلومیٹر پرے، دریا کے کنارے آباد ایک گاؤں، عاقل میں آنکھ کھولی۔ کھیتی باڑی اُن کا آبائی پیشہ ہے۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔ جس وقت والد، حاجی محمد نواز کھوڑو کا انتقال ہوا، نثار کھوڑو ایک ماہ کے تھے۔ یوں تو محمد نواز کھوڑو زمیں دار تھے، اپنے بڑے بھائی اور معروف سیاست داں، محمد ایوب کھوڑو کی سرپرستی میں وہ میدان سیاست میں بھی سرگرم رہے، کچھ عرصے خاکسار تحریک سے جُڑے رہے۔ والد کے انتقال کے بعد نثار کھوڑو کے تایا، ایوب کھوڑو اُن کے سرپرست بنے۔ آنے والے برسوں میں اُن کی راہ نمائی حاصل رہی۔
والدہ نے اُن کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ماضی کھوجتے ہوئے بتاتے ہیں،''گو یہ آسان نہیں تھا، مگر میری والدہ نے والد کی کمی پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُن کی تربیت اور دعائیں آج بھی میرے کام آرہی ہیں!'' بچپن میں شرارتوں سے دُور ہی رہے۔ ایک حد تک شرمیلے اور کم گو تھے۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی زیادہ فعال نہیں رہے۔ کبھی سزا کی نوبت نہیں آئی۔ جہاں گِلّی ڈنڈا اور دیگر مقامی کھیل کھیلے، وہیں کرکٹ، والی بال اور بیڈمنٹن کا بھی تجربہ کیا۔ جہاں ناول اور کہانیاں پڑھیں، وہیں کومکس کے اوراق بھی پلٹے۔
ساتویں تک تعلیم گاؤں کے سرکاری اسکول سے حاصل کی۔ 62ء، میں، جب عمر بارہ برس تھی، انھوں نے لاڑکانہ شہر کا رخ کیا، جہاں گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری اسکول سے 66ء میں میٹرک کرنے کے بعد کراچی کے لیے رخت سفر باندھا۔ گاؤں چھوڑنے کے بعد والدہ سے دُوری کا احساس ستاتا تھا، پر نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں کوئی خاص دقت پیش نہیں آئی۔ ڈی جے سائنس کالج سے انٹر کرنے کے بعد وہ جامعہ کراچی کا حصہ بن گئے۔ گریجویشن کے بعد عملی زندگی شروع ہوئی۔ زمینوں کی دیکھ ریکھ کرنے لگے۔
اُنھوں نے دو شادیاں کیں، جن سے پانچ بیٹیاں ہیں۔ دو بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے، خیر سے نانا ہیں۔ بچپن میں اکیلے پن کا تجربہ کرنے والے نثار صاحب نے اپنے بچوں سے دوستانہ روابط رکھے۔ اُن کے بہ قول، اس سے بچوں کو اعتماد ملا، اُن میں فہم پیدا ہوا۔ عام طور سے سادہ غذا لیتے ہیں۔ دال چاول سے رغبت ہے۔ کوکنگ میں کوئی خاص دل چسپی نہیں، البتہ ناشتہ تیار کر لیتے ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔
شاعری سے شغف رکھتے ہیں۔ شاہ لطیف کے مداح ہیں۔ گائیکی میں جہاں مہدی حسن اور جگجیت کا نام لیتے ہیں، وہیں لتا، نورجہاں، فریدہ خانم اور عابدہ پروین کو بھی سراہتے ہیں۔ باپ بننا زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ بیٹے کی وفات سے کرب ناک یادیں جُڑی ہیں۔
ایک دیوار محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصاویر سے سجی ہے۔ ایک میز پر ٹرافیاں چُنی ہوئی ہیں، دوسری شیلڈز سے آراستہ ہے۔
اور جو شے فوراً توجہ مبذول کرواتی ہے، وہ شیلف میں سلیقے سے لگی انگریزی، اردو اور سندھی میں تحریرکردہ کتابیں ہیں، جن کے موضوعات میں خاصا تنوع ہے۔ کوئی کتاب تاریخ کا احاطہ کرتی ہے، کوئی سیاست کا، کسی کا موضوع ادب ہے، کسی کا شاعری۔ ایک خاص حصہ شیخ ایاز کی تخلیقات کے لیے مختص ہے۔
یہ کراچی کے علاقے ڈیفینس میں واقع اسپیکر سندھ اسمبلی، نثار کھوڑو کے بنگلے کا ڈرائنگ روم ہے۔ اپنے ملاقاتیوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ سوالات کا سلسلہ شروع ہوا، جن کا وہ اپنے مخصوص، دھیمے مگر متوازن لہجے میں جواب دیتے رہے۔ حالاتِ زیست کھوجتے سمے تو ہم وار راستہ ملا، مگر سیاست کا موضوع آتے ہی سوالات نئی زمینوں کی اُور نکل گئے، اُن کی ہیئت بدل گئی، مگر اُن کا لہجہ نہیں بدلا۔ دھیما پن اُس وقت بھی برقرار رہا، جب سوال بُلند آہنگ تھا، توازن اس وقت بھی قائم رہا، جب گفت گو تنگ پگڈنڈیوں سے گزر رہی تھی۔ پیپلزپارٹی کے اِس سینئر راہ نما سے ہونے والا خصوصی انٹرویو پیش خدمت ہے۔
سوال: تحریک استقلال سے سیاسی کیریر کا آغاز کرنے والے نثار کھوڑو گذشتہ تین عشروں میں، بہ طور سیاسی کارکن کن مراحل سے گزرے؟
نثارکھوڑو: کئی مراحل آئے۔ تنظیمی تجربہ، خود کو میٹنگز میں پیش کرنے کا ڈھنگ تحریک استقلال سے ملا۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہاں بنیادی تربیت ہوئی۔ البتہ مرکزی دھارے کی سیاست کرنے اور عوام کے درمیان کھڑے ہونے کا طریقہ پیپلزپارٹی میں آکر سیکھا۔
سوال: ایئر مارشل اصغر خان کی سرپرستی میں آپ نے سیاسی سفر شروع کیا، پھر اُن سے الگ ہوگئے۔ آج اُن کے طرز سیاست کو کس طرح پرکھتے ہیں؟
نثار کھوڑو: ایئر مارشل صاحب سیدھی اور سچی بات کرنے کے عادی تھے۔ اس عادت نے اُن کی سیاست کو نقصان بھی پہنچایا۔ یہ بات صحیح ہے کہ جمہوریت کے لیے انھوں نے پہل کی، اِس کی پروا نہیں کی کہ پیپلزپارٹی بڑی جماعت ہے، وہ انڈر شیڈو آجائیں گے۔ یہ بڑی بات ہے۔ میں اس کی تعریف کرتا ہوں۔
یہ بھی دیکھیں کہ جو اصغر خان پیپلزپارٹی کے مخالف تھے، وہ 90ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے الائنس میں شامل ہوئے۔ اُنھوں نے جمہوریت کے لیے لچک دکھائی۔ جب اُنھیں پتا چلا کہ گذشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی، پیپلزپارٹی کو روکنے کے لیے آئی جے آئی کو تشکیل دیا گیا، چودہ کروڑ روپے بانٹے گئے، عوام کے ساتھ ناانصافی ہوئی، تو پھر ایئرمارشل صاحب کیس لے کر سپریم کورٹ گئے۔ اُس کیس کا نتیجہ آج سامنے آرہا ہے۔ تو یہ مثبت باتیں ہیں۔ بے شک وہ جمہوری اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ البتہ 86ء میں اُن کا ایم آر ڈی سے نکلنے کا فیصلہ دُرست نہیں تھا۔ یہ بات میں کل بھی کہتا تھا، اور آج بھی کہتا ہوں۔
سوال: آپ تین بار اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے۔ بہ طور اپوزیشن لیڈر کون سا دور کٹھن ثابت ہوا؟
نثار کھوڑو:91ء تا 93ء، نواز شریف کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی پر بہت حملے ہوئے۔ ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے۔ ایم پی ایز کو ہراساں کیا گیا۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنے۔ انتقامی کارروائی کی انتہائی شکل یہ تھی کہ لاڑکانہ میں میرا گھر جلا دیا گیا۔ اس وقت بات ذاتیات تک پہنچ گئی تھی۔ ہم نے بڑی ہمت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں مسلم لیگ ن کی حکومت بہت کم زور تھی۔ مقابلہ نسبتاً آسان تھا۔ اِسی طرح 2002 تا 2008، بہ طور اپوزیشن لیڈر پرویز مشرف کی حکومت کی خامیاں اجاگر کرنے کا موقع ملا۔
سوال: سندھ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے۔ آپ اِس کے اسپیکر رہے۔ یہ تجربہ کیسا رہا؟
نثار کھوڑو: دیکھیں، اسپیکر کا رویہ بہت معنی رکھتا ہے، کیوں کہ رویہ آپ کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔ پھر مجھے چھے اسمبلیوں کا تجربہ تھا۔ قوانین کا پتا تھا۔ گفت گو کے طریقۂ کار کا اندازہ تھا۔ غیرجانب دار رہنا بھی آپ کے کام آتا ہے۔ سرکاری بینچوں پر بیٹھے وزرا اور ارکان شاید مجھ سے ناراض بھی ہوئے ہوں، کیوں کہ میں اپوزیشن کو بولنے کا زیادہ وقت دیتا ہوں۔ اسپیکر بھلے حکومتی نمایندہ ہو، لیکن اپوزیشن اقلیت ہوتی ہے، اسپیکر کی ذمے داری ہے کہ اُسے ''پروٹیکٹ'' کرے۔
سوال: کیا مثبت رویے کا بنیادی سبب بلامقابلہ اسپیکر منتخب ہونا تھا؟
نثارکھوڑو: میری کسی سے ذاتی پرخاش تو رہی نہیں۔ اگر مقابلہ ہوتا بھی، اور میری مخالفت میں ووٹ ڈالے جاتے، تب بھی میرا یہ فرض تھا کہ جہاں سرکاری بینچوں کو سُنوں، وہیں اپوزیشن کو بھی موقع دوں۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔
سوال: یہ پیپلزپارٹی کی چوتھی حکومت ہے۔ گو ماضی کے برعکس اِس بار آپ کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملا، لیکن عام تاثر ہے کہ موجودہ حکومت جمہوری تاریخ کی ناکام ترین حکومت ثابت ہوئی؟
نثارکھوڑو: میں اِس سے اختلاف کروں گا۔ آپ کہتے ہیں حکومت ناکام ثابت ہوئی، اور میں کہتا ہوں کہ یہ ملکی تاریخ کی کام یاب ترین حکومت ہے۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں آئین کے بگاڑ کو سُدھارا گیا۔ صوبائی خودمختاری کا دیرینہ مسئلہ حل ہوا۔ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے مسئلے کا اتفاق رائے سے حل نکالا گیا۔ فارمولا بدل کر صوبوں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا۔ اگر آئین میں، جو عمرانی معاہدہ ہے، بنیادی غلطیاں ہوں، اور حکومت اُنھیں درست نہیں کرسکے، تو وہ ناکام حکومت کہلائے گی۔
اِس نقطۂ نظر سے نواز شریف کی 91ء اور 97ء کی حکومتیں ناکام ثابت ہوئیں۔ وہ آئین میں ترمیم نہیں کرسکے۔ ماضی میں ملکی وسائل کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ نواز شریف متعصب ہیں، اُنھوں نے سندھ کے ساتھ تعصب پر مبنی پالیسی اپنائی۔ اگر یہاں کوئلے سے بجلی پیدا ہوگی، تو سندھ کی اہمیت بڑھ جائے گی، اِس لیے اُس کمپنی کو بھگا دیا، جو اس پراجیکٹ کے لیے پیسے لے کر آئی تھی۔ نو برسوں میں مشرف نے ایک ایک دن ضایع کیا۔ اِس وقت ہمارے پاس سادہ اکثریت نہیں ہے، اِس کے باوجود ہم نے اتفاق رائے سے مسائل کا حل تلاش کیا۔ پانچ برس تک اسمبلی چلا کر عوام کو اعتماد دیا کہ ان کے ووٹ کی اہمیت ہے۔ تو یہ پیپلزپارٹی کی کام یابی ہی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے ہر مسئلہ حل کردیا۔ ضرور کچھ خامیوں بھی ہوں گی، ہمیں رکاوٹیں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، مگر ہم نے روشن مستقبل کی جانب پیش قدمی کی ہے۔
سوال: اگر ایسا ہی ہے کھوڑو صاحب، تو تجزیہ کار، ملکی و بین الاقوامی سروے یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی مقبولیت میں واضح کمی آئی ہے؟
نثارکھوڑو: اگر مقبولیت میں کمی آئی ہے، تو صرف پیپلزپارٹی کی نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، کیوں کہ سب ہی حکومت میں رہے۔ اور پھر کسی سروے پر ہم کیسے اعتبار کر سکتے ہیں۔ یہ سروے اور تجزیے پیش گوئیاں ہیں، حقیقی نتائج الیکشن والے روز سامنے آئیں گے، جب پاکستان کے جمہوریت پسند عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔
سوال: اگر ہم تجزیوں کو نظر انداز کردیں، تو پھر آپ فرمائیں، آیندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کو آپ کہاں دیکھ رہے ہیں؟ ووٹر کیا فیصلہ کریں گے؟
نثارکھوڑو: میں سمجھتا ہوں کہ عوام نے ہمیشہ اچھا فیصلہ کیا ہے۔ دیکھیں 90ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ اور بعد میں دھاندلی کرنے والوں نے اس کا اعتراف بھی کیا۔ 97ء میں جو انتخابات ہوئے، اس میں جیتنے والے کو خود یقین نہیں آرہا تھا کہ اُسے قائد اعظم سے بھی زیادہ مینڈیٹ کیسے مل گیا۔ یہ انتخابات متنازع ہیں، لیکن پیپلزپارٹی نے جن انتخابات میں کام یابی حاصل کی، اُن کی حیثیت متنازع نہیں۔ عوام کے ووٹوں نے پارٹی کو منتخب کیا۔
سوال: تو 2013 میں عوام کسے منتخب کریں گے؟
نثارکھوڑو: دیکھیں، عوام میں ٹھہراؤ تو آیا ہے۔ اعتماد پیدا ہوا ہے۔ میں پرویز مشرف حکومت کو ناجائز تصور کرتا ہوں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اُس اسمبلی نے پانچ سال پورے کیے۔ موجودہ اسمبلی نے بھی آئینی مدت پوری کی ہے، تو اگر کوئی ڈرائے دھمکائے نہیں، مہینے نہ گنوائے کہ فلاں مہینے حکومت چلی جائے گی، فلاں مہینے یہ ہوجائے گا، تو عوام میں جمہوری سیٹ اپ کے حوالے سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ ہم امید کرسکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی کوششوں کو عوام نے محسوس کیا ہوگا۔ اور اگر نہیں کیا ہے، تو الیکشن کی مہم کے دوران ہم اُنھیں اِس کا احساس دلائیں گے، اور ہمیں یقین ہے کہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
سوال: ہم الیکشن کے موضوع پر بات کر رہے ہیں، لیکن گذشتہ چند ماہ سے الیکشن ملتوی کروانے اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت بننے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے؟
نثارکھوڑو: الیکشن ملتوی کروانے کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں، جو فصل کی بوائی کے وقت سو رہے تھے، اور کٹائی کے وقت جاگ گئے۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان والا معاملہ ہے۔ آپ کو اچھا لگے نہ لگے، لیکن کھانے کے درمیان سے مجھے لقمہ لینا ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن پر اعتراض کیوں کیا جائے۔ ہم نے متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کو آزاد اور غیرجانب دار بنانے کا فیصلہ کیا۔ تمام سیاسی پارٹیاں اِس عمل میں شامل تھیں۔ اُس وقت عمران خان اور طاہر القادری دونوں سو رہے تھے۔ عمران خان اُس وقت جاگے، جب اُنھوں نے لاہور میں جلسہ کیا۔ اور طاہر القادری الیکشن سے فقط تین ماہ پہلے کہاں سے آگئے؟ پہلے احتساب کرو، پھر انتخاب کرو، یہ وہی نعرہ ہے، جو آمروں نے لگایا۔ پرویز مشرف، ضیاالحق، یحییٰ خان اور ایوب خان، سب یہی کہتے تھے۔ احتساب کرنے کے لیے عدالتیں آزاد ہیں۔ الیکشن کمیشن متفقہ طور پر بنایا گیا ہے، اِس کی تحلیل کسی طور قابل قبول نہیں ہوگی۔
سوال: تو کیا طاہر القادری اور عمران خان خود سے میدان میں آگئے، یا اُن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے؟
نثارکھوڑو: (ہنستے ہوئے) اب مجھ سے وہ باتیں نہ کہلوائیں، جن پر جھگڑا ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ 2002 میں عمران خان اور طاہر القادری کو پرویز مشرف کے منعقد کردہ الیکشن اچھے لگے۔ اُنھوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ ریفرنڈم میں مشرف کی حمایت کی۔ اور جب مشرف کے جانے کا وقت آیا، بڑے لیڈر پاکستان آنے لگے، تو اُنھوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ سیدھی سی بات ہے، یہ لوگ جمہوری نظام کے حامیوں میں سے نہیں۔
سوال: طاہر القادری کا لانگ مارچ ختم ہونے کے بعد رضاربانی نے جمہوریت کے خلاف ہونے والی مزید سازشوں کی جانب اشارہ کیا تھا۔ تو کیا الیکشن ملتوی کروانے کا خطرہ تاحال موجود ہے؟
نثارکھوڑو: گذشتہ پانچ سال میں ایسا کون سا دن گزرا، جب جمہوریت کے خلاف سازش نہیں ہوئی۔ کسی دن آرام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ کبھی دہشت گردی، کبھی مقدمے، کبھی کچھ اور۔ ان پانچ برسوں میں پیپلزپارٹی کی یہ حکومت دہکتے کوئلوں پر چلی ہے۔
سوال: اب بھی سازشیں ہورہی ہیں؟
نثارکھوڑو: ہورہی ہوں گی۔ اِس طرح کی سازشیں ہوتی ہیں، لیکن میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جب ادارے بن چکے ہیں، سب الیکشن چاہتے ہیں، تو اِکّا دُکّا پارٹیاں انھیں ملتوی نہیں کرواسکتیں۔
سوال: منہگائی آسمان کو چُھو رہی ہے، ایسے میں حکومتی پروگرام کے تحت غریب گھرانے کی خواتین کو ماہانہ ایک ہزار روپے دے کر کیا اِس عفریت پر قابو پایا جاسکتا ہے؟
نثارکھوڑو: دیکھیں، ہر اُس گھرانے کی عورت کو، جس کا سربراہ ایک ماہ میں چھے ہزار روپے نہیں کماسکتا، ایک ہزار روپے ملتے ہیں۔ کیا یہ بڑی بات نہیں؟ ہم نے اربوں روپے خرچ کرکے غربت کم کرنے کی کوشش تو کی۔ فلاحی ریاست کا مطلب کیا ہے، یہی ناں کہ عوام کو سہارا دیا جائے۔ ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان میں ہیلتھ انشورنس ہونی چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ بے روزگاری ایک عالمی مسئلہ ہے۔
سوال: ڈیم وقت کی ضرورت ہیں، لیکن ہمارے ہاں کالا باغ ڈیم سیاسی ایشو بن چکا ہے؟
نثارکھوڑو: کالاباغ ڈیم کی وجہ سے صوبے لڑ پڑے تھے۔ پیپلزپارٹی نے اِس مسئلے پر ایک اسٹینڈ لیا۔ دیکھیں، سندھ کے لوگ پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں۔ اور جہاں اُنھوں نے پاکستان بنایا، وہیں قربانیاں دے کر اِسے بچایا بھی۔ اِسی سندھ کے ماہرین نے کہا تھا کہ دریائے سندھ پر چودہ ایسے مقامات ہیں، جہاں پاور پلانٹ لگا کر پانی کے بہاؤ سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، مگر ڈیم نہ بنائیں۔ ڈیم بنانے ہیں، تو تربیلا سے اوپر بنائیں۔ اُس پر کوئی اعتراض نہیں۔ بھاشا ڈیم پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
سوال: آپ حکومت کی کام یابیوں کا تذکرہ کررہے ہیں، لیکن کیا یہ پریشان کن امر نہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی ہی لیڈر کے قاتل گرفتار نہیں کرسکی، گو صدر پاکستان اور وزیر داخلہ کی جانب سے متعدد بار کہا گیا کہ حکومت کو بی بی کے قاتلوں کا علم ہے؟
نثارکھوڑو: کچھ قاتل تو وہ تھے، جو دھماکے کے ساتھ ہی اڑ گئے۔ ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ گولی چلانے والا ہاتھ مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ سازش کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ہم نے اس معاملے میں وہی طریقہ اختیار کیا، جو محترمہ نے اپنی زندگی میں اختیار کیا تھا۔ 18 اکتوبر کے سانحے کی تحقیقات کا معاملہ بی بی نے موجودہ حکومت پر نہیں چھوڑا، بلکہ یہ کہا تھا کہ کوئی بیرونی ادارہ اس کی تحقیقات کرے۔ اپنے بھائی کی شہادت کے کیس میں بھی ایسا ہی کیا۔ بے نظیر صاحبہ کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ پرویز مشرف سے بھلا کیسے کیا جاسکتا تھا، جس نے دو گھنٹے میں جائے وقوعہ کو دھلوا دیا، اور پھر سوری کہہ دیا۔ تو اس کام میں وقت لگا۔ یواین او سے رجوع کیا گیا۔ یو این او کی رپورٹ واضح ہے یا نہیں، یہ الگ معاملہ ہے۔ کیس چل رہا ہے۔ کچھ لوگوں کی نشان دہی ہوئی ہے، کچھ گرفتار ہیں۔ کچھ بھاگے ہوئے ہیں۔ اور جو بھاگے ہوئے ہیں، وہ آکر حاضر نہیں ہوتے۔ ان کی جائیداد ضبط کرنے کے احکامات جاری ہوتے ہیں، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ دوسرے کورٹ کے احکامات پر تو فوری عمل ہوجاتا ہے، مگر اِس کیس میں کورٹ کے آرڈر پر عمل نہیں ہورہا۔
سوال: لیکن جب وزیر داخلہ یہ بیان دیتے ہیں کہ انھیں قاتلوں کا علم ہے۔۔۔
نثارکھوڑو: (بات کاٹتے ہوئے) میرے بھائی، آپ نے ہم نے، سب نے یہ سنا ہے کہ تحقیقات طالبان کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ کچھ اور لوگوں کی جانب بھی اشارہ کیا گیا۔ اُس وقت کی حکومت کیا نااہل تھی کہ اُس نے محترمہ کو پروٹیکشن نہیں دی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں دی؟ اس طرح کے سوال ان کے قاتلوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں، لیکن یہ معاملہ ابھی کورٹ میں ہے۔ اور ایسا تو نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی نے اس کیس کی پیروی نہیں کی۔ ہم تو اب بھٹو کیس پر آرہے ہیں۔ خدا کرے، سپریم کورٹ کو جوش آئے، اور بھٹو کی پھانسی کو اگر قتل نہیں، تو کم از کم ناجائز ہی قرار دے دیا جائے۔
سوال: محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کا شکار بنیں، لیکن حکومت میں آنے کے بعد اُن کی جماعت اِس مسئلے پر بھی قابو پانے میں ناکام رہی؟
نثارکھوڑو: قوم کی تقدیر کئی طریقوں سے بدلی جاتی ہے۔ عوام میں شعور اجاگر کرنا بھی ایک طریقہ ہے۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو، محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہم سے چھین لیا گیا، لیکن ہم نے راستہ بدلنے کے بجائے بلاول بھٹو زرداری کو پیش کردیا۔ اِس کا مقصد عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ سیاسی طریقۂ کار بہترین راستہ ہے، اِسے اختیار کیا جائے۔ پھر دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے جہاں ضرورت پیش آئی، افواج پاکستان کو استعمال کیا۔ جن علاقوں میں پاکستان کے جھنڈے اتار دیے گئے تھے، وہاں پاکستان کے جھنڈے لہرائے۔
سوال: لیکن مجموعی کارکردگی کو اطمینان بخش تو قرار نہیں دیا جاسکتا؟
نثارکھوڑو: دیکھیں، دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ پاکستان ہی کیا، پوری دنیا کو اِس نے کم زور کیا۔ کیا نیٹو افواج افغانستان میں، عراق میں امن قائم کرسکیں؟ نہیں! پاکستان بھی اِسی مسئلے کا شکار ہے۔ جہاں فوجی اہل کاروں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے، وہیں عوام بھی شہید ہوئے۔ ہم نے اپنے لوگوں کو بھی نہیں بخشا، جو قصور وار تھے، انھیں سزائیں دیں۔
سوال: دہشت گردی بے شک ایک عالمی مسئلہ ہے، لیکن سندھ، خصوصاً کراچی میں روزانہ دس، بارہ لاشیں گر رہی ہیں، اِس پر تو قابو پایا جاسکتا تھا؟
نثارکھوڑو: یہ ایک افسوس ناک امر ہے۔ ایسا بالکل ہونا نہیں چاہیے، لیکن اس معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ جب سے آپ نے شعور سنبھالا ہے، اخبارات میں یہی پڑھا ہوگا کہ کراچی میں روزانہ لاشیں گر رہی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یہ نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اِس کے محرکات کیا ہیں؟ اس کی جڑیں کہاں تک جاتی ہیں؟ ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا۔ ڈرگ مافیا، جرائم پیشہ عناصر اس میں شامل ہیں۔ پھر کراچی میں بے دریغ اسلحہ آیا۔ نیشنل لاجسٹک سیل کے اسلحے سے بھرے ٹرک کراچی پہنچے۔ اب اسلحہ اگر لائسنس والا ہے، تو شاید آپ قاتل تک پہنچ جائیں، لیکن اگر لائسنس والا نہیں، تو کیسے پہنچیں گے؟ پھر یہ بڑا شہر ہے، جرائم پیشہ افراد کے لیے چُھپنے کے لیے اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ ہاں، امن قائم کرنے والے ادارے بھی کم زوری کا شکار ہیں۔ کبھی انھیں وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی دباؤ کا۔
سوال: مگر بنیادی ذمے داری تو حکومتِ سندھ ہی کی ہے؟
نثارکھوڑو: میں خود کو، گورنمنٹ کو ذمے داری سے مبرا قرار نہیں دے رہا۔ صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہتھیاروں کی ترسیل، جو برسوں سے چلی آرہی ہے، اِس کا بڑا سبب ہے۔ یہ ہتھیار کبھی استعمال ہوتے ہیں، کبھی چُھپ جاتے ہیں۔
سوال: ایم کیو ایم سندھ اور وفاق میں آپ کی اتحادی رہی۔ کئی بار معاملات بگڑے، پھر مذاکرات ہوئے، معاملات سُلجھا لیے گئے، مگر نگراں سیٹ اپ آنے سے چند ہفتے قبل ایم کیو ایم پھر حکومت سے علیحدہ ہوگئی؟
نثارکھوڑو: سب سے پہلے میں جمہوری اداروں کے لیے کردار ادا کرنے پر ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے اس معاملے میں کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دیکھیں، مخالفت حق ہے۔ اتحادی حکومت ہے۔ ہر پارٹی کا اپنا منشور ہے۔ اپنی لائن ہے۔ ہر پارٹی کو اپنی پالیسی اختیار کرنے، اپنے فیصلے کرنے کا حق ہے۔
سوال: بلدیاتی نظام کا مسئلہ تو حالیہ دنوں میں سامنے آیا، لیکن گذشتہ برس پیپلزپارٹی کے سنیئر راہ نما، ذوالفقار مرزا کا اچانک سامنا آنے، دھواں دار تقریرکرنا، کیا یہ اُن کا انفرادی فعل تھا، یا یہ اپنے اتحادیوں کو قابو میں رکھنے کی حکمت عملی تھی؟
نثارکھوڑو: کس حکمت عملی کی باتیں ہورہی ہیں؟ انھوں نے ایک ایشو کو سامنے لانے کی کوشش کی، لیکن اس ایشو کو جس طرح ہینڈل کرنا چاہیے تھا، اس طرح ہینڈل نہیں کیا گیا۔ وہ جذباتیت کا شکار ہوگئے۔ کچھ جرائم پیشہ افراد کی نشان دہی کرتے ہوئے پوری قوم کو لپیٹ دینا ٹھیک نہیں۔ برے عناصر ہر پارٹی میں ہوسکتے ہیں۔ اور ضروری نہیں کہ یہ عناصر پارٹی پالیسی ہی پر عمل کرتے ہوں۔ خیر، میں اُن کے طریقۂ کار سے اختلاف رکھتا ہوں۔
سوال: کچھ عرصے قبل یہ خیال سامنے آیا تھا کہ پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ الائنس بنا کر الیکشن میں حصہ لے گی۔ موجودہ صورت حال میں کیا ممکن ہے؟
نثارکھوڑو: ہم نے ہمیشہ الیکشن میں اتحادیوں کے ساتھ تعاون کا ارادہ ظاہر کیا ہے، مگر ضروری نہیں کہ جو خیال ہم پیش کریں، اس پر عمل بھی ہو۔ ایسا تو نہیں تھا کہ ہم اپنی کچھ سیٹیں ایم کیو ایم کو دے دیتے، یا وہ ہمیں کچھ سیٹیں دے دیتے۔ ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جب اپوزیشن کی جماعتوں کا الائنس بن سکتا ہے، تو حکومتی جماعتوں کا الائنس کیوں نہیں بن سکتا؟ تو یہ ایک خیال ہے۔
سوال: تو کیا انتخابات کے بعد ن لیگ یا تحریک انصاف کے اشتراک سے بھی حکومت قائم کی جاسکتی ہے؟
نثارکھوڑو: امکان تو ہوسکتا ہے۔ کیا ن لیگ اور ہمارے درمیان اتحاد نہیں تھا؟ گذشتہ انتخابات میں ہمارے اور اُن کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمینٹ ہوئی تھی۔
سوال: آیندہ انتخابات میں آپ ن لیگ اور تحریک انصاف کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں؟
نثارکھوڑو: دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف ملک بھر میں کتنے امیدوار کھڑے کرتی ہے، اور ن لیگ کتنے کھڑے کرتی ہے، اور ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کتنے امیدوار کھڑی کرتی ہے۔ پھر دیکھا یہ جائے گا کہ کس امیدوار میں پوٹینشل ہے۔ اسی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ ماضی کی طرح اِس بار بھی پیپلزپارٹی ملک کے ہر حلقے میں امیدوار کھڑے کرے گی۔
سوال: کیا پارٹی کی سطح پر ہونے والے انتخابات کے بغیر حقیقی جمہوریت کا اطلاق ممکن ہے؟
نثارکھوڑو: پارٹیوں کی سطح پر انتخابات ہونے چاہییں۔ یہ اچھی بات ہے۔ جب آپ ووٹر کے فیصلے کو اعلیٰ ترین فیصلہ مانتے ہیں، تو پارٹی کی سطح پر ورکر کے فیصلے کو بھی ماننا چاہیے۔ اِس میں کوئی اختلاف نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کم زور رہی، جمہوری ادارے بھونچال کا شکار رہے، اِس لیے کبھی کبھار پارٹیوں میں الیکشن کروانا اضافی لگتا ہے۔ اور اگر تمام امیدوار متفقہ طور پر منتخب ہوگئے، تو کوئی کیوں اعتراض کرے۔ اگر میں اپنے تنظیمی سیٹ میں تبدیلی نہیں چاہتا، تو مجھے اس کا حق ہے۔
سوال: ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ناتے کیا پیپلزپارٹی کو اِس میدان میں مثال نہیں قائم کرنی چاہیے؟
نثارکھوڑو: ہمیشہ کی ہے۔ 2002 اور 2008 کے انتخابات سے پہلے پارٹی الیکشن ہوئے۔ ہمارے پارٹی الیکشن ہوچکے ہیں، جس کے تمام کوائف الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کر دیے گئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں، جب کہ ہم نے پارٹی کی ذیلی تنظیم پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرین کے تحت انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اگلے انتخابات میں بھی اِسی ونگ کے پلیٹ فورم سے حصہ لیں گے۔ اِس کے سربراہ مخدوم امین فہیم ہیں۔
سوال: کچھ ادب پر بات ہوجائے۔ آپ کے شیلف، مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی کتابیں سے آراستہ ہیں، شیخ ایاز سے متعلق کئی کتابیں ہیں، مطالعے کے لیے وقت مل جاتا ہے؟
نثارکھوڑو: مطالعے کے لیے زیادہ وقت تو نہیں ملتا۔ شیخ ایاز کو پورا نہیں پڑھا ہے، مگر وہ سندھی ادب کا بڑا نام ہیں، اس لیے ان کی تمام تخلیقات اپنے پاس رکھتا ہوں۔ سندھی، اردو، انگریزی میں لکھی جانے والی ہر قسم کی کتابیں پڑھتا ہوں۔
سوال: آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں؟
نثارکھوڑو: شیربازمزاری کی کتاب گذشتہ دنوں میرے مطالعے میں رہی۔ آج کل سیاسی موضوع پر لکھی ہوئی ایک کتاب Deception پڑھ رہا ہوں۔
سوال: سیاسی مصروفیات نے اچھی فلموں سے لطف اندوز ہونے کا وقت دیا؟
نثارکھوڑو: بالکل، اب بھی فلمیں دیکھتا ہوں۔ گذشتہ دنوں فلم ''برفی'' دیکھی تھی۔
سوال: کس کی اداکاری پسند ہے؟
نثارکھوڑو: ہمارے زمانے کے لوگ دلیپ کمار ہی کا نام لیتے ہیں۔ بے شک وہ ٹرینڈ سیٹر ہیں۔ موجودہ نسل کے فن کاروں میں رنبیر کپور خود کو وراسٹائل ثابت کرسکتا ہے۔
سوال: مزاجاً کیسے ہیں؟ غصہ آتا ہے؟
نثارکھوڑو: مجھے غصہ نہیں آتا، یہ تو عادت ہے۔ (قہقہہ!) دیکھیں یہ فطری ہے۔ اگر آپ ہر وقت مسکراتے رہیں گے، تو منافق کہلائیں گے۔ غصہ آتا ہے، مگر ایک منٹ میں ختم ہوجاتا ہے۔
سوال: کیا ایسا ہی 2008 میں، انتخابات کے موقع پر ہوا، جب غنویٰ بھٹو کے انتہائی دُرشت رویے کے باوجود آپ نے خود پر قابو رکھا؟
نثارکھوڑو: (چند لمحوں کے توقف کے بعد) جو رویہ میں نے اُس روز اختیار کیا، آج اُس کے لیے میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میرا جواب میں ہاتھ نہ اٹھانا ہی غنویٰ کی شکست بنا۔ دیکھیں میرے سامنے ایک عورت تھی، جو چاہتی تھی کہ بدمزگی ہو، پولنگ بند ہو۔ مگر میں نے خود کو روک لیا، کیوں کہ اسی الیکشن کے لیے محترمہ نے اپنی جان کی قربانی دی تھی۔ میں نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ میں نے غنویٰ کو معاف کردیا۔ اُنھوں نے جو کیا، وہ اُن کا ظرف تھا، اور میں نے جو کیا، وہ میرا ظرف تھا۔
سوال: سندھ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کو ہے۔ آپ کو اسپیکر کی حیثیت سے کوئی مشکل پیش آئی؟
نثارکھوڑو: نہیں، بالکل نہیں۔ بلکہ اب تو یہ تجربہ اچھا لگتا ہے۔ خود پر بھروسا تھا، بولنے میں جھجک بھی نہیں ہوتی تھی۔ سچ تو یہ ہے اِن برسوں میں کوئی تلخ لمحہ نہیں آیا۔