مزدور
اس ملک میں جتنا دوسروں کو اپنے اندر سمانے کا کام سندھ نے کیا وہ کسی نے بھی نہیں کیا۔
کچھ مزدور تھے، بلوچستان سے گزر کر ایران سے ہوتے یورپ جارہے تھے۔ یہ راستہ غیر قانونی ہجرت کے لیے بہت پرانا ہے۔ تربت کے قریب ان مزدوروں کی لاشیں ملیں۔ کہتے ہیں بلوچ لبریشن آرمی نے ذمے داری قبول کرلی ہے۔ میری نظر جب اس سرخی پر پڑی تو بے اختیار یہ الفاظ میرے ہونٹوں پر آگئے۔
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
یہ مزدور جو مارے گئے یہ پنجابی تھے۔ ان میں سے کچھ گجرات، کچھ گوجرانوالا، سیالکوٹ اور منڈی بہاؤالدین کے تھے۔ اس سے پہلے اس طرح کا بڑا واقعہ گوادر میں پیش آیا۔ وہ سارے مزدور میرے گاؤں کے لاکھو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ لاکھو مزدور، بلوچ قوم پرست کے اس فرقے کی سوچ کے مطابق اس زمرے میں آئے ہیں کہ جو بھی باہر سے بلوچستان کمانے آئے گا وہ اس بات کا مرتکب ہے کہ وہ بلوچ مزدور کے پیٹ پر لات مارتا ہے، بلوچ قوم پرست کی سوچ کے مطابق باہر سے آنے والا اس بات کا بھی مرتکب ہوگا کہ وہ بلوچستان میں ترقی کے نام پر ہونے والوں کاموں میں بلوچ قوم کو بھی اقلیت میں تبدیل کرے گا۔
مگر یہ پنجابی مزدور تو صرف گزرگاہ کے بہانے یہاں پہنچے تھے، ان کا تو کوئی بھی بلوچ سیاست سے یا ان کی سوچ سے لینا دینا نہیں تھا۔ مگر گولی کی آنکھ کسے جانے۔ وہ تو صرف گزرنا جانتی ہے، آر پار ہونا اسے مقصود ہوتا ہے اور دوسرے دن خبر بن جاتی ہے کہ دیکھو بلوچ مزاحمت کررہے ہیں۔
وہ جو مارے گئے وہ پنجابی نہ تھے، جو کل لاکھو قبیلے کے مزدور مارے گئے وہ بھی سندھی نہ تھے، وہ سرائیکی یا کوئی اور قوم نہ تھے، وہ بس مزدور تھے۔ اپنے جسم کو ایندھن بنا کر، پگھلا کر بچوں کے لیے روٹی کمانے نکلے تھے، اور جو گولی ان میں پیوست ہوئی، جس نے اس رائفل کا ٹریگر دبایا، وہ بھی بلوچ نہ تھے۔ ہاں ان دونوں کی زبانیں، تاریخ اور ثقافت تو یکتا ہوسکتی ہے، مگر معاشی حالت نہیں۔ ان کے پیٹ میں پلتی بھوک کی آگ نہیں۔ بہت سستے بکتے ہیں یہ، یورپ کے بازاروں میں، یہاں کے مزدور کی جو یہاں قیمت ہے اس سے قدراً زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے پیچھے کوئی ایجنٹ ہوگا۔
اس سارے مظہر کو Human Trafficking کہا جاتا ہے۔ انسانوں کی اسمگلنگ۔ یہ نہ جاتے تو ان کے گردے جاتے۔ آج کے بازاروں میں کیا کچھ نہیں بکتا۔ وہ جنھوں نے رائفل کا ٹریگر دبایا ان پنجابی مزدوروں کو مارا یا جنھوں نے کل لاکھو مزدوروں کو مارا تھا، وہ سب کیا تھا۔ ایسا ہوجاتا ہے کہ خود اپنا بیانیہ ڈسنے لگتا ہے۔ تبھی تو شاعر نے کہا
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
وہ جس نے بلوچ مفادات کا تحفظ کرنے کے نام پر گولی چلائی، اسے پتا بھی نہیں کہ اس نے بلوچوں کا کتنا نقصان کروا دیا۔ آزادی کی تحریکیں اس طرح نہیں لڑی جاتی کہ نہتے مزدوروں اور شہریوں کو مار ڈالو، بچوں اور عورتوں کو یتیم اور بیوہ بنادو۔ ہمیں پتا بھی نہیں چلتا ہم مہرے بن جاتے ہیں۔ Proxy جنگوں کی دنیا، ایک ایسی دنیا ہے جو آپ کے بیانیہ سے کسی اور کو نہیں، خود اپنے آپ کو ڈسنے لگتی ہے۔ کون کہتا ہے کہ بلوچوں کے ساتھ زیادتیاں نہیں ہوئی ہیں۔ وہ اس فہرست میں سب سے آگے ہیں۔
مگر زیادتیاں تو پختونوں کے ساتھ بھی کم نہیں ہوئیں، سندھی بھی اس فہرست میں آتے ہیں، اور جو ان چار قوموں سے بھی پیچھے ہیں، اپنا تشخص اس پاکستان میں منوانے کے لیے، جس طرح سرائیکی یا کراچی میں مہاجر ہیں یا ہندکو ہیں۔ اس مملکت خداداد میں مجموعی طور پر جو اقلیتیں ہیں، ان پر کیا بیتی ہے۔ پاکستان دنیا میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سب سے پسماندہ ہے۔ جس طرح سے عورتوں کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں، یا بچوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں اور جو مجموعی جمہوری قوتیں ہیں، ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ اور خود مجموعی قوتیں اپنی ماہیت میں کتنی کمزور اور مجبور ہیں، خان اور چوہدری، سرداروں کے لوگ اب بھی انھی کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ جس پارٹی میں جائیں وہ پارٹی آگے آگے۔ آمریتوں کے ساتھ بھی یہی اشرافیہ ہوتے ہیں، جن سے آمریتیں اقتدار کا اچھا وقت گزار لیتی ہیں۔
جمہوری قوتوں نے بھی کیا کیا۔ سندھ میں ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ یرقان کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اتنا فنڈ NFC سے آیا، لوگوں تک نہیں پہنچا۔ سندھ کے 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
کراچی کے اندر جو بیانیہ الطاف حسین نے دیا اس کا کیا ہوا؟ کبھی مہاجر قوم کو اس سے لڑایا، کبھی اس سے۔ اور ایک دن مہاجر قوم کو تنہا کھڑا کردیا۔
اور جو ہماری مقتدرہ کی سوچ ہے، اس کا کیا عمل ہے؟ کبھی مذہبی پارٹیاں بنوائیں۔ افغان جہاد میں امریکا کے مہرے بن کر استعمال ہوتے رہے۔
کسی پنجابی یا سندھی مزدور کو مارنے سے بلوچ قوم آزاد نہیں ہوگی۔ ایسا کام کرنے سے خود بلوچ قوم کے حقوق کی تحریک کمزور ہوگی۔
مان لیجیے نہیں ملتی آزادی اور کیا کریں گے آزادی، اس لیے کہ ایران کے اندر جو بلوچ ہیں وہ اگر ایران کے مرکز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو کیا ایران ان کو چھوڑ دے گا؟ ہندوستان کو کشمیر ہتھیانا ہے، اس کے لیے رکاوٹ پاکستان ہے۔
یہاں علیحدگی پسند تحریکوں کو کھڑے کھڑے خریدے گا، مگر چلائے گا ان کو اپنے ایجنڈے پر۔ ہندوستان آج کل افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے اور مذہبی انتہاپرستی کے ذریعے وہ یہ کام سرانجام دینا چاہتا ہے۔ کیا یہ بلوچ قوم کے لیے باعث تشویش نہیں کہ وہاں ان کے نام پر علیحدگی کی تحریک لڑنے والے، مذہبی انتہاپرستوں کے ساتھ جڑ کر انتشار پھیلا رہے ہیں۔ کس نے کہا دنیا میں نقشے نہیں ٹوٹتے۔ وہ ٹوٹتے ہیں مگر جب دنیا کی سطح پر کوئی جنگ ہو۔ دنیا کا نقشہ پہلی جنگ عظیم میں تبدیل ہوا، پھر دوسری جنگ عظیم میں، اس کے بعد کچھ مخصوص حالات میں کہیں کہیں نقشے بگڑے۔ ہمارا جو بھی ہے یہ پاکستان ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کی جدوجہد کرنی ہے۔
اس ملک میں جتنا دوسروں کو اپنے اندر سمانے کا کام سندھ نے کیا وہ کسی نے بھی نہیں کیا۔ آزادی سے دو سو سال پہلے بلوچ قوم ہجرت کرکے آئی۔ سندھ نے انھیں اپنا حصہ بنایا۔ بلوچ تو سندھ کے بادشاہ بھی بنے، وہ اب بھی مکمل طور پر سندھی نہ بن سکے لیکن سندھ کے ساتھ مجموعی طور پر جڑے رہے۔
میرے گاؤں میں Settler Punjabi آئے، انھوں نے بہت سال تک سندھ کے ساتھ ایک آواز بن کر، جڑ کر سیاست نہیں کی، لیکن ان کو اتنی اچھی طرح سندھی آتی ہے اور وہ بہت گھل مل بھی گئے۔ پھر 1997 کے بعد یوپی، دلی، گجرات، راجستھان سے بہت زیادہ ہجرتیں ہوئیں۔ وہ اب بھی مجموعی سندھ کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کے سیاستدان ان کو سندھ کے دو ٹکڑے کرنے کے خواب دکھاتے ہیں۔ لیکن یہ سندھ کا نظریہ ہے کہ یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ ان کو باتیں کرنے دو، مگر جتنا جلدی وہ اس خیال سے نکل آئیں تو بہتر ہے۔ ہمیں اک بھرپور انصاف پسند وفاقی پاکستان چاہیے اور یہی ہم سب کے مفاد میں بہتر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچ جمہوری قوتیں لوگوں کے پاس جائیں اور ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
یہ مزدور جو مارے گئے یہ پنجابی تھے۔ ان میں سے کچھ گجرات، کچھ گوجرانوالا، سیالکوٹ اور منڈی بہاؤالدین کے تھے۔ اس سے پہلے اس طرح کا بڑا واقعہ گوادر میں پیش آیا۔ وہ سارے مزدور میرے گاؤں کے لاکھو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ لاکھو مزدور، بلوچ قوم پرست کے اس فرقے کی سوچ کے مطابق اس زمرے میں آئے ہیں کہ جو بھی باہر سے بلوچستان کمانے آئے گا وہ اس بات کا مرتکب ہے کہ وہ بلوچ مزدور کے پیٹ پر لات مارتا ہے، بلوچ قوم پرست کی سوچ کے مطابق باہر سے آنے والا اس بات کا بھی مرتکب ہوگا کہ وہ بلوچستان میں ترقی کے نام پر ہونے والوں کاموں میں بلوچ قوم کو بھی اقلیت میں تبدیل کرے گا۔
مگر یہ پنجابی مزدور تو صرف گزرگاہ کے بہانے یہاں پہنچے تھے، ان کا تو کوئی بھی بلوچ سیاست سے یا ان کی سوچ سے لینا دینا نہیں تھا۔ مگر گولی کی آنکھ کسے جانے۔ وہ تو صرف گزرنا جانتی ہے، آر پار ہونا اسے مقصود ہوتا ہے اور دوسرے دن خبر بن جاتی ہے کہ دیکھو بلوچ مزاحمت کررہے ہیں۔
وہ جو مارے گئے وہ پنجابی نہ تھے، جو کل لاکھو قبیلے کے مزدور مارے گئے وہ بھی سندھی نہ تھے، وہ سرائیکی یا کوئی اور قوم نہ تھے، وہ بس مزدور تھے۔ اپنے جسم کو ایندھن بنا کر، پگھلا کر بچوں کے لیے روٹی کمانے نکلے تھے، اور جو گولی ان میں پیوست ہوئی، جس نے اس رائفل کا ٹریگر دبایا، وہ بھی بلوچ نہ تھے۔ ہاں ان دونوں کی زبانیں، تاریخ اور ثقافت تو یکتا ہوسکتی ہے، مگر معاشی حالت نہیں۔ ان کے پیٹ میں پلتی بھوک کی آگ نہیں۔ بہت سستے بکتے ہیں یہ، یورپ کے بازاروں میں، یہاں کے مزدور کی جو یہاں قیمت ہے اس سے قدراً زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے پیچھے کوئی ایجنٹ ہوگا۔
اس سارے مظہر کو Human Trafficking کہا جاتا ہے۔ انسانوں کی اسمگلنگ۔ یہ نہ جاتے تو ان کے گردے جاتے۔ آج کے بازاروں میں کیا کچھ نہیں بکتا۔ وہ جنھوں نے رائفل کا ٹریگر دبایا ان پنجابی مزدوروں کو مارا یا جنھوں نے کل لاکھو مزدوروں کو مارا تھا، وہ سب کیا تھا۔ ایسا ہوجاتا ہے کہ خود اپنا بیانیہ ڈسنے لگتا ہے۔ تبھی تو شاعر نے کہا
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
وہ جس نے بلوچ مفادات کا تحفظ کرنے کے نام پر گولی چلائی، اسے پتا بھی نہیں کہ اس نے بلوچوں کا کتنا نقصان کروا دیا۔ آزادی کی تحریکیں اس طرح نہیں لڑی جاتی کہ نہتے مزدوروں اور شہریوں کو مار ڈالو، بچوں اور عورتوں کو یتیم اور بیوہ بنادو۔ ہمیں پتا بھی نہیں چلتا ہم مہرے بن جاتے ہیں۔ Proxy جنگوں کی دنیا، ایک ایسی دنیا ہے جو آپ کے بیانیہ سے کسی اور کو نہیں، خود اپنے آپ کو ڈسنے لگتی ہے۔ کون کہتا ہے کہ بلوچوں کے ساتھ زیادتیاں نہیں ہوئی ہیں۔ وہ اس فہرست میں سب سے آگے ہیں۔
مگر زیادتیاں تو پختونوں کے ساتھ بھی کم نہیں ہوئیں، سندھی بھی اس فہرست میں آتے ہیں، اور جو ان چار قوموں سے بھی پیچھے ہیں، اپنا تشخص اس پاکستان میں منوانے کے لیے، جس طرح سرائیکی یا کراچی میں مہاجر ہیں یا ہندکو ہیں۔ اس مملکت خداداد میں مجموعی طور پر جو اقلیتیں ہیں، ان پر کیا بیتی ہے۔ پاکستان دنیا میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سب سے پسماندہ ہے۔ جس طرح سے عورتوں کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں، یا بچوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں اور جو مجموعی جمہوری قوتیں ہیں، ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ اور خود مجموعی قوتیں اپنی ماہیت میں کتنی کمزور اور مجبور ہیں، خان اور چوہدری، سرداروں کے لوگ اب بھی انھی کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ جس پارٹی میں جائیں وہ پارٹی آگے آگے۔ آمریتوں کے ساتھ بھی یہی اشرافیہ ہوتے ہیں، جن سے آمریتیں اقتدار کا اچھا وقت گزار لیتی ہیں۔
جمہوری قوتوں نے بھی کیا کیا۔ سندھ میں ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ یرقان کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اتنا فنڈ NFC سے آیا، لوگوں تک نہیں پہنچا۔ سندھ کے 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
کراچی کے اندر جو بیانیہ الطاف حسین نے دیا اس کا کیا ہوا؟ کبھی مہاجر قوم کو اس سے لڑایا، کبھی اس سے۔ اور ایک دن مہاجر قوم کو تنہا کھڑا کردیا۔
اور جو ہماری مقتدرہ کی سوچ ہے، اس کا کیا عمل ہے؟ کبھی مذہبی پارٹیاں بنوائیں۔ افغان جہاد میں امریکا کے مہرے بن کر استعمال ہوتے رہے۔
کسی پنجابی یا سندھی مزدور کو مارنے سے بلوچ قوم آزاد نہیں ہوگی۔ ایسا کام کرنے سے خود بلوچ قوم کے حقوق کی تحریک کمزور ہوگی۔
مان لیجیے نہیں ملتی آزادی اور کیا کریں گے آزادی، اس لیے کہ ایران کے اندر جو بلوچ ہیں وہ اگر ایران کے مرکز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو کیا ایران ان کو چھوڑ دے گا؟ ہندوستان کو کشمیر ہتھیانا ہے، اس کے لیے رکاوٹ پاکستان ہے۔
یہاں علیحدگی پسند تحریکوں کو کھڑے کھڑے خریدے گا، مگر چلائے گا ان کو اپنے ایجنڈے پر۔ ہندوستان آج کل افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے اور مذہبی انتہاپرستی کے ذریعے وہ یہ کام سرانجام دینا چاہتا ہے۔ کیا یہ بلوچ قوم کے لیے باعث تشویش نہیں کہ وہاں ان کے نام پر علیحدگی کی تحریک لڑنے والے، مذہبی انتہاپرستوں کے ساتھ جڑ کر انتشار پھیلا رہے ہیں۔ کس نے کہا دنیا میں نقشے نہیں ٹوٹتے۔ وہ ٹوٹتے ہیں مگر جب دنیا کی سطح پر کوئی جنگ ہو۔ دنیا کا نقشہ پہلی جنگ عظیم میں تبدیل ہوا، پھر دوسری جنگ عظیم میں، اس کے بعد کچھ مخصوص حالات میں کہیں کہیں نقشے بگڑے۔ ہمارا جو بھی ہے یہ پاکستان ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کی جدوجہد کرنی ہے۔
اس ملک میں جتنا دوسروں کو اپنے اندر سمانے کا کام سندھ نے کیا وہ کسی نے بھی نہیں کیا۔ آزادی سے دو سو سال پہلے بلوچ قوم ہجرت کرکے آئی۔ سندھ نے انھیں اپنا حصہ بنایا۔ بلوچ تو سندھ کے بادشاہ بھی بنے، وہ اب بھی مکمل طور پر سندھی نہ بن سکے لیکن سندھ کے ساتھ مجموعی طور پر جڑے رہے۔
میرے گاؤں میں Settler Punjabi آئے، انھوں نے بہت سال تک سندھ کے ساتھ ایک آواز بن کر، جڑ کر سیاست نہیں کی، لیکن ان کو اتنی اچھی طرح سندھی آتی ہے اور وہ بہت گھل مل بھی گئے۔ پھر 1997 کے بعد یوپی، دلی، گجرات، راجستھان سے بہت زیادہ ہجرتیں ہوئیں۔ وہ اب بھی مجموعی سندھ کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کے سیاستدان ان کو سندھ کے دو ٹکڑے کرنے کے خواب دکھاتے ہیں۔ لیکن یہ سندھ کا نظریہ ہے کہ یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ ان کو باتیں کرنے دو، مگر جتنا جلدی وہ اس خیال سے نکل آئیں تو بہتر ہے۔ ہمیں اک بھرپور انصاف پسند وفاقی پاکستان چاہیے اور یہی ہم سب کے مفاد میں بہتر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچ جمہوری قوتیں لوگوں کے پاس جائیں اور ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔