ہوشیار خبردار آگے بھنور ہے

آئیں مل کرکھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماجرہ آخر کیا ہے۔

جس طرح ضرورت سے زیادہ سمجھدار حلقوں میں آج تک یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ عقل بڑی ہے یا بھینس، اسی طر ح آج تک یہ بھی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے کہ پہلے انسان پیدا کیا گیا یا عقل پہلے پیدا کی گئی۔ ان کے بارے میں اس قدر دلائل دیے جارہے ہیں کہ یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا ہے کہ کن دلائل کو سچا مانا جائے۔

بالکل اسی طرح آج تک یہ بھی طے نہیں ہوپا رہا ہے کہ ہمارے حکمران سمجھدار اوردور اندیش ہیں یا عقل سے بالکل کورے ہیں یا پھر اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور و بے بس ہیں۔ ان کا اپنے بارے میں نظریہ الگ ہے لیکن ان کی باتیں اور ان کے اقدامات وعمل مختلف نظریے کی کہانی سناتے ہیں۔ اسی لیے تو بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ زندگی کے بہت سے معاملے اس قدر ٹیڑھے اور پیچید ہ ہوتے ہیں کہ آپ ان پر اپنی عقل کے لاکھ گھوڑے دوڑا لیں لیکن آخر میں آپ کے ہاتھ صرف سفر کی خاک ہی لگے گی۔

اس لیے ان کے متعلق جتنا کم از کم سوچا جائے اتنا آپ کی صحت کے لیے اچھا ہے کیونکہ ان کے متعلق آپ جتنا سوچیں گے یا کھوج لگائیں گے تو صرف دیوانگی کے علاوہ آپ کے ہاتھ اور کچھ نہیں آئے گا لیکن اگر آپ نے دیوانہ ہی بننے کی ٹھان لی ہے تو پھر آپ ان کے متعلق خوب سوچیں خوب خوب خوب سوچیں اور دوسری طرف ہم آپ کے لیے یہ سوچتے ہیں کہ آپ کے لیے کونسا ذہنی اسپتال علاج کے لیے مناسب رہے گا چونکہ معاملہ ہمارے اپنے حکمرانوں کے بارے میں ہے اس لیے اس معاملے سے نہ تو لاتعلق رہا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں آنکھیں اور کان بند کیے جاسکتے ہیں۔

آئیں مل کرکھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماجرہ آخر کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسپتال ہی تو ہمارے نصیب میں آئے گا لیکن اگر کامیاب ہوگئے تو ہوسکتا ہے کہ بیس کروڑ لوگوں کو ذہنی سکون حاصل ہوجائے۔ اس لیے آئیں اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتے ہیں اگر ہم اپنے حکمرانوں کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر بڑی ہی آسانی کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں کہ وہ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبورو بے بس ہیں ورنہ لگاتار ایک ہی جیسے اقدامات اور اعمال ناممکن ہوتے ہیں اس لیے کہ ہر قدم اور عمل آپ کا استاد ہوتا ہے جس سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں اور نیا سبق حاصل کرتے ہیں لیکن دوسری طرف اگر آپ کی عادات آپ کا استاد بن جاتی ہیں تو پھر آپ کا ہر قدم اور عمل ایک ہی جیسے رہتے ہیں اور ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی ناممکن ہوتی ہے۔


بیچر کہتا ہے ''دریائے مسی سی پی کے دہانے پر پانی کا روکنا اور جو چھوٹے چھوٹے ندی نالے مثلاً دریائے سرخ ، ارکان ساس، ادہا بوسوری اس میں مل چکے ہیں ان کے پانی کو جداجدا کرنا یا کو ہستان ایلگھی راکی وغیرہ سے جو ریت مٹی اس میں مل چکی ہے اس کا دانہ دانہ جدا کرنا کتنا ناممکن ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر کیریکٹر دریا ہو اورعادات اس میں ملنے والی ندیاں ہوں تو ا ن عادات کا علیحدہ علیحدہ کرنا کتنا ناممکن ہے '' تیس سال کی عمر کے بعد کسی بھی انسان کی عادات کو بدلنا بالکل اسی طرح سے ہوتا ہے جیسے کسی مرد ے کو زندہ کرنا۔کیونکہ تیس سال کی عمرکے بعد عادات انسان کی فطرت بن جاتی ہیں اور فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتی ہے ۔

ایک نوجوان ماں نے ایک فاضل طبیب سے پوچھا '' حکیم صاحب میں اپنے بچے کی تعلیم وتربیت کب شروع کروں۔'' طبیب نے دریافت کیا کہ '' بچہ کتنی عمرکا ہے '' ماں بولی۔'' بچہ دو سال کا ہے'' اس پر حکیم سنجیدگی سے بولے ''تب تو تم نے ٹھیک دو سال ضایع کردیے ۔آلو رونیڈل ہالمیز سے بھی کسی نے ایساہی سوال کیا تھا تو اس نے جواب دیا تھا کہ بچے کی تربیت اس کی نانی سے شروع ہوجانی چاہیے۔ اپنی عادات سے مجبور ہوکر افراد کیا کرتے ہیں اس کو جان بی گف بڑی ہی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں '' اپنی کشتی دریائے نیاگرا میں آکر تم چلاؤ تو پانی کی سطح صاف چمکدار اور خوبصورت معلوم دیتی ہے تمہاری کشتی مزے سے دھارے کے ساتھ ساتھ بہتی چلی جاتی ہے اچانک کنارے پر سے کوئی شخص تم کو کشتی میں دیکھ کر للکار اٹھتا ہے '' کشتی والو ہوشیار رہنا '' تم دریافت کرتے ہو '' کیا بات ہے '' جواب ملتاہے ''آگے بھنور آئے گا ہوشیار ''تم یہ جواب سن کر ہنس پڑتے ہو ۔

ہم نے بھنور کا حال سنا ہے لیکن ہم ایسے بے وقوف نہیں کہ بھنور میں آجائیں جب دیکھیں گے کہ کشتی تیز تیز جارہی ہے ہم پتوار اور چپو لگا کرکنارے کی جانب ہولیں گے ۔ جوانو ،زور لگاؤ ڈرو نہیں کوئی خطرہ نہیں ہے '' پھر آواز آتی ہے '' کشتی والو ہوشیار '' ''کیا ہے '' ''تمہارے آگے بھنور ہے '' '' بھلا بھلا سن لیا آگے کیا فکر ہے مستقبل کو کسی نے دیکھا ہی نہیں جو ہوگا دیکھا جائے گا جو ہورہا ہے دیکھ رہے ہیں۔ کشتی کی سیرکا لطف کیوں ضایع کریں جو خوشی مل رہی ہے اس سے کیوں نہ مزے اڑائیں اگر خطرہ آگے کا تو اس سے بچ نکلنے کے لیے بہتیرا وقت ہے۔

''پھر آواز آتی ہے '' کشتی والو ۔ ہوشیار ۔ خبردار '' بھنور کے پاس پہنچ گئے ہوشیار ہوشیار '' اب چارو ں طرف پانی کے جھاگ ہی جھاگ دکھائی دیتے ہیں کشتی تیز تیز چلتی جاتی ہے جھاگوں پر سے بڑی تیزی کے ساتھ گزر گئی ایلو اٹھاؤ چپوکشتی کو موڑو لگاؤ زور جان کی خیر چاہتے ہو تو جتنا زور ہے لگادو۔ زور لگ رہا ہے نتھنوں سے خون رواں ہے ۔ پیشانی کی نسیں پھول کر رسے بن گئی ہیں مستول کھڑا کرو بادبان اٹھاؤ ۔ ہائے ۔ وقت گزرچکا ہے آہ و پکار۔ قسمت کوگالیاں ، خدا کی قسم ، یہ جا وہ جا کشتی کا پتا نہیں،کشتی والوں کا نام و نشان نہیں، ہزاروں اشخاص سال بہ سال بھنورکا شکار ہوتے ہیں عادت کے زور سے بہاؤ میں چلے جاتے ہیں آواز بھی آتی رہتی ہے ۔ اب ہم یقینا اس سچائی کے قریب قریب پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے حکمران اپنی عادات کے ہاتھوں ہی مجبور و بے بس ہیں اس نتیجے پر پہنچنے پر ہم سب داد کے قابل ہیں کیونکہ یہ کارنامہ ہمارے ہی ہاتھوں سر انجام پایا ہے اس لیے آئیں آرام ، سکون اور چین سے آنے والے مناظرکو ملاحظہ کرتے ہیں۔
Load Next Story