کوئی ہے جو سن رہا ہو
تاریخ کا علم رکھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ کئی اقوام اور شخصیات ایسی ہیں جن کی تاریخ ’’چکری‘‘ ہے
گھڑی میں دس بج کر چالیس منٹ ہورہے تھے۔ سپریم کورٹ کا کمرہ بھرا ہوا تھا۔ خواجہ آصف اپنی کرسی سے اٹھتے ہیں اور نواز شریف کے وکیل ایس ایم ظفر کے پاس جاتے ہیں۔ ان کے کان میں کہتے ہیں کہ وہ جج صاحب سے درخواست کریں کہ انھیں عدالت سے جانے دیں اور اگر ہوسکے تو انھیں آج کی سماعت سے غیر حاضری کی بھی اجازت دے دیں۔ خواجہ آصف بہت جلدی میں تھے، انھوں نے تیزی سے کہا کہ انھیں اسلام آباد سے باہر ایک ضروری میٹنگ میں جانا ہے۔ نوازشریف کے وکیل نے ان سے کہا کہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ اپنے وکیل سے کہیں کہ وہ جج سے درخواست کرے۔
خواجہ آصف فوراً اپنے وکیل راجہ محمد اکرم کی طرف گئے۔ ایس ایم ظفر نے روسٹرم راجہ محمد اکرم کے حوالے کیا۔ راجہ صاحب نے خواجہ آصف کی درخواست جج کے سامنے رکھی۔ جج نے فوراً اجازت دے دی۔ خواجہ آصف تیزی کے ساتھ سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر 1 سے نکلے۔ ابھی انھیں گئے ہوئے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ ایک رپورٹر نے جذباتی ہو کر کہا ''مائی لارڈ، کورٹ پر حملہ ہوگیا ہے''۔ ابھی وہ کہہ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک شخص گھبرایا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور چلا کر کہنے لگا کہ چیف جسٹس کو حفاظت میں لے لیا جائے باہر لوگ ان کو پکڑنے کے لیے آرہے ہیں۔ اور فوراً ہی سارے جج اٹھ کر اپنے کمروں میں جانے لگے۔ اس دن کو پاکستان کی تاریخ میں 28 نومبر 1997 کہا جاتا ہے۔
تاریخ کا علم رکھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ کئی اقوام اور شخصیات ایسی ہیں جن کی تاریخ ''چکری'' ہے، یعنی یوں سمجھ لیجیے کہ وہ ایک ہی چکر میں گھومتے رہتے ہیں۔ 20 سال پہلے نومبر کا ہی مہینہ تھا۔ عدالت اور نواز شریف کی حکومت کے درمیان شدید تناؤ تھا۔ 17 نومبر کو عدالت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے۔ پروٹوکول اسی طرح لگا ہوا تھا جس طرح آج کل لگا ہوا ہے۔ دونوں جانب سے عدالت کے اندر اور باہر کی خبریں سرخیوں میں آرہی تھیں۔ رش کی وجہ سے خصوصی کارڈ جاری کیے گئے تھے۔
عدالت کا کمرہ، وقت شروع ہونے سے پہلے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ عدالت کا وقت 9 بجے کا تھا۔ بطور وزیراعظم نواز شریف کو ملزم کی حیثیت سے عدالت نے طلب کیا تھا۔ نواز شریف پر الزام تھا کہ انھوں نے عدالت کی توہین کی ہے۔ 9 بج کر 25 منٹ پر نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔
صحافیوں، وکلا اور مسلم لیگ کے کارکنان کے ساتھ عدالت میں سب لوگ جج صاحبان کا انتظار کررہے تھے۔ دس منٹ کے بعد جج صاحبان عدالت میںد اخل ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کے آتے ہی ہر جانب خاموشی ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد نواز شریف کے وکیل نے تحریری بیان پڑھنا شروع کیا۔ بحث اور دلیل کا سلسلہ شروع ہوچکا۔ تمام لوگ کسی بریکنگ کا انتظار کررہے تھے۔ ایک دن پہلے سے سب کے ذہن میں یہ بات آچکی تھی کہ آج ''آر یا پار'' ہوجائے گا۔ لیکن بحث جتنی لمبی ہورہی تھی، ''تڑکا'' لگانے والوں کی امید پر پانی پھر رہا تھا۔ لمبے دلائل کے بعد سماعت اگلے دن کے لیے ملتوی ہوگئی۔
''مصالحہ'' ملا نہیں ''تڑکا'' لگا نہیں، اس لیے اگلے دن کا ''چورن'' تیار نہیں ہوسکا۔ اب سوچتے اس بات کو ہیں کہ آخری کارروائی سے پہلے ہی لوگوں کو یہ امید کیوں ہوگئی تھی کہ آج بہت تیکھا دن ہوگا۔ تھوڑی سی مدد لیتے ہیں ان کھلاڑیوں سے جو اس دن معرکے میں آگے آگے تھے۔
17 نومبر 1997 کو پیر کا دن تھا۔ اس سے ایک دن قبل اتوار کو نوازشریف کے ہمراہ دو طرح کے لوگ تھے، ایک وہ تھے جو یہ کہتے تھے کہ ہمیں عدالت کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے اور کسی بھی صورت میں معافی نہیں مانگنی چاہیے، ہمیں عدالت کو سبق سکھانا چاہیے۔ جب کہ دوسرا گروپ وہ تھا کہ ہر محاذ کو نہ کھولا جائے، اور عدالت سے معافی مانگ کر معاملہ ٹھیک کرلیا جائے۔ پہلا گروپ یہ کہتا تھا کہ عدالت کو اس کے اندر سے ہی ڈرا دیا جائے اور باہر سخت مظاہرے کیے جائیں اور جج کے سامنے بھی ڈٹا جائے۔ تاریخ میں یہ لکھا ہے کہ یہ گروپ کامیاب رہا۔ جج کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے یا کیے گئے، مظاہرے بھی ہوئے، مگر میں بات کر رہا ہوں اس تیکھے پن کی جو نہ ہوسکا۔
ایک روز پہلے سب یہ بات جانتے تھے کہ ایک بہت اہم امریکی وفد پاکستان آرہا ہے، مگر اس کے باوجود پوری سرکاری مشینری بشمول وزیراعظم نواز شریف، اس بات پر غور کررہے تھے کہ کل عدالت میں پیشی سے پہلے کیا حکمت عملی رکھی جائے۔ ایک گروپ یہ کہہ رہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ کل جج صاحبان آپ کو نااہل قرار دے دیں، اس لیے آج ہی قوم سے خطاب کرلیں۔ دوسرا یہ کہہ رہا تھا کہ اس صورت میں پھر توہین ہوسکتی ہے اور عدالت جلدی ہی فیصلہ دے دی گی۔ اس وقت صدر فاروق لغاری تھے، جو اپنی پیپلزپارٹی سے غداری کرچکے تھے، اختیارات ان کے ہاتھوں سے لے لیے گئے تھے۔ باقی رہ گئے اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف، تو اس حوالے سے تین کتابوں میں ایک جیسی بات لکھی ہے۔
میں ایس ایم ظفر کی کتاب سے آپ کو بتاتا ہوں، وہ لکھتے ہیں کہ جنرل جہانگیر کرامت ترکی کے دورے پر تھے، جب انھیں صورتحال کی کشیدگی کا بتایا گیا تو وہ اپنا دورہ مختصر کرکے 19 نومبر کو واپس آگئے۔ اس وقت کے اخبارات میں تضاد ہے۔ کچھ نے لکھا کہ انھیں درخواست کرکے بلایا گیا۔ ایک اخبار نے لکھا کہ وہ خود آئے۔ بہرحال ان کے آتے ہی پہلی ملاقات نوازشریف نے کی۔
ایک اخبار نے لکھا کہ ''ایمپائر'' آگئے۔ بقول ایس ایم ظفر انھیں نوازشریف نے بتایا کہ چیف آف آرمی اس معاملے میں غیر جانبدار رہیں گے۔ اسی لیے حکومت کی عدالت کے اندر اور باہر دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی تیز ہوگئی۔ 28 نومبر کو اسی لیے حملہ ہوا، اور ججز کا تقسیم ہونا بھی اسی فارمولے کا نتیجہ تھا۔ آج کل سوال بھی یہی ہے کہ اس سارے معاملے میں کیا آج ''ایمپائر'' غیر جانبدار ہوگا؟
جب تناؤ میں شدت آگئی تو ایس ایم ظفر نے بھی لکھا، جسٹس سجاد نے بھی لکھا کہ 2 دسمبر کی صبح جنرل جہانگیر کرامت نے فاروق لغاری اور جسٹس سجاد علی شاہ سے ملاقات کرکے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔ بقول سجاد علی شاہ کہ ایمپائر نے نوازشریف کے حق میں فیصلہ دیا۔ آج کا معاملہ الجھن کا شکار ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق آج ایک کنفیوژن ہے کہ ''ایمپائر'' کس کے ساتھ ہے۔
میں یہ سب نہیں لکھنا چاہ رہا تھا لیکن میں جو بات کہنا چاہ رہا تھا وہ یہ کہ ''تڑکا'' کیوں نہیں لگ رہا، اور ہر روز لوگوں کو مصالحہ کا انتظار کیوں ہے۔ 17 نومبر 1997 کو یعنی پورے بیس سال پہلے سب لوگ کمرہ عدالت میں اس بات کا انتظار کیوں کررہے تھے کہ آج کشتی ایک طرف ہوجائے گی۔ اس کو سمجھنے کے لیے پھر وہاں چلتے ہیں۔ وکلا اپنے دلائل کی تیاری کررہے تھے۔
دوسری طرف حکومت نے سندھ کارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔ انھوں نے غوث علی شاہ کو جسٹس سجاد علی شاہ کے پاس بھیجا۔ ملاقات کے فوراً بعد وہ جن لوگوں سے ملے انھیں یہ بتایا کہ جج بہت غصے میں ہیں، اور کل نوازشریف عدالت گئے تو وہ سخت فیصلہ دیں گے۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس دن سرتاج عزیز اور کئی نامور صحافی بھی ملاقات کا شرف لے کر آئے ہیں۔ اس لیے اسلام آباد میں اتوار کو یہ بات پھیل چکی تھی کہ معاملہ گرم ہے، اور اگلے دن یعنی 17 تاریخ کو فل مصالحہ ملے گا۔
صورتحال کئی حوالوں سے ایک جیسی ہے۔ کچھ لوگوں کو براہ راست رسائی حاصل ہے۔ خبریں کہیں نہ کہیں سے ''لیک'' کی جارہی ہیں۔ اور یہ کہا جارہا ہے کہ آج مصالحہ ملے گا۔ پھر نومبر کا مہینہ ہے، پھر وہی ''تڑکے'' کی تلاش ہے، پھر وہی سازش ہے، پھر وہی ایمپائر ہے۔ میں گھوم کر آج پھر وہیں کھڑا ہوں۔ کوئی ہے؟ کوئی ہے؟ جو سن رہا ہو۔ جو مجھے اس چکر سے نکالے۔ کیا میں 20 سال بعد بھی یہی لکھوں گا؟