سچّا علم
ایک پیراک جب تک خود کو، اپنے پورے بدن کو، اپنے حواسوں کی، اپنی سوچ کو پوری طرح پانی کی لہروں کے سُپرد کرنا نہیں سیکھتا
کچھ لوگ تمام عُمر سیکھتے رہتے ہیں اور بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ فوٹو : فائل
کنارے پر کھڑے رہ کر ہم کبھی بھی پانی کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
جھیل ہو یا نہر، دریا ہو یا سمندر۔ پانی میں اُترے بِنا کِسی بھی قِسم کی قیاس آرائی کو ذی ہوش نہیں کرسکتا۔ لیکن ہر ذی ہوش پانی میں اُتر بھی نہیں سکتا کہ اُس کے لیے پہلی شرط پانی میں تیرنے پر عبور رکھنا ہوتا ہے۔ اور پھر گہرے پانیوں میں اُترنے کے لیے غوطہ خوری اور پیراکی میں مہارت ضروری ہوتی ہے۔
غوطہ خوری اور پیراکی میں مہارت کی بات ہو یا دُنیا کے کِسی بھی کام میں Excellence حاصل کرنی ہو۔ مستقل مشق اور ریاضت کے بِنا نہ مہارت حاصل ہوپاتی ہے۔ نہ Excellence اور نہ کِسی کام میں Command مِل پاتی ہے۔ اُستاد کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ایک لمبی عُمر تک شاگرد بنے رہنا ہوتا ہے۔ Head down کرکے دِن رات خون پسینہ ایک کرنا ہوتا ہے۔ Master بننے کے لیے Serve کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اور اِن سب کے لیے وقت اور توانائی کے ساتھ اپنی انا کی قربانی دینا اور اپنی ''مے '' کو Surrender کرنا ضروری ہے۔
ایک پیراک جب تک خود کو، اپنے پورے بدن کو، اپنے حواسوں کی، اپنی سوچ کو پوری طرح پانی کی لہروں کے سُپرد کرنا نہیں سیکھتا۔ پانی کی سطح پر خود کو ڈھیلا چھوڑنا نہیں سیکھتا۔ اُس وقت تک وہ غوطہ خوری اور پیراکی کا بنیادی سبق نہیں سیکھ پاتا۔ ڈوبنے سے بچاؤ سیکھنے کے لیے پہلے ڈوبنا پڑتا ہے۔ پانی کے اندر جاتے ہی جونہی سانس رُکتی ہے۔ اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے پورے کا پورا وجود 440 وولٹ کے کرنٹ کا جھٹکا لینے لگتا ہے۔ وہ ایک لَمحہ Decisive ہوتا ہے۔ فیصلہ کُن ہوتا ہے۔ اُس ایک لَمحے تعین ہوجاتا ہے۔ کون پیراکی سیکھ پائے گا اور کون ڈوب جائے گا اور کون پیراکی سیکھنے سے ہی بھاگ جائے گا۔
پیراکی ہو یا دُنیا کا کوئی اور کام ہر شخص ہر کام کا ماہر نہیں ہوسکتا۔ ماہر نہیں بن سکتا۔ اور ہر کام کا ماہر ترین فرد بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُس کام میں اُس سے زیادہ کوئی اور ماہر نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی کوئی ماہر یہ کہہ سکتا ہے کہ اُس نے کِسی اُستاد، کِسی گُرو، کِسی Teacher کی تربیت اور راہنمائی کے بِنا اپنے کام میں مہارت کی منزلیں طے کی ہیں۔
ہر اُستاد کا بھی اُستاد ہوتا ہے۔ ماسوائے پیغمبروں کے۔ اُستادوں کے اُستادوں نے بھی اپنے اپنے فن، اپنے اپنے عِلم، اپنے اپنے کاموں میں نام کمانے سے پہلے کِسی نہ کِسی کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوتے ہیں۔ اور جو کبھی ایسا نہیں ہوپا تا اور عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ ہوتا ہے تو پھر وقت سب سے بڑا اُستاد قرار پاتا ہے، جو اُستادوں سے نہیں سیکھ پاتے۔ اُنہیں حالات کے نشیب ور فراز اور وقت کے بدلتے موسم اور لوگوں کے مزاج و رویّوں کے مدّوجزر بہت کچھ سِکھادیتے ہیں۔
کچھ لوگ تمام عُمر سیکھتے رہتے ہیں اور بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ کچھ لوگ تمام عُمر بہت کچھ سیکھنے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن کچھ بھی سیکھ نہیں پاتے۔ کچھ لوگ تمام عُمر کچھ بھی سیکھنا نہیں چاہتے۔ نہ کِسی اُستاد سے۔ نہ اُستادوں کے اُستاد سے۔ حد تو یہ ہے کہ وقت بِھی اُنہیں کچھ نہیں سِکھا پاتا۔ اُن کی ضِد کو توڑ نہیں پاتا۔ اُن کی تمام عُمر ایک ہی ڈگر پر گزر جاتی ہے۔ ایک ہی سوئی کے کانٹے میں اُن کی زندگی پھنسی رہتی ہے۔ اپنی زندگی کے ساتھ تو پھر جو ہوتا ہے سو ہوتا ہے۔ ایسے خودسر اور چنگجو لوگوں کے ساتھ رہنے والوں کی زندگیاں بھی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ریگستانوں اور بیابانوں میں بدل جاتی ہیں۔
جو لوگ سیکھنا چاہتے ہیں اور سیکھتے ہیں۔ اور سیکھنے کی سعی میں رہتے ہیں۔ وہ سیکھنے کے عمل میں جب کبھی ایسے لوگوں سے واسطے میں پڑتے ہیں جو اپنے تئیں سب کچھ سیکھے ہوتے ہیں تو جلد ہی اُنہیں ایسے لوگوں کے عِلم کا عِلم ہوجاتا ہے اور وہ جلد ہی اُن سے رخصت لے لیتے ہیں۔ جلد ہی اُن سے رخصت لے لینا چاہیے۔ بصورت دیگر وہ بھی اُن کی طرح اُن کے دائرے میں جم جاتے ہیں۔ اُن کے بھی رُک جانے اور جم جانے کا ڈر ہوتا ہے۔
اور ڈر وہ شے ہے جو ہمیں بھی سیکھنے نہیں دیتا۔ خواہ ہمارے سامنے استادوں کے اُستاد کیوں نہ ہوں۔ ہم بظاہر بہت کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے اندر، ڈر کے بونے چھلانگیں لگا رہے ہوں تو ہمارا عِلم برف کی طرح پگھلتا رہتا ہے۔ ہمارے اندر نہیں اُتر پاتا۔ اِسی طرح اگر ہمارے اندر شکوک و شُبہات کے جالوں کے جال بِچھے ہوں، تب بھی کِسی قِسم کا عِلم، ہمارے اندر ٹھہر نہیں پاتا۔ سوچ کی مکڑیاں اُسے کھا پی کے برابر کرتی ہیں۔ اور ہم ہر بات کو Reject کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور اِس حد تک اِس پریکٹس کے عادی ہوجاتے ہیں کہ ہر وہ بات جو سوال اُٹھاتی ہو اور جِس کا جواب ہم نہ دے پاتے ہوں، خواہ وہ ہمارے کتنے ہی کام کی کیوں نہ ہو۔ ہمارے لیے کتنا ہی فائدہ مند کیوں نہ ہو، وہ Auto Rejection کے میکینزم کے تحت ہمارے دائرے عِلم سے باہر نکلتی چلی جاتی ہے اور ہم آہستہ آہستہ خود کو بہت بڑا فلاسفر اور محقق اور دانشور سمجھنے لگتے ہیں کہ شک اور تنقید ہی تحقیق اور عِلم کا بنیادی راستہ ہے۔
جب کہ حقیقت اِ س کے برعکس ہے۔ ہوسکتا ہے شک، تنقید اور تحقیق سے دائرہ معلومات میں ضرور اضافہ ہوتا رہے اور ہوتا ہو لیکن وہ جو آسمانی عِلم ہوتا ہے۔ وہ جو آفاقی عِلم ہوتا ہے۔ وہ جو عملی عِلم ہوتا ہے۔ وہ جو قلبی و روحانی عِلم ہوتا ہے۔ وہ جو خالص نبیوں اور پیغمبروں والا عِلم ہوتا ہے۔ اُس کا ''عین (ع)'' بھی ہماری عقل کے ''عین (ع)'' میں نہیں سماپاتا۔ اور ہم اپنی ڈکشنری اور انسائیکلوپیڈیا اور لفظوں کے ذخیرے اور پڑھی ہوئی لاکھوں باتوں اور نظریوں کے مجموعے کو کُل عِلم سمجھ اور مان کر، کالر اکڑا کر چلتے رہتے ہیں۔ چلتے چلے جاتے ہیں۔ تاوقتے کہ ہمارے سامنے پھر کِسی مسئلے کِسی سوال کی دیوار نہ آجائے۔
ایسے میں پھر ہم اپنے وجدان، اپنے خوابوں، اپنے خیالوں، کی مدد لینے کی بجائے دھڑا دھڑ پڑھی ان پڑھی کتابوں کے ورق اُلٹنے پلٹنے لگتے ہیں۔ اپنے کتابی عِلم کے خزانے سے ہیرے موتی نکال کر بھاؤ تاؤ کرنے لگتے ہیں اور مسئلوں کے حل اور سوالوں کے جواب ڈھونڈنے لگتے ہیں۔
ایسا بار بار ہوتا ہے۔ بار بار ہمارا سیکھا ہوا، پڑھا ہوا کتابی عِلم ہماری زندگی کے مسئلوں اور سوالوں کی دیواروں میں نقب لگا کر راستے بنانے میں صَرف ہوتا ہے اور ہماری زندگی کے سفر کو آگے بڑھانے میں ہمارا مددگار ہوتا ہے۔ لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ کِسی بھی طرح کا کتابی عِلم ہمیں پیراکی سیکھنے میں مدد دے دے یا گھڑسواری یا ہاکی یا فٹبال یا کرکٹ یا کوہ پیمائی میں ہمارا معاون ثابت ہو۔ کِتابی عِلم ہمیں کھانا پکانے کی ترکیبوں سے لے کر گھر بنانے اور گھر سجانے کے طریقوں تک تو ہمارا ساتھ دے سکتا ہے۔ لیکن ہمیں کب کیا سوچنا اور کب کیا اور کتنا محسوس کرنا ہے، کے انداز اور طورطریقے اور سلیقے نہیں سِکھا پاتا۔ نہیں سِکھا سکتا۔ کب کِسی سے کتنی محبّت کرنی ہے۔ کتنے سے کتنے ٹن کتنے من نفرت کرنی ہے۔ کتنے میٹر کتنے کلو میٹر تک آگے پیچھے ہو کر کِس سے کتنا بدلہ کتنا انتقام لینا ہے۔ حِساب برابر کرنا ہے ۔ یہ سب اور اِس طرح کا اور بہت کچھ براہِ راست کِسی کتاب میں نہیں لکھا۔ نہیں لِکھا جاسکتا۔ نہیں بتایا جاسکتا۔ نہیں سمجھایا جاسکتا۔
کتابی عِلم جذبہ، جذبات اور احساسات کو جنم نہیں دے پاتا۔ پروان نہیں چڑھا پاتا۔ یہ ہمارے خیالات کو تو لفظوں کا لباس پہنادیتا ہے۔ لیکن ہمارے خوابوں اور خیالوں میں جان نہیں پیدا کرسکتا۔ کتابی عِلم ہمارے ان گنت مسئلوں کو حل کرنے میں ہمارا معاون ثابت ہوتا ہے۔ ڈگریاں، نوکریاں، مرتبہ، جاہ وجلال، دولت، کاروبار۔ لیکن اِس کی مدد سے ہم اپنے جذباتی عِلم کے چشموں کا پانی پینے سے ہی مِلتا ہے۔ اور جذباتی عِلم کتابوں سے نہیں مِلتا۔ مضمونوں سے نہیں مِلتا۔ بڑی ڈگریوں، اونچے مکانوں، اعلیٰ نوکریوں سے نہیں ملتا۔
جذباتی عِلم ہمیں دس بائی دس کے کمرے میں دس گھنٹے گزارنے پر وہ سرشاری وہ خوشی دیتا ہے جو دو ہزار گز کے بنگلے میں 24 گھنٹے رہنے پر بھی نہیں مِلتی۔ جذباتی عِلم ہمیں کامیابی، کامرانی اور ترقی کی اُن اجنبی منزلوں سے آشنا کراتا ہے، جِن تک پہنچنے کے لیے بوئنگ 347 طیّارہ بھی ناکام رہتا ہے۔
جذباتی عِلم ہماری کایا پلٹتا ہے اور ہماری زندگی کو حقیقی روشنیوں سے منوّر کرتا ہے۔ جذباتی عِلم نبیوں اور ولیوں کی میراث ہوتا ہے اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے۔ بظاہر بڑے بڑے جاہل، اجڈ، گنوار، پھٹے کپڑوں میں ملبوس، ننگے پاؤں پِھرنے والے انگوٹھا چھاپ، درویش صفت لوگ جذباتی عِلم کا خزینہ سینوں میں چُھپائے، ہم سب کی نگاہوں سے اوجھل، ہم سب کے درمیان بڑی خاموشی سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ یہ درویش صفت اُستاد کوئی شور نہیں ڈالتے۔ کوئی ڈھول نہیں پیٹتے۔ اپنے عِلم کا کوئی ڈھنڈورا نہیں پیٹتے۔ اپنے آشیانے پر کوئی نیلی پیلی بتیاں نہیں لگاتے۔ کوئی سُرخ سفید جھنڈے نہیں لگاتے۔ اپنی اور اپنے عِلم کی کوئی مارکیٹنگ نہیں کرتے۔ مجمع جمع نہیں کرتے۔ ہجوم سے بھاگتے ہیں۔ بس خاموشی اور سکون سے ہر اُس طالب عِلم کی پیاس بجھاتے رہتے ہیں جو نہایت خاموشی اور سکون اور سچ پانے کی نیّت سے اُن کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اُن کو قطرہ قطرہ پیتا رہتا ہے۔
ایسے اُستاد اور ایسے طالب عِلم بہت مشکل سے پکڑائی دیتے ہیں۔ بہت مشکل سے مِلتے ہیں۔ بہت مشکل سے دِکھائی دیتے ہیں۔ ہوتے یہ ہم سب کے بیچ میں ہیں۔ رہتے یہ ہم سب کے بیچ میں ہیں۔ ہم جیسے ہوتے ہیں مگر ہم جیسے نہیں ہوتے۔ بظاہر ہم جیسے دِکھتے ہیں مگر چوںکہ ہم جیسے نہیں ہوتے تو اِس لیے ہمیں نظر نہیں آپاتے اور ہمیں اِس لیے بھی نظر نہیں آپاتے کہ ہم سرتا پیر کتابی عِلم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ڈوبے ہوتے ہیں۔ اور کتابی عِلم کبھی بھی جذباتی عِلم کو گلے نہیں لگا پاتا۔ یہ جذباتی عِلم کا ہی وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ ہر طرح کے کتابی اور اکتسابی عِلم کو جپھیاں ڈالتا رہتا ہے۔ کِسی عِلم کو رد نہیں کرتا۔ اور یہی جذباتی عِلم کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ کبھی بھی کِسی بھی طرح کے عِلم کی تحقیر نہیں کرتا۔
اور یہی جذباتی عِلم کے اُستاد کو پہچاننے کا طریقہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی کِسی طالب عِلم کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ ہر طالب کو اُس کی فرمائش اور خواہش اور اُس کے ظرف اور Capacity کے مطابق اُسے کچھ نہ کچھ عطا کرتا رہتا ہے اور صلے میں کچھ بھی طلب نہیں کرتا۔