سوچنے کا نہیں عمل کا وقت ہے

ملک میں ماحولیاتی مسائل اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں شعوروادراک کی صورتحال کتنی تشویشناک ہے


محمود عالم خالد November 19, 2017

''طویل المدت انڈیکس کے اعتبار سے دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ترین 10 ممالک بد ترین تباہ کاریوں کے حوالے سے اونچا درجہ رکھتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ملکوں کی ایک اور درجہ بندی ابھرکر سامنے آئی ہے جس میں فلپائن اور پاکستان جیسے ممالک مسلسل آفات کی زد میں رہتے ہیں جس کے باعث وہ طویل المدتی انڈیکس اور گزشتہ 6 برسوں کے سالانہ انڈیکس دونوں کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں شامل ہوچکے ہیں۔''

یہ الفاظ دنیا کے معتبر ادارے جرمن واچ کے ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے ہر سال عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے انعقاد سے قبل ''کلائمیٹ رسک انڈیکس'' جاری کرتا ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ اور شدید متاثرہ ملکوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے ۔ جرمنی کے شہر بون میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کوپ 23) کے موقعے پر جاری کی جانے والی رپورٹ ''کلائمیٹ رسک انڈیکس 2017'' میں پاکستان کو پچھلے 6 برسوں اور آنے والے برسوں میں موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

یہ صورتحال زیادہ بھیانک اس لیے بھی ہوجاتی ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے پاکستان پہلے 10 ملکوں میں شامل ہے جب کہ اوپر کی درجہ بندی میں رہنے والے ملکوں کی کل آبادی کو جمع کرلیا جائے تو بھی وہ آبادی پاکستان سے کم بنتی ہے۔

کیا یہ نئی رپورٹ ہمارے لیے بہت زیادہ تشویش کا باعث بنی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان کے ماحولیاتی ماہرین اور ماحول پر نظر رکھنے والے ادارے عرصہ دراز سے ہمیں متنبہ کرتے چلے آرہے ہیں، بقول ڈاکٹر پرویز امیر ''موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے لیے سزائے موت ہیں'' مملکت خداداد عرصہ دراز سے موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے چھوٹے بڑے المیوں کا سامنا کررہی ہے، ان میں بیشتر سانحے ایسے ہیں جو ملک کے دور دراز علاقوں میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور کہیں رپورٹ نہیں ہوتے اور جو میڈیا کی نظروں میں آجاتے ہیں وہ انتہائی معمولی جگہ بنا پاتے ہیں۔

ہم اس مسئلے پر جتنا غور کرلیں، جتنی چاہے بحث کرلیں نتیجہ یہی نکلے گا کہ حکومتی اشرافیہ سے لے کر نچلی سطح تک موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ کسی کے لیے اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ معاشرے کے ہر طبقہ فکر اور ہر سطح پر ان مسائل پر بات کرنا وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے اور تو اور وہ ملٹی نیشنل اور نیشنل این جی اوز جو ماحولیاتی مسائل پر اپنے کارنامے گنواتے نہیں تھکتیں وہ بھی ''فنڈڈ پروجیکٹ'' حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتی ہیں تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔ جیسا دیس ویسا بھیس۔

ماحولیات پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کی اہمیت اپنی جگہ، صورتحال مگر یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں اب ایک سماجی مسئلے کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔ کرئہ ارض اور اس پر رہائش پذیر انسانوں کی زندگی کا کونسا ایسا شعبہ ہے جو اس کے سنگین خطرات کی زد میں نہ ہو۔ یہی سبب ہے کہ گزشتہ 10 برسوں میں پوری دنیا میں ایک ایسی سول سوسائٹی وجود میں آئی جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔

آج دنیا بھر میں ماحولیاتی سول سوسائٹی ایک طرف حکومتی اشرافیہ پر دباؤ بنا رہی ہے، ماحولیات میں بگاڑ پیدا کرنے والے اداروں کی خبر لیتی تو دوسری طرف اپنے عوام میں موسمیاتی و ماحولیاتی شعور میں بھی اضافہ کررہی ہے۔ جن ملکوں میں ماحولیاتی سول سوسائٹی انتہائی متحرک اور فعال ہے وہاں ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ہزار مرتبہ سوچنا پڑتا ہے، ان کے حکومتی ادارے قوانین پر عمل درآمد کرانے پر مجبور ہوتے ہیں اور ان ملکوں کے عوام بھی ماحولیات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک ایسا ملک جو برسوں سے شدید موسمیاتی تغیرات کا شکار ہے جس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہاں نہ صرف ماحولیاتی قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں بلکہ حکومتی اشرافیہ سے لے کر ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے پاس یہ مسئلہ کسی ترجیح میں شامل ہی نہیں ہے۔ عوام ان مسائل سے بے خبر ہیں اور شعور و آگہی پیدا کرنے والی سول سوسائٹی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے، صرف ماحول کے تحفظ کے نام پر کاروبار ہورہا ہے۔

ایک نظر کرئہ ارض پر موجود اقوام پر ڈالیے واضح طور پر نظر آئے گا کہ جہاں جہاں قانون کی حکمرانی ہے وہاں ہر سطح پر ماحولیات کی بہتری کے لیے نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور اس پر عمل درآمد کروایا جارہا ہے اور عوامی سطح پر عمل کیا بھی جارہا ہے۔ لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں قانون کی حکمرانی کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے وہاں ماحولیات کے نام پر صرف کاروبار ہورہاہے۔

باقاعدہ ایک ایسا طبقہ وجود میں آچکا ہے جس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ماحولیات کا سودا اچھے طریقے سے بیچے اور کسی نہ کسی طریقے سے ملکی اور غیر ملکی امداد حاصل کی جائے۔ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ایک انتہائی نیک اور اچھے کام بھی لوگوں نے مالی منفعت کے امکانات تلاش کرلیے ہیں۔ جو کچھ آج نظر آرہا ہے وہ محض چند سالوں کا نتیجہ نہیں ہے، یہ داستان 70 برسوں کی ہے۔ ہم جمہوری ادارے مستحکم نہیں کرسکے، قانون و آئین کی حکمرانی قائم نہیں کر پائے، لہٰذا قدرتی ماحول کا تحفظ تو درکنار ہم نے اسے بالکل تباہ کر ڈالا۔ ان عوامل کے باعث ملک ترقی نہ کرسکا اور ایک کے بعد ایک بحران آتا رہا۔

ملک میں ماحولیاتی مسائل اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں شعوروادراک کی صورتحال کتنی تشویشناک ہے یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی بالکل ضرورت نہیں ہے صرف تھوڑا سا قیمتی وقت صرف کرنا ہوگا۔ آپ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی رائے جاننے کی کوشش کریں گے تو یہ المناک حقیقت آپ کے سامنے آئے گی کہ متعلقہ سرکاری محکمے، پالیسی ساز ادارے، انتظامیہ، ماحولیاتی ادارے، اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے وابستہ لوگ،کارپوریٹ سیکٹرکے اہم افراد، سیاسی رہنما، ادیب، دانشور اورصحافی اس حوالے سے انتہائی کم فہم و ادراک کے حامل ہیں۔

ملک کے بااثر خواندہ اور پالیسی ساز اور پڑھے لکھے طبقات میں جس شعوروآگہی کا یہ عالم ہو تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے ماہ وسال ہمارے لیے کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ بلکہ گزرے ہوئے ماہ و سال بھی کچھ کم قیامت خیز نہیں گزرے۔ سیلاب، خشک سالی، گرمی کی شدید لہر، لینڈ سلائیڈنگ، شدید بارشیں، موسمیاتی تبدیلی کا کون سے مظہر ہے جس کا سامنا ہم نے نہیں کیا اور کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ہونیوالے معاشی نقصانات کا اندازہ لگایا جائے تو بات اربوں نہیں کھربوں تک جائے گی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں