نوجوانوں کا سامراج مخالف عالمی اجتماع

یہ سفر 1947ء میں ورلڈ فیسٹیول آف یوتھ اینڈ اسٹوڈنٹس کے تحت پراگ سے شروع ہوا اور آج ستر سال ہوگئے ہیں۔


Zuber Rehman November 19, 2017
[email protected]

نوجوانوں اورطلبہ کا 19 واں عالمی میلہ 14اکتو بر تا 22اکتوبر 2017ء میں روس کے سوچی شہر میں منعقد ہوا۔ 150 ممالک کے 20000 سے زا ئد مندوبین نے شرکت کی۔ اس اجتماع کا نعرہ تھا ''امن، یکجہتی اورسماجی انصاف'' وہ سامراج کے خلاف جدوجہدکررہے ہیں، وہ مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کے لیے اپنا مستقبل تعمیرکرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم روس کے عوام خصوصا نوجوانوں اور طلبہ سے مخاطب ہیں کہ روس سامراج سے مفاہمت نہ کرے۔

ہم نے تاریخی طور پر روس کا سنہرا دور دیکھا ہے، خاص کر 1917ء کا اکتوبر سوشلسٹ انقلاب جس نے نئے سماج کی تعمیرکی۔ سوشلزم نے انسانوں کے استحصال کا خاتمہ کیا۔ ہم نے نازی ازم اور فاشزم کے خلاف بہادرانہ مزاحمت دیکھی ہے۔ ہم سب ایسی جگہ پہ جمع ہوئے ہیں جس نے فاشسٹ یلغارکو قریب سے دیکھا ۔ ہم آزادی کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں جو ترقی پسند،کمیونسٹ، فاشسٹ مخالف اور جمہوری اقدارکی حمایت کرتے ہیں۔

ہم فاشزم اور نازی ازم جیسی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے آئے ہیں ، جسے سرمایہ داری نے جنم دیا ہے ۔ ہم سامراج مخالف قوتیں دنیا بھرکے کونے کونے سے یہاں آئے ہیں، سترسال سے ایسے اجتماعات منعقد کرتے آرہے ہیں ۔ پاکستان سے ڈیموکریٹ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک وفد نے چیئرمین ثاقب ڈومکی کی قیادت میں اس اجتماع میں شرکت کی۔ واضح رہے کہ ڈی ایس ایف، ورلڈ فیسٹیول آف یوتھ اینڈ اسٹوڈنٹس کا رکن ہے ۔ سوویت یونین نے دو بار عالمی یوتھ فیسٹول کی میزبانی کی ہے۔

انیسواں یوتھ فیسٹیول ایک بڑا اورقابل ذکرسامراج مخالف اجتماع ہے ۔ یہ ترقی پسند اور انقلا بیوں کا اجتماع ہے یہاں رجعت، فاشسٹ اورصیہونیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم ان نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کر تے ہیں جنھوں نے اس جدوجہد میں اپنی زندگی وقف کردی جیسا کہ چی گویرا، فیڈل کاسترو، محمد عبد العزیز اور رابرٹ گابریل موگابے نے اپنا سب کچھ قر بان کردیا ۔

یہ سفر 1947ء میں ورلڈ فیسٹیول آف یوتھ اینڈ اسٹوڈنٹس کے تحت پراگ سے شروع ہوا اور آج ستر سال ہوگئے ہیں۔ اس اجتماع کی شروعات نوآبادیات، آمریت، فاشزم، جنگ، قبضے، جارحانہ مداخلت اور خود مختاری پر حملے کے خلاف تھی۔ یہ ایسا فورم ہے کہ جو سب کے لیے تعلیم کا حصول چا ہتا ہے، صحت، کھیل اور تفریحات چاہتا ہے، عوام کا استحصال، مداخلت اور جارحیت کے خلاف ہے۔ ورلڈ فیسٹیول آف یوتھ اینڈ اسٹوڈنٹس ہمیشہ تجربات، سیاسیات، تہذیب وتمدن کا تخلیقی تبادلہ کرتا آیا ہے۔ سیمینارز، ورک شاپزاور تقاریر کے ذریعے عوام کی یکجہتی اور تعلقات کو فروغ دیا ہے۔

ڈبلیو ایف وائی ایس کا اٹھارواں اجتماع کوئیٹو، اکواڈور ِ2013ء میں منعقد ہوا۔ جس میں سامراجی جارحیت، عالمی معیشت، ثقافتی، سیاسی اورتہذیبی معیارکا جائزہ لیا گیا۔ قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے سامراجیوں کے مابین مارکیٹ پر جھگڑے اور مارکیٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش اور سرحدوں کو فوجی تناؤ میں تبدیل کرنے کی مذمت کی گئی تھی۔ عالمی طور پر امریکی سامراج اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر دنیا پر اپنا غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس غلبے کو تحفظ دینے کے لیے اس نے نیٹو، امریکا اور ای یو سے گٹھ جوڑ بنا رکھا ہے۔

مشرق وسطی میں اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لیے شام کو جنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے، ساتھ ساتھ فرقہ واریت اور مذہبیت کا سہارا لیا جارہا ہے۔ قدرتی وسائل پر حاوی رہنے کے لیے صیہونی قوتوں کے ذریعے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ کروایا جارہا ہے۔ یورپی یونین میں موجود نیٹو فورسزکے فو جی اڈوں کو مستقل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کا ثبوت 2016ء میں وارسا کے سمٹ میں قرارداد پاس کی گئی تھی۔ لاطینی امریکا میں سامراجی مداخلت اور مسلسل وہاں کی حکو متوں کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کی مذمت کی گئی۔

افریقی ممالک جو پہلے سے نو آبادیاتی نظام کے شکار رہے اب آخری آزاد ہو نے والا ملک مغربی سہارا کی خود مختاری اور سلامتی کو سلب کرلیا گیا ہے۔ ایشیا پیسیفک کے علاقے کو جوہری دھمکیوں کے خطرات درپیش ہیں، یہاں فوجی اڈے قائم کیے جارہے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا استحصال بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے ممالک جہاں کسی قسم کا خلفشار نہیں ہے یا رجعتی دھارے بھی نہیں ہیں وہاں بھی قوم پرستی،نسل پرستی، فرقہ پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کی تخلیق کی جارہی ہے۔ مثال کے طور رجعت پرستی، فاشزم اور انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کو اسلحے سے لیس کیا جارہا ہے، یورپ کے بعض ملکوں میں کمیونزم کو فاشزم سے مماثلت دینے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔

رجعت پسندی اور فاشزم کے خلاف نوجوانوں اور محنت کشوں کو متحدہ جدوجہد کرنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کمیونسٹ مخالف موقف کی مخالفت کرتے ہیں اور نیٹوکے خاتمے کی بات کرتے ہیں۔ ہم ڈی پی آرکے (سوشلسٹ کوریا) کے خلاف امریکی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں اور ان کے خلاف ہیں جو جنگ، بحران ، استحصال بیروزگاری، افلاس اور ان کی آ زادی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ہم امن، سلامتی اور خود مختاری کی بات کرتے ہیں۔ سرمایہ دارا نہ معاشی بحران صرف سامراجی جارحیت کی رہنمائی نہیں کرتا بلکہ وہ سماجی نابرابری اورافلاس کی بڑھوتی میں تیزی لاتا ہے۔

دنیا کے ایک فیصد امیرآدمی دنیا کی پچاس فیصد دولت کے ما لک ہیں۔اس قسم کی نا انصافی والی دنیا جو ترقی کے نام پر نوجوانوں کا استحصال کر رہی ہے وہ قائم نہیں رہ سکتی ۔ بے روزگاری کروڑوں نوجوانوں کے لیے ایک مسلسل اور مستقل بوجھ بنی ہوئی ہے ۔ سماجی اور مزدوروں کے حقوق معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ خواتین، بچے، مہاجرین اور دیگر سما جی گروہ ابھی تک بہت سے ملکوں میں غلا می کے دور سے گذر رہے ہیں ۔صحت، تعلیم اور ثقافت کو تجارت بنا دیا گیا ہے اور مخصوص مراعات یافتہ طبقات تک محدود کردیا گیا ہے۔

تعلیم کو تخلیقی ذرائع کے بجائے بازارکی ضرورت کے تابع کردیا گیا ہے ۔ ماحولیات کو منافعے کے حصول کے لیے تباہ کردیا گیا ہے۔اس بربریت کے سامراجی نظام سے انیسواں ڈبلیوایف وائی ایس کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرے گا، نوجوانوں کو اس نظام کے خلاف مزاحمت کرنی ہوگی ۔ ہم طلبہ اور مزدوروں کے ساتھ ہیں ۔ ہم ہر اسکول، یو نیورسٹی اورکام کر نے کی جگہ پہ ہونے والی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں ۔ ہم ہر قسم کی سامراجی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہیں جیسا کہ شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) کو مسلسل امریکا دے رہا ہے۔

ہم اس سیارے میں ایک نئی صورتحال اور تبدیلی چاہتے ہیں ۔ ہم قدرت کی تباہی کو روکنا چا ہتے ہیں ۔ ہمیں جدید ہنروفن اورسائنسی ترقی کو محدود مراعات یافتہ طبقے کے لیے استعمال کرنے اور باقی عوام کا استحصال کرنے کے خلاف ڈٹ جانا ہوگا ۔ اکتوبر سو شلسٹ انقلاب کے سو سال گذرنے کے بعد بھی سامراج کے خلاف جدوجہد جاری ہے، آخری فتح تک لڑائی جاری رہے گی۔

میڈیا کایہ عجیب یکطرفہ رویہ ہے کہ آئی ایم ایف کے چند سو نمائندوں کے اجلاس کی خبرعالمی میڈیا پر چھائی رہتی ہے جب کہ 150 ملکوں کے 20,000 سے زائد نوجوانوں اور طلبہ کے آٹھ روزہ بھرپور اجتماع کی خبروں کو نظر اندازکیا گیا، مگر سامراجیوں کو'' وکٹر ہیوگو'' کا یہ قول یاد رکھنا چا ہیے کہ ''Revolution will not be televised''۔ یہ نوجوانوں کا اجتماع ایک روز ساری دنیا کو ایک کردے گا اور طبقات کو ختم کرکے ایک عالمی امداد باہمی کا سماج قائم کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔