قرآنی سائنسی علوم پر ایک نادر کتاب کا اجرا

قرآن مجید کی سائنسی تصریح میں قرآنی آیات کی وضاحت قرآن کے سائنسی انڈیکس کے مطابق ترتیب وار ہے۔


عثمان دموہی November 19, 2017
[email protected]

''قرآن مجید کی سائنسی تصریح'' شفیع حیدر صدیقی کی باکمال تصنیف ہے۔ یہ ان کے دین سے والہانہ لگاؤ اور قرآن کریم سے گہرے ذوق و شوق کا مظہر ہے۔ اس معرکۃالآرا تصنیف کے ذریعے قرآن مجید کے وہ راز ونیاز جن سے عام لوگ واقف نہیں ہیں ان سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس سائنسی دور میں قرآن کے سائنسی پہلوؤں کو اجاگر کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ قرآن کریم بے شک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو انسانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہے۔ اس میں انسانوں کے لیے وہ سب کچھ فرمادیا ہے جو دنیا اورآخرت میں انسان کے لیے ضروری ہے۔

دنیاوی زندگی ظاہر ہے کہ چند روزہ ہے جب کہ آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ جاری رہنے والی ہے چنانچہ اس کتاب کے ذریعے دنیا اورآخرت کی زندگیوں کے بارے میں کامل رہنمائی فرمائی گئی ہے۔ اللہ کی کتاب میں بعض باتیں ایسی ہیں جن کو سمجھانے کے لیے علمائے کرام نے قرآن کریم کی تفسیر، تشریح اور تصریح تحریر فرمائی ہیں۔ شفیع حیدر نے قرآن مجید کی آیات میں مخفی سائنسی راز نہایت دلکش انداز میں بے نقاب کیے ہیں۔ آپ بنیادی طور پر ایک کہنہ مشق انجینئر ہیں۔

آپ کا شعبہ دھاتوں سے متعلق ہے، مگر شخصیت ہمہ گیر ہے۔ آپ بیک وقت مصنف، محقق، معلم، ادیب شاعر صحافی اور سائنسدان ہیں۔ آپ پاکستان اسٹیل مل کے منیجنگ ڈائریکٹر رہے اور این ای ڈی یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ آپ کی مختلف موضوعات پرتصنیفات کی تعداد ستر ہے۔ زیر نظر تصنیف میں قرآن مجید کی 107 سورتوں کا بیان سائنسی تناظر میں پیش کیا ہے۔ مکمل سورۃ کی تصریح کے بجائے مختلف آیات کی تصریح فرمائی ہے۔

قرآن مجید کا سب سے طویل سورۃ البقر کی مختلف آیات کو اپنے موضوع کا عنوان بنایا ہے جن تصریح کے لیے اکتیس صفحات مختص کیے۔ سورۃ آل عمران کی سائنسی تصریح تیرہ صفحوں پر تحریر کی ہے۔ یہ کتاب کل 727 صفحات پر مشتمل ہے۔ جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ نہایت سادہ اور دل کو چھونے والا ہے۔ آپ نے تصریح کے لیے شاعرانہ اور ادیبانہ طرز بھی اختیارکیا ہے جس کی چاشنی میں قاری تحریر کو شروع کرکے اسے ختم کرکے ہی دم لیتا ہے تاہم ادب اور سائنس میں بہت فرق ہے۔

سائنس ظاہر ہے کہ چیزوں کی حقیقت کو بیان کرنے کا نام ہے جب کہ ادب زندگی کی حقیقتوں کو پیش کرتا ہے۔ ان دونوں کا حسین امتزاج آپ کی اس تصنیف میں موجود ہے جو قاری کو سائنس اور ادب دونوں کے ذائقوں سے محظوظ کرتا ہے، دراصل قران ہی ایسی کتاب ہے کہ جس میں ادب بھی ہے سائنس، تاریخ، فلسفہ، نفسیات، ہدایت اور آگہی کا سمندر بھی ہے اسی لیے اس کتاب نے چودہ صدیوں سے بڑے بڑے اسکالروں، محققوں، سائنسدانوں اور مذہبی عالموں کو اپنے سحر میں لیا ہوا ہے۔

یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کے سب سے زیادہ ترجمے ہوچکے ہیں۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں اس کا ترجمہ دستیاب ہوجاتا ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بھی ہے۔ یہ گمراہوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے مینارہ نور ہے۔ شفیع حیدر کی یہ محنت کا ثمر ہے کہ آپ کی تمام کتابیں بے مثال ثابت ہوئیں اور کئی کتابوں پر آپ کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔

لوگوں نے آپ کے کام کی اتنی تعریف و توصیف کی جوکسی کسی کے حصے میں آتی ہے مگر کبر و غرور آپ سے ہمیشہ دور رہا۔ آپ کی اہلیہ بھی صاحب علم و ذکا ہیں وہ ادب سے گہرا شغف رکھتی ہیں آن کی بھی کئی نگارشات شایع ہوچکی ہیں۔ شفیع حیدر کے بارے میں نامور ادیبہ شاعرہ اور محقق شاہین حبیب فرماتی ہیں ''پاکستان میں پہلی بار تیشہ، آری ہتھوڑا، پانا، لیول اور پرکار ہاتھ میں لیے بلاسٹ فرنس کے گرم حالات میں یہ قلمکار ادب کی دنیا میں رونما ہوا ہے۔

قرآن مجید کی سائنسی تصریح میں قرآنی آیات کی وضاحت قرآن کے سائنسی انڈیکس کے مطابق ترتیب وار ہے۔ لوح سے تحت تک قرآنی ترتیب اور منکشف سائنس کے راز بے نقاب کیے گئے ہیں جن سے عام قاری ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ کتاب قارئین میں یکساں مقبول عام ہوکر پہلے ہی پسندیدگی کی سند حاصل کرچکی ہے۔ یہ تنقیدی، تاریخی، نفسیاتی اور فلسفیانہ مضامین کی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ انشائیہ انداز بیان کی شوخی، طنز و مزاح کے عناصر کے ساتھ قاری کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مائل کرتی ہے۔

اس میں مقالے کی فکر بخش بصارت، دلچسپ پہلوؤں کی بو قلمونی اور تاریخ وار مرقع نگاری، سائنس کے عجائبات اور آیت قرآنی کی سچائی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔'' شفیع حیدر سورۃ آل عمران کی چھٹی آیت کی سائنسی تصریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں رب کائنات قادر مطلق ہے وہ جس چیز کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو کن فرما دیتا ہے اور وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ جس چیز کو جیسے چاہے تخلیق کردیتا ہے۔ وہ کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے جو بھی ٹیکنالوجی اور طریقہ چاہے اختیار کرسکتا ہے۔ وہ اگر چاہتا تو انسانوں کے سانس لینے کے لیے آکسیجن کو براہ راست بھی پیدا کرسکتا تھا مگر وہ صاحب قدرت ہے اس نے اپنی حکمت سے نباتات میں کلوروفل، بیکٹیریا، سورج کی روشنی اور پانی سمیت کئی مراحل اور مدارج سے آکسیجن کو پیدا فرمایا اور اس بات کا ذکر سورۃ یٰسین کی آیت نمبر 80 میں فرمایا۔ سورۃ یٰسین کی آیت نمبر 5 کی سائنسی تصریح اس انداز سے فرمائی ''زمین کی گردش اجمالی طور پر لیل ونہار کا موجب ہے'' پھر بہت سی حیران کن باتیں بتائیں کہ آسمان سے رزق بھیجا اس کے بعد زمین کو زندہ فرمایا اور آخر میں کرہ ارض پر پھیلے ہوئے ہواؤں کی گردش کے جال کا بیان فرمایا۔

سب جانتے ہیں کہ کائنات اور اس کے اجرام گردش پیہم میں ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کشش ثقل سب کو باہم ٹکرا کر تباہ و برباد کردیتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہی ارض و سماوات کو سنبھالا ہوا ہے۔ زمین اپنے محورکے گرد تقریباً 24 گھنٹے میں 104114 میل فی گھنٹے کی رفتار سے ایک چکر لگاتی ہے جب کہ سورج کے گرد زمین کی گردش سال میں ایک مرتبہ 66000 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔

سورج کی شعاعوں کا زمین سے فاصلہ، شعاعوں کا طول موج، نظر آنے والی روشنی کی وسعت Band of Visible Light اور روشنی کا صراط مستقیم میں چلنا نیزکثیف چیزوں کا روشنی کو کچھ جذب کرنا اور کچھ منعکس کرنا وغیرہ عوامل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورج کے سامنے والے زمین کے حصے میں دن جب کہ دوسری جانب رات ہوتی ہے۔ لیل و نہار متعدد اقسام کی گردش ارض و شمس کے باعث گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔

کرنل اشفاق حسین کے بقول شفیع حیدرکا طرز نگارش نہایت دلفریب اور منفرد انداز کا ہے۔ آپ اعداد و شمار کے ساتھ سائنسی خمیر کے آمیزے میں شاعرانہ تعلی اور ٹھوس معروضی حقائق شامل کرکے تحریر کو پرذائقہ بنادیتے ہیں۔ آپ کی یہ کتاب ملت اسلامیہ کے لیے ایک گراں قدر سرمایہ ہے۔ قوی امید ہے کہ اس کی خوبیوں کی بنا پر اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوں گے اور اس طرح یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں اپنا مقام بنالے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں