جنگ آزادی کا اہم کردار جھانسی کی رانی
باہمت رانی نے بھرپور مزاحمت کی اور انگریز فوج کو لوہے کے چنے چبوا دیے۔
WASHINGTON:
یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے انحراف ناممکن ہے کہ برصغیر یعنی ہندوستان، بنگلہ دیش و پاکستان کے لوگ تعصب کا اس قدر شکار ہوچکے ہیں کہ ہم آزادی کی لڑائی لڑنے والوںکو بھی تب جنگ آزادی کا ہیرو تسلیم کرتے جب یہ یقین کرلیں کہ وہ حریت رہنما ہمارا ہم مذہب تھا۔ عصر حاضر میں ہندوستان میں اس کی ایک مثال ٹیپو سلطان بھی ہے جو وہاں کی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہو رہا ہے۔ صداقت یہی ہے کہ ٹیپو سلطان کا شمار ان اولین آزادی کی جنگ لڑنے والوں میں ہوتا ہے جنھوں نے جنگ آزادی میں لڑتے ہوئے اپنی زندگی تک قربان کرد ی۔
دوسری جانب ہمارا اپنا رویہ بھی آزادی کی لڑائی لڑنے والے جوکہ ہمارے ہم مذہب نہیں تھے کوئی مثالی حیثیت نہیں رکھتا۔ مثال اس کی بھگت سنگھ ہے جس کا تعلق گوکہ موجودہ پاکستانی خطے سے تھا چونکہ وہ سکھ مذہب کا پیروکار تھا۔ اسی باعث وہ اپنا حقیقی مقام نہ پا سکا۔ بہرکیف ان تمام تر حقائق کے باوجود ہماری گفتگو کا محور ہے، جھانسی کی رانی جس نے 19 نومبر 1828ء کو ہندوستان کی ریاست بٹھور میں جنم لیا اس کا والد مورو پنت و والدہ بھاگیرتی کا تعلق ہندو براہمن گھرانے سے تھا۔
مورو پنت ایک مکمل مذہبی آدمی تھا جو بنارس کے قدیم منی کنکا گھاٹ پر جاکر اپنی مذہبی رسومات ادا کیا کرتا تھا۔ اسی باعث اس نے اپنی خوبصورت بیٹی کا نام منی کنکا بائی رکھا، البتہ اسے منوکے نام سے پکارا جاتا۔ منو ابھی کمسن ہی تھی کہ اس کی تمام تر کفالت کی ذمے داری بھور کے راجہ پیشوا جی راؤ جس کے پاس موروپنت ملازم تھے اپنے ذمے لے لی۔ مہاراج پیشوا جی راؤ نے منوکی تعلیم وتربیت اپنی سگی بیٹی کی مانند کی۔ مہاراج منوکو بڑے پیار سے چھبیلی کہہ کر بلاتے، بلا کی ذہین منو نے فارسی، اردو پر بھی خوب عبور حاصل کیا گوکہ اس کے والد ایک پنڈت تھے۔
منو کو فنون حرب سے بھی خوب لگاؤ تھا، اسی باعث اسے بچپن ہی سے گھڑ سواری، شمشیر زنی، نشانہ بازی کا بے حد شوق تھا، اسی باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منوکے تمام شوق پروان چڑھتے رہے اور وہ ان میں مشاق ہوتی چلی گئی۔ منو کو اپنی اولاد کی مانند چاہنے والے مہاراج پیشوا جی راؤ اسے اپنے ساتھ شکار پر بھی لے جاتے گویا منو کو شکار کھیلنے کا بھی شوق تھا۔ جب منو کی عمر بمشکل آٹھ دس برس تھی جب 1842ء میں منو کی عمر فقط چودہ برس تھی تو جھانسی کے راجہ گنگا دھر نے منو سے شادی کا پیغام بھیجا جوکہ منو کے والدین و منو کے کفیل مہاراج پیشوا جی راؤ کی باہمی مشاورت سے قبول کرلیا گیا۔
البتہ یہ ضرور تھا کہ راجہ گنگا دھر منو سے عمر میں 39 برس بڑے تھے جب کہ ان کی پہلی بیوی کا دیہانت ہوچکا تھا اور وہ تھے بھی لاولد۔ البتہ راجہ گنگادھرکی یہ خواہش تھی کہ وہ کسی ایسی خاتون سے شادی کریں جوکہ ایک بہادر خاتون ہو تاکہ انھیں بہادر و دلاور اولاد دے سکے یہی باعث تھا کہ راجہ گنگا دھر نے شادی کے لیے منو جیسی دلیر لڑکی کا انتخاب کیا تھا۔ البتہ شادی کے بعد راجہ گنگادھر نے منو کو لکشمی بائی کا لقب دیا اور عوامی زبان میں اسے لچھمی بائی کہا جانے لگا۔
خود منوکو بھی لچھمی بائی نام بہت بھلا لگا اور وہ دستخط بھی لچھمی بائی کے نام سے اردو میں کرتی یہ گویا ثبوت ہے کہ رانی لچھمی بائی کو اردو زبان سے بے حد انسیت تھی۔ رانی لچھمی بائی کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی مگر اسے سانپ نے ڈس لیا اور وہ کمسنی میں ہی وفات پا گیا جب کہ رانی لچھمی بائی کے بیٹے جس کا نام مودر تھا کی یوں وفات کے پس پردہ انگریز سامراج کا ہی ہاتھ تھا البتہ رانی لچھمی بائی کی بہن نے جب یہ دیکھا کہ اس کی بہن ہمہ وقت اپنے بیٹے کی وفات کے باعث مغموم رہتی ہے تو اس نے اپنا بیٹا جس کا نام آنند تھا لچھمی بائی کو گود دے دیا یوں رانی لچھمی بائی نے اپنے بھانجے کو اپنی اولاد تسلیم کرتے ہوئے آنند کا نام مودر رکھ دیا۔
البتہ رانی لچھمی بائی کے ساتھ ایک سانحہ یہ ہوا کہ ان کے شوہر راجہ گنگادھرکو 1853ء میں ان کے بھانجے علی بہادر نے قتل کردیا۔ علی بہادر کا خیال تھا کہ اس کے ماموں کے دیہانت کے بعد وہ ریاست جھانسی کا راجہ بن جائے گا مگر باہمت رانی لچھمی بائی نے اس کی یہ سازش ناکام بنادی اور تمام ریاستی امور اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ انھی حالات میں 1857ء کی جنگ آزادی کا زمانہ آتا ہے، یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی فوجیوں نے، جن میں ہندو مسلم دونوں شامل تھے، انگریز سرکار کی جانب سے دیے گئے بندوق کے کارتوس چلانے سے انکار کردیا سبب اس کا یہ تھا کہ کارتوس میں گائے و خنزیر کی چربی استعمال ہوتی تھی اور کارتوس کی پن منہ سے کھولنا پڑتی تھی۔ جب کہ مسلمان خنزیرکو ناپاک جب کہ ہندوگائے کو مقدس تصورکرتے ہیں۔
بہرکیف جنگ آزادی کی تحریک کا آغاز مئی 1857ء میں میرٹھ چھاؤنی سے ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہندوستان بھر میں پھیل گئی۔ انگریز سامراج نے بمشکل اس تحریک پر قابو پایا۔ اس موقعے پر ہوا یہ کہ باوجود 1817ء کے معاہدے کے مطابق جوکہ جھانسی کے راجہ و ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہوا تھا کہ ریاست جھانسی کے حکومتی امور راجہ و اس کے بعد راجہ کی نسلوں کے پاس ہی رہیں گے کہ سامراج انگریز کے نامزد گورنر لارڈ ڈلہوزی نے رانی لچھمی بائی سے ریاست جھانسی کے حکومتی امور سے دستبردار ہونے کو کہا۔
رانی نے انگریز سامراج کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور مزاحمت کا راستہ اپناتے ہوئے سامراج مخالف جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ رانی کی اس روش کو دیکھتے ہوئے فرنگی سرکار نے جھانسی پر ایک بھرپور حملہ کیا اس وقت رانی کی عسکری قوت و فرنگی سرکار کی عددی قوت کو مدنظر رکھا جائے تو مقابلہ ایک اور بیس کا تھا۔ مگر باہمت رانی نے بھرپور مزاحمت کی اور انگریز فوج کو لوہے کے چنے چبوا دیے۔ ممکن تھا کہ اس جنگ کا نتیجہ رانی کے حق میں جاتا کہ رانی کے ایک وزیر راؤ دلہا نے غداری کرتے ہوئے خارجی دروازہ کھول دیا۔
رانی کی وفادار باندی کاشی نے مزاحمت کی تو اسے بھی قتل کردیا گیا اور انگریز فوجی قلعے کے اندر داخل ہوگئے۔ رانی و اس کی وفادار فوج نے مقابلہ کیا مگر عددی قوت کم ہونے کے باعث اس کے شکست واضح نظر آنے لگی چنانچہ رانی نے گرفتاری سے بچپنے کے لیے قلعے کی فصیل سے چھلانگ لگادی اور گھوڑے پر سوار ہوکر راہ فرار حاصل کی۔ البتہ راستے میں ایک چھوٹی نہر تھی جسے رانی کا گھوڑا چھلانگ لگا کر پار نہ کرسکا اور رانی کا پیچھا کرنے والے انگریز فوجیوں نے رانی پر حملہ کردیا۔
مردانہ و جنگی لباس میں ملبوس رانی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر زخمی ہونے کے باعث گھوڑے پر بیٹھ کر فرار ہوگئی۔ ایک مقام پر ایک جھونپڑی کے پاس جاکر دم لیا اور جھونپڑی کے مکین بزرگ سے کہا کہ میں لب دم ہوں جلدی سے میرے اوپر گھاس پھونس ڈال کر مجھے جلا دو تاکہ انگریز مجھے مردہ حالت میں بھی گرفتار نہ کر پائے۔ اس بزرگ نے ایسا ہی کیا یوں رانی نے اپنی جان قربان کرکے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا آغاز کردیا۔
اگلے 90 برس فرنگی سرکار کو ہندوستانیوں کی شدید مزاحمت کا سامنا رہا۔ رانی تمام مذاہب کا احترام کرتی اور محرم میں اس کی جانب سے تعزیہ برآمد ہوتا جیسے رانی کا تعزیہ کہا جاتا۔ 1858ء میں جاں بحق ہونے والی رانی نے فقط 30 برس کی عمر پائی البتہ لوگوں کے دلوں میں رانی آج بھی زندہ ہے۔ 19 نومبر 2017ء کو رانی کا 189 واں جنم دن ہے۔